طالبان سے مذاکرات

افغانستان ہمارا ہمسایہ اور برادر مسلم ملک ہے۔ اس کے حالات کی خرابی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ افغانستان کے لوگوں میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں‘ جو انہیں دنیا بھر کے لوگوں سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بڑے جفاکش‘ محنتی قوت برداشت اور صبر سے مالامال ہیں۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے کبھی غیروں کی غلامی کو قبول نہیں کیا۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ کفایت شعار ہیں۔ اس وجہ سے ملک کی معیشت پسماندہ ہونے کے باوجود افغانستان دنیا کے بیشتر ممالک کے برعکس قرضوں کے بوجھ سے محفوظ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان میں موجود ظاہر شاہ کی حکومت نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور اقوام متحدہ کی رکنیت کے مسئلے پر بھی پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ بحیثیت مجموعی ظاہر شاہ اور اس کے بعد سردار داﺅد اور ان کے جانشینوں نور محمد ترکئی‘ حفیظ اللہ امین‘ ببرک کارمل اور نجیب اللہ سبھی کے جذبات اور موقف پاکستان کے خلاف ہی رہے۔ افغانستان ہمیشہ سے روسی کیمپ میں شامل تھا لیکن ببرک کارمل کے دور میں جب اس کی دعوت پر روسی فوجوں نے کھلم کھلام افغانستان پرحملہ کرکے جارحیت کی تمام حدیں پھلانگیں تو افغانستان کے غیرت مند مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1979ءسے لے کر 1990ءتک تقریباً گیارہ سال یہ جنگ جاری رہی۔ مختلف جہادی تنظیمیں میدان میں تھیں۔ روس اپنی سپرمیسی کے باوجود اس گیارہ سالہ جنگ میں بری طرح شکست سے دوچار ہوا۔ اس کے کئی ٹکڑے ہوئے جس سے اس کا جغرافیہ بدل گیا اور اسے پوری دنیا سے اپنا تسلط ختم کرکے واپس لوٹنا پڑا جس سے اس کی تاریخ بھی بدل گئی۔

افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس دور میں مجاہدین کے باہمی اختلافات بھی تشویشناک تھے لیکن امریکا اور پاکستان کی حکومت نے ایک سازش کے ذریعے مجاہدین کی اس حکومت کو ختم کیا اور ان کی جگہ افغانستان میں یکایک طالبان کے نام سے ایک نئی حکومت ابھر آئی۔ طالبان پاکستان کے حامی اور انڈیا کے مخالف تھے۔ امریکا اور پاکستان کی حکومتیں جب انہیں شیشے میں نہ اتارسکیں تو ان کے خلاف سازشیں شروع کردی گئیں۔ اندرونی طور پر بھی ان میں اپنے ایجنٹ داخل کئے گئے اور بیرونی طور پر بھی ان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کیا گیا۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی کہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے اپنے ملکی و قومی مفادات کے خلاف امریکی اشاروں پر کٹھ پتلی انداز میں عمل درآمد شروع رکھا۔ طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے امریکا کو جنگی قوت استعمال کرنا تھی اور یہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی۔ امریکا نے پاکستان کے بزدل حکمران جنرل پرویزمشرف کو دھمکی دی تو وہ فوراً ڈھیر ہوگیا۔ پاکستان نے پوری طرح امریکی کیمپ میں شامل ہوکر افغانستان سے پاکستان دوست طالبان حکومت کا خاتمہ کرادیا لیکن افغانستان میں گوریلا جنگ شروع ہوگئی جس کے مقابلے پر نیٹو کی اتحادی فوجیں آٹھ سال کی جنگ کے بعد بھی آج بے بس نظر آتی ہیں۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر نے تسلیم کیا ہے کہ طالبان کا پلڑا دن بدن بھاری ہورہا ہے‘ اسی لئے وہ حامد کرزئی کی مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرا رہے ہیں۔

پاکستان جو امریکا کا اتحادی ہے‘عجیب المیئے کا شکار ہے۔ ساری خدمات پیش کرنے اور کھربوں روپے ضائع کرنے کے بعد اس کی معیشت بالکل بیٹھ گئی ہے۔ دوسری جانب افغانستان پر قابض غیرملکی فوجیں افغانستان کے اندر تو اتنی فعال نہیں جتنی سرزمین افغانستان سے پاکستان کے علاقوں پر حملوں میں مصروف ہیں۔ ہر روز درجنوں پاکستانی لقمہ اجل بنتے ہیں۔ خود پاکستانی فوج امریکی اشاروں پر اپنے عوام سے برسرجنگ ہے۔ پاکستانی حکومت کا سرپرست امریکا ہمیشہ اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔ فوجوں کی بے بسی کے بعد اب صورت حال یہاں تک آپہنچی ہے کہ امریکا کی خفیہ سفارتی کوششوں کے نتیجے میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ ‘ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔ شاہ عبداللہ عالم اسلام کی ایک بھاری بھرکم اور معزز شخصیت ہیں۔ مذاکرات کے کچھ دور اس سے پہلے ماہ ستمبر میں ہوچکے ہیں اور رائٹر کے مطابق مزید سیشن عنقریب ہونے والے ہیں۔ ستمبر میں ہونے والے مذاکرات کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ ان مذاکرات میں طالبان نے دوبارہ شمولیت پر آمادگی ظاہر کی ہے یا نہیں ؟ حامد کرزئی جس کی افغانستان میں عملاً کوئی حیثیت نہیں‘ مذاکرات کی پیشکش کرتا ہے تو طالبان جواب میں کہتے ہیں کہ اس تجویز پر نہ ہنسا جاسکتا ہے نہ رویا جاسکتا ہے۔ ملا عمر جو طالبان کا سپریم کمانڈر ہے ابھی تک امریکا نے اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے ۔ ساتھ ہی کرزئی کے ذریعے اسے مذاکرات کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ یہ کیسا دوغلاپن ہے ؟ حامد کرزئی نے اپنے تازہ ترین بیان میں یہ کہا ہے کہ طالبان نے اس کی پیشکش کے جواب میں کسی گرم جوشی کا مظاہرہ تو نہیں کیا مگر انہوں نے غیر مبہم انداز میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ غیر ملکی فوجیں افغانستان کی سرزمین سے نکل جائیں ۔ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ کسی بھی تجویز پر ان قابض فوجوں کے ملک سے چلے جانے کے بعد ہی غور ہوسکتا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان غیرملکی فوجوں کے نکل جانے کے بعد مذاکرات ویسے ہی بے معنی ہوجائیں گے کیونکہ جس لمحے افغانستان کی سرزمین غیرملکی فوجوں سے پاک ہوئی‘ اسی لمحے کابل میں کرزئی حکومت کاخاتمہ ہوجائے گا۔ صدر حامد کرزئی ایک فرد ہے جو امریکا نے افغانستان پر چند سال قبل مسلط کیا تھا۔ امریکا میں اس کا بزنس تھا‘ وہیں سے کابل میں لاکر بٹھایا گیا۔ اس کی حکومت عملاً ایک دن کے لئے بھی افغانستان پر قائم نہیں ہوسکی۔ وہ صدارتی محل میں غیر ملکی سیکورٹی کی حفاظت میں بیٹھا ایک بے جان مہرہ ہے۔ وہ امریکی اشاروں پر پاکستان کے خلاف بیان داغنے کے سوا کوئی کام نہیں کرسکتا۔

اقتدار ختم ہوا تو وہ واپس امریکا چلا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے امریکی کھیل کا حصہ بن کر اپنے گھر کو جو آگ لگائی ہے‘ اس کی تلافی کیسے ہوسکے گی؟ افغانستان میں پاکستان کے حامی عناصر آج بھی سرزمین پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ کسی سرزمین کے حکمران جو زخم لگاتے ہیں‘ ان کے اثرات سے صرف نظر تو نہیں کیا جاسکتا۔ زرداری حکومت امریکی وفاداری و اطاعت میں پرویزمشرف سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ فوجی دور میں تو سمجھا جاتا تھا کہ پارلیمان فوجی سربراہ کی وجہ سے بے بس ہے۔ اب نام نہاد جمہوری دور میں پارلیمان کی مشترکہ قرارداد کا جو حشر ہوا ہے ‘ اس نے جمہوریت سے لوگوں کو مزید متنفر کر دیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے ہاں امن قائم کرنے کے لئے ملک کے اندر موجود طالبان سے مذاکرات کرے اور پھر عالمی سطح پر یہ آواز اٹھائے کہ افغانستان میں جنگ وجدل کا خاتمہ بھی مذاکرات کے نتیجے میں اس وقت ہوسکتا ہے جب غیرملکی فوجیں وہاں سے کوچ کرجائیں۔ اگر پاکستان یہ اسٹینڈ لے لے تو اندرونی شورش ختم ہوسکتی ہے۔ لیکن جناب زرداری بڑی مشکل سے لیلائے اقتدارسے ہم کنار ہوئے۔ انہیں اپنی حکومت بہت عزیز ہے مگر انہیں جان لینا چاہئے کہ حکومت محض خواہشات اور تمناﺅں سے نہیں کردار اور عمل سے بچائی جاسکتی ہے تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قومیں اپنی غیرت و حمیت کی وجہ سے سربلند ہوتی ہیں۔ اس سے محروم ہوجائیں تو کسی بڑے کی عزت بچتی ہے نہ چھوٹے کی۔ کسے نہیں ہے تمنائے سروری‘ لیکن خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
Hafiz Idrez
About the Author: Hafiz Idrez Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.