بھارت نے حسب روایت ممبئی میں بم
دھماکوں اوردہشت گردوں کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کردی ہے۔ وزیراعظم
بھارت من موہن سنگھ نے نام لئے بغیر بھارت کے سب سے بڑے تجارتی اور صنعتی شہر
میں خونریزی اور دہشت گردوں کے قبضے میں پڑوسی ملک کو ذمہ دارقرار دیا ہے اور
کہا ہے کہ وہ یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی پڑوسی ملک اپنی سر زمین سے بھارت
پر حملے کرے اور ان حملوں میں ملوث عناصر کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس
سانحے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام سب سے پہلے بھارت کے ذرائع ابلاغ نے
عائد کرنا شروع کیا تھا لیکن اس پر بھارت ہی کے ذمہ دار عناصر نے یہ کہا تھا کہ
بغیر شواہد حاصل کیے کوئی بات کہنی مناسب نہیں ہے۔ لیکن بھارتی وزیراعظم کی
جانب سے پاکستان کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بھارتی حکومت اور فوجی اہلکاروں نے
باقاعدہ طور پر پاکستان پر الزام عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارتی بحریہ کے
ایک ترجمان نے بتایا کراچی سے ایک جہاز ممبئی پہنچا ہے جسے تحویل میں لے لیا
گیا ہے۔ بھارت کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے بھی کھل کر پاکستان کا نام لیا ہے اور
کہا ہے کہ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ممبئی کو دہشت
گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے والے فوجی آپریشن کے انچارج میجر جنرل ہودا نے بھی
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملوں میں ملوث افراد پاکستان سے آئے تھے اور
وہ پنجابی بول رہے تھے۔ یہ سارے الزام فوری طور پر سامنے آئے ہیں جب کہ ابھی تک
اس بات کا یقین نہیں ہوسکا ہے کہ اس واقعے میں کون سا گروپ ملوث ہے اور جنوبی
ایشیا اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والے مبصرین بھی کوئی
تجزیہ نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی کوئی شواہد سامنے آئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے
پاکستان پرعائد کیے جانے والے الزامات کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
نے چندی گڑھ میں بھارتی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممبئی میں ہونے
والی دہشت گردی میں پاکستان کو ملوث کرنا غلط ہے ثبوت کے بغیر ایسے بیانات نہ
دیے جائیں اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ممبئی
کے واقعے پر بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے وزیراعظم پاکستان مخدوم یوسف رضا
گیلانی سے بھی بات کی ہے اور بھارتی وزیراعظم کی درخواست پر آئی ایس آئی کے
سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کو بھارت بھیجنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ ممبئی کے
واقعے کے دن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت کے دارالحکومت دہلی کے دورے پر
تھے اور اپنے ہم منصب بھارتی وزیر خارجہ کو دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں
کے سربراہوں کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ قائم کرنے کی تجویز بھی لے کر گئے تھے۔
اس سانحے سے قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان اعتماد سازی اور تعلقات کی بہتری
کے لیے اقدامات تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے‘ تین مقامات پر تجارتی راہداری کے بارے
میں مفاہمت ہوچکی تھی۔ صدر آصف زرداری بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے
ایسے بیانات دے چکے تھے جن کا بھارت کے حلقوں میں زبردست خیرمقدم کیا گیا تھا
جبکہ اس پر پاکستان میں تنقید کی گئی تھی یہاں تک کہ صدرآصف زرداری نے مقبوضہ
کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی قرار دیا تھا جبکہ ابھی چند دن قبل ہندوستان ٹائمز
کی کانفرنس سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے جوہری حملہ میں پہل نہ کرنے کے معاہدے کی
پیش کش بھی کی تھی جس کی بھارت کے صحافتی حلقوں نے زبردست تعریف کی تھی۔ بھارت
کی جانب سے پاکستان پر کسی بھی دہشت گردی کا الزام لگا دینا کوئی نئی بات نہیں
ہے۔ لیکن یہ بات ایسے وقت پر کی گئی جب بھارت کے ریاستی ادارے‘ سیکورٹی فورسز
اور فوج مل کر بھی چند درجن حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کرسکی تھی۔ اس واقعے کے
بارے میں بھارت اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں دفاعی تجزیہ نگارسوالات بھی
اٹھانے لگے ہیں۔ اس بارے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بھارت کے سب سے زیادہ
سیکورٹی کے علاقے میں اتنا بھاری اسلحہ کس طرح پہنچ گیا۔ حملہ آور اعلیٰ تربیت
یافتہ اور دیر تک الجھانے والی لڑائی کے ماہر ہیں اور چند درجن افراد کس طرح
دنیا کی ایک بہت بڑی فوج‘ سیکوریٹی ایجنسی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جل دے کر
ایک بڑے شہر پر اتنی طویل مدت کے لیے قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔اس
واقعے میں پہلے ہی مرحلے پر بھارت کے انسداد دہشت گردی کے شعبے کے سربراہ ہیمنت
کرکرے سمیت اہم پولیس افسران کی ہلاکت پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس
واقعے سے قبل بھارت میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کے دوران
میں بھارتی فوج کے اہلکار ملوث پائے گئے ہیں اور ان کی گرفتاری کا سہرا ہیمنت
کرکرے کے سر باندھا گیا تھا اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ مالیگاﺅں بم
دھماکے کی تفیش مکمل کرچکے ہیں۔ان کی کارکردگی پر انتہا پسند بی جے پی اور اس
کی ذیلی اور اتحادی جماعتیں سخت حملے کرتی رہی ہیں۔ ممبئی کا واقعہ محض خفیہ
ہاتھوں کے ذریعے بم دھماکے کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور کمانڈو
آپریشن کی مہارت رکھنے والے افراد کے گروپ نے مختلف مقامات پر اندھا دھند
فائرنگ کی‘ گرنیڈ اور بم دھماکے کیے‘ پھر تین بڑے ہوٹلوں پر قبضہ کرلیا اور بعد
میں ایک ایسی عمارت پربھی قبضہ کیا جہاں بھارتی یہودی آبادتھے۔ بھارت کے ذرائع
ابلاغ نے اس واقعے کو فوری طور پر بھارت کا نائن الیون بنانے کی کوشش شروع کردی
ہے اور اسے بھارت پر حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ان سوالات کے
جواب کی ضرورت ہے ۔ بھارت بھی انسداد دہشت گردی کا امریکی اتحادی بن چکا ہے۔
مختلف واقعات کے بعد بھارت کے سیکورٹی ادارے مسلسل چوکنا اور چوکس ہیں۔
خود ممبئی کو ریڈزون میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اس کے تفتیشی اور جاسوسی ادارے
مسلسل مختلف گروپوں اور تنظیموں پر نظر رکھے ہوئے تھے‘ اپنی ضروریات سے بھارت
کا سفر کرنے والے کئی عام شہری زیرحراست ہیں اور اس بارے میں ہولناک داستانیں
سامنے آتی رہی ہیں۔ ان اداروں کے چوکنا رہنے اور سیکورٹی کے حوالے سے اعلیٰ
ترین اداروں کی چوکسی کے باوجود کس طرح اتنے بڑے اسلحے اور گولہ بارود کے ساتھ
چند نوجوانوں نے بھارت کے سب سے بڑے صنعتی شہر کو یرغمال بنالیا اور ایک بہت
بڑی پولیس‘ فوج اور سیکورٹی کے اداروں سے مقابلہ کرتے رہے ۔ ویسے بھی بھارت میں
علیحدگی کی 40 سے زائد مسلح تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ سری لنکا میں تامل علیحدگی
پسند مسلسل مسلح تحریک چلاتے رہے ہیں جن کی مدد بھارت کرتا رہا ہے۔ جبکہ صرف
کشمیر کی تحریک ایسی ہے جو مسلمانوں کی تحریک ہے اور یہ متنازعہ مسئلہ ہے اور
اقوام متحدہ میں موجود ہے۔ بھارت کے مسلمان 60 برسوں سے مسلم کش فسادات کے
باوجود بھارت کے داخلی دائرے میں اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ دکن مجاہدین
نامی غیرمعروف اور مجہول تنظیم کے نام سے اس طرح کا واقعہ صاف ظاہرکرتا ہے کہ
اس کی پشت پر وہ قوتیں ہیں جو بھارت کے مسلمانوں کو ہدف بنانا چاہتی ہیں اس لیے
کہ ایسی جدوجہد کو نہ بھارت کا کوئی سمجھ دار‘ معقول مسلمان قبول کرسکتا ہے اور
نہ ہی بھارت سے باہر پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک کا شہری اس کی حمایت کرسکتا
ہے۔ تاج ہوٹل کے عینی شاہدوں کے مطابق حملہ آور دہشت گردوں نے شراب بھی پی اور
عام آدمیوں کو بے حسی‘ سفاکی سے قتل بھی کردیا۔ کوئی بھی مجاہد ایسا کام کرنے
کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اس لیے اس واقعے کی پشت پر وہ لوگ ہیں جن کا کوئی
تعلق کسی بھی تحریک سے نہیں ہے۔ یہ واقعہ بھی امریکا کے نائن الیون کی طرح
پراسرار نظر آتا ہے‘ اس لیے بھارت کے سمجھدار شہریوں کو اپنی حکومت اور اس کی
ایجنسیوں کے اوپر نظر رکھنی چاہیے۔ ایک فوجی کی گرفتاری سے تو یہ ظاہر ہی ہوچکا
ہے کہ بھارت کی حکومت کے اندر ایسے انتہا پسند عناصر موجود ہیں جو خود دہشت
گردی کی واردات کر رہے ہیں۔ اس لیے اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ کی فراہمی اور
حملہ آوروں کا اعتماد بغیر کسی داخلی پشت پناہی کے ممکن نہیں۔ امریکا کا اتحادی
بننے کے بعد بھارت کی امریکا نواز لابی سخت تنقید کی زد میں ہے اور اسے امریکی
غلامی قرار دیا جارہا ہے‘ اس لیے ہم اس شبہ کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ
یہ ایک عالمی سازش ہے تاکہ بھارت امریکی کیمپ میں مستقل رہے۔ |