پاکستان میں عدلیہ اوراداروں
کابحران ہے کہ حل ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بیشتر لوگوں کی رائے میں یہ بحران
گزشتہ سال 9 مارچ سے شروع ہوا تھا۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ بحران 3 نومبر2007ء کو
سنگین ہوا تھا لیکن دیکھا جائے تو حقیقتاً یہ بحران مولوی تمیزالدین کیس کے وقت
سے جاری ہے اونچ نیچ ہوتی رہی ہے۔ اس ادارے کی اہمیت کا احساس دراصل اس وقت ہوا
جب جنرل پرویزمشرف نے اسمبلیوں‘سینیٹ‘ فوج اور سیاسی جماعتوں کو مکمل طور پر
اپنے قابو میں کرلیا اور جب ان کا کنٹرول ایٹمی پروگرام ‘مسئلہ کشمیر اور جہاد
سے ختم ہوگیا جب یہ تینوں ادارے امریکا کے کنٹرول میں جانے لگے اس وقت قوم کو
عدلیہ کے اندر امید کی ایک کرن نظر آئی اور چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اس
کرن کو روشنی کے منارے میں تبدیل کردیا اور اسٹیل ملز ‘لاپتہ افراد اوردیگر
امور پر ایکشن لے کر یہ امید پیدا کی کہ پاکستان کے حالات سدھارنے کے لئے کوئی
ادارہ اب بھی ایسا ہے جس میں اتنی صلاحیت ضرور ہے کہ اگر اسے درست راستے پر
چلایا جائے تو ملک کے بقیہ ادارے بھی درست کام کرنے لگیں گے۔ گویا عدلیہ کو جسم
میں دل کا مقام ملنے کی امید پیدا ہوگئی تھی لیکن جنرل پرویزمشرف نے اپنے
اقتدارکی خاطر اس ادارے پر بھی کاری وار کیا اور ایک بار پھر عدلیہ کو معطل
کردیا چیف جسٹس معزول ہوگئے اور پورے ملک میں عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوگئی
۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر جو الزامات تھے ان میں سے ایک سنگین الزام یہ
بھی تھا کہ ان کے بیٹے کو پبلک سروس کمیشن نے غیر ضروری طور پر اضافی نمبر دے
کر ان کی صلاحیت سے زیادہ پوسٹنگ دے دی تھی۔ اس وقت یہ بحث بھی ہوئی تھی کہ
جسٹس افتخار نے ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی یا نہیں لیکن نہ تو یہ ثابت ہوسکا کہ
انہوں نے ایسا کہا تھا اور نہ یہ ثابت ہوسکا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔
ایشوز بدل گئے تھے جسٹس افتخارکی معزولی جرنیل کے سامنے جرات کا مظاہرہ کرتے
ہوئے ناں کہنے اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کی جدوجہد کے اعلان نے اس بات کو بے
معنی بنادیا تھا ان کے خلاف الزامات ثانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اصل بات
عدلیہ اور ججوں کی بحالی بن گئی تھی۔ آج پھر ایک شور اٹھا ہے کہ موجودہ چیف
جسٹس کی صاحبزادی کوانٹرمیڈیٹ میں اضافی نمبر دلوائے گئے ہیں۔ اب تک جو باتیں
سامنے آئی ہیں کم وبیش اتنی ہی خطرناک یا سنگین ہیں جتنی کہ جسٹس افتخار کے
معاملہ میں تھیں۔ یعنی یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ جسٹس ڈوگر نے ایسا کوئی حکم جاری
کیا ہے یا کسی سے ایسا کرنے کے لئے کہا ہے لیکن بورڈ کی چیئرمین نے جو کچھ
بتایا وہ بھی حیران کن ہے ان کا کہنا ہے کہ 1093 امیدواروں نے پرچے دوبارہ چیک
کرنے کی درخواست کی تھی ان میں 201 امیدواروں کے کیسوں میں بعض خامیاں پائی
گئیں ۔ فرح حمید ڈوگر کا کیس بھی ان 201 لوگوں میں تھا جن کو نئی مارکس شیٹ
جاری کی گئی۔ اس طرح مس فرح حمید ڈوگر کا گریڈ سی سے بی ہوگیا۔ فیڈرل بورڈ کی
ترجمان اور چیئرمین نے کہا ہے کہ اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو قانون کے مطابق
کارروائی ہوگی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ 201 امیدواروں کو نئی مارکس شیٹ جاری کی
گئیں ان میں سے ایک فرح حمیدڈوگر ہیں۔ چیف جسٹس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چیف
جسٹس نے اثرورسوخ استعمال نہیں کیا۔ بورڈ نے ایسا کیا تو یہ اس کے اختیارات میں
شامل ہے۔ پاکستان میں فیڈرل بورڈ ہو یا کوئی اور بورڈ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ہو
یا میٹرک یا بی اے اور بی ایس سی کا۔ یہ پہلا اور آخری امتحان نہیں تھا۔ پورے
ملک میں کیاحالات رہے ہیں لاکھوں بچے بچیاں ہر سال امتحان دیتے ہیں بہت سے شاکی
رہنے میں بورڈ آفس سے رجوع کرتے ہیں لیکن جس قدر تیز رفتاری فیڈرل بورڈ نے اس
کیس میں دکھائی ہے ایسی تو پاکستان کے کسی بورڈ نے کبھی نہیں دکھائی پھر جتنے
پرچوں کو دوبارہ چیک کیا گیا اور بھی 20 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ ہماری معلومات کی
حد تک اور پاکستان میں جو روایت ہے اس کے مطابق تو بورڈ آفس میں ایسی درخواستوں
کی شنوائی بھی بڑا مشکل کام ہے۔ اس کے بعد 95 فیصد درخواستوں کو تو یہ کہہ کر
جواب دے دیا جاتا ہے کہ آپ کے نمبر چیک کئے گئے اور درست ہیں اور مارکس شیٹ میں
لکھے گئے نمبروں کے مطابق ہیں 5 فیصد معاملات میں کل نمبروں کا میزان نکالنے کی
غلطی کو درست کیاجاتاہے۔ لیکن یہ کمال جو فیڈرل بورڈ نے کیا ہے اس کی مثال نہیں
ملتی جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حامی و ہمدرد اب یہ سب باتیں کرنے میں حق
بجانب ہوگئے ہیں کہ جناب جسٹس افتخار چوہدری اور جناب جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے
رویوں اور معاملات کا موازنہ کریں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر
چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ان ہی کمزوریوں کے باعث عبدالحمیدڈوگر کو چیف
جسٹس بنایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ سوال بجا طورپر اٹھایا ہے کہ بورڈ کو ازخود
نمبر بڑھانے کی کیا ضرورت تھی دوسرے یہ کہ چیف جسٹس ایسا نازک منصب ہے بلکہ عام
جج بھی اتنا نازک اور حساس منصب ہوتا ہے کہ وہ کسی وکیل یا کسی فریق سے اپنے
گھر یا کسی اور نجی مجلس میں ملاقات کرتے ہوئے احتیاط کرتا ہے یہی چیف جسٹس
افتخار محمد چوہدری کا معاملہ تھا جسٹس رانا بھگوان داس قائم مقام چیف جسٹس تھے
ان کے سامنے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا معاملہ آیا تو وہ فل بنچ میں
شامل نہیں ہوئے۔ جہاں کہیں جج کو متنازعہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے وہ یہ جملہ لکھ
کر خود کو کیس سے دور رکھتا ہے ۔ NOT BE FORE ME یہ ناٹ بی فورمی کا مطلب یہی
ہوتا ہے کہ جج معاملہ کو متنازعہ بنانے اور اپنا وزن اس میں ڈالنے سے گریزکرتا
ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سعید الزماں صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر میں
جسٹس ڈوگر کی جگہ ہوتا تو مستعفی ہوکر تحقیقات کرواتا۔ بیشتر قانونی ماہرین نے
اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تو ارکان اسمبلی نے
زبردست تنقید کی ہے انہوں نے ایک لاکھ بچیوں کے استحقاق کو مجروح قرار دے دیا۔
ظاہر ہے اس سے ایک لاکھ بچیوں کا استحقاق عملاً تو مجروح نہیں ہوا لیکن نظری
طور پر اصولی طور پر یہ لاکھوں بچیوں کا حق تھا کہ اور ہے کہ وہ جب چاہیں اپنے
پرچے اسی سرعت کے ساتھ چیک کرواسکیں جس؟؟ سے فرح حمید ڈوگر کے پرچے چیک ہوگئے۔
اگر فیڈرل بورڈ نے فرح حمید ڈوگر کو غیر قانونی طور پر اضافی نمبر نہیں دیے ہیں
تو بھی اس معاملہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے اور اگر دیے ہیں تو
معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل تک جاسکتا ہے۔ اس سارے معاملہ نے ایک بار پھر جسٹس
افتخار چوہدری والا معاملہ گرم کردیا ہے۔ پتہ نہیں یہ اتفاق ہے یا معاملات کو
اٹھانے اور بٹھانے کے ماہرین کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ یہ معاملہ عین اس وقت
ابھرا ہے جب جسٹس افتخار چوہدری امریکا میں امریکی سپریم کورٹ کا دورہ کر رہے
ہیں اور پاکستان کی عدالتوں کے بارے میں خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں تو یہ
محض اتفاق نہیں لگتا یہ سارے معاملات ایک خاص ترتیب کے ساتھ اٹھائے اور بٹھائے
جاتے ہیں ۔ بہرحال اب معاملہ کا فیصلہ ہونے تک چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو اپنی
پوزیشن واضح کرنے کے لئے کہنا ہوگا کہ ناٹ بی فورمی۔ |