حضرت شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک
حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک ریاکار شخص جو صرف دنیا کو دکھانے کے لیے
نیکیاں کرتاتھا ایک دن بادشاہ کا مہمان ہوا اس نے بادشاہ پر اپنی بزرگی کا
رعب ڈالنے کے لیے بالکل تھوڑا سا کھانا کھایا اور نماز میں کافی وقت لگایا
جب یہ شخص بادشاہ سے رخصت ہوکر اپنے گھر آیا تو آتے ہی کھانا طلب کیا اس کے
بیٹے نے کہا کہ کیا آپ نے بادشاہ کے ساتھ کھانا نہیں کھایا تھا اس ریاکار
شخص نے کہا وہاں میں نے اس خیال سے کم کھانا کھایا تھا کہ بادشاہ کو میری
پرہیزگاری کا اعتبار آجائے اور اس کے دل میں میری عزت زیادہ ہو بیٹے نے کہا
”پھر تو آپ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیں کیونکہ وہ بھی آپ نے بادشاہ کو خو ش
کرنے کے لیے ہی پڑھی ہوگی “اس حکایت میں شیخ سعدی ؒ نے ریاکاری کی مذمت کی
ہے ریاکار شخص اگر چہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی چالاکی سے لوگوں کو دھوکا
دینے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالم الغیب اللہ
تعالیٰ کو کس طرح دھوکا دے گا قیامت کے دن اس کے اچھے برے سب اعمال ظاہر
ہوجائیں گے اور اس کی ریاکاری سخت عذاب کا موجب بنے گی ۔۔
قارئین گزشتہ شب ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر پر ہم نے اہم قومی مذاکرہ ”قومی
مفادات حصہ دوم “رکھا اس مذاکرے میں سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عتیق
احمد خان صدر جموں وکشمیر مسلم کانفرنس ،سردار خالد ابراہیم صدر جموں
وکشمیر پیپلزپارٹی ،ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نومنتخب صدر آزادجموں وکشمیر
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور رافع سلیم ایم ڈی نفیس گروپ آف کمپنیز
برطانیہ وپاکستان نے شرکت کی ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ
خان نے اداکیے سردار عتیق احمد سابق وزیر اعظم آزادکشمیر نے کہا کہ ہمیں
سمجھ نہیں آرہا کہ زرداری حکومت کس سوچ کے تحت بھارت کو پسندیدہ ترین قوم
اور ملک قرار دے رہی ہے دوقومی نظریے اور تحریک آزادی کشمیر کو دفن کرکے
بھارت یہ چاہتاہے کہ پاکستان میں اپنی فوجی چوکیاں تک قائم کرلے کل پاکستان
سے بھارت یہ بھی مطالبہ کرسکتاہے کہ افغانستان کو تجارتی مقاصد کے لیے
راستہ فراہم کیا جائے پھر اس کے بعد بھارت یہ بھی کہہ سکتاہے کہ وہ اپنے
قیمتی مال کی نگہداشت اپنی سیکیورٹی اور اپنی فوج کے ذریعے کروانا چاہتاہے
بات یہاں تک جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے مختلف شہروںمیں اپنی فوجی چوکیاں
قائم کرنے کے لیے بھی بین الاقوامی دباﺅ پیدا کرواسکتاہے آزادکشمیر کے رہنے
والے لوگ پاکستان کی اس پالیسی کی شدید ترین مخالفت کریں گے ہم نے صدر آصف
علی زرداری او رپیپلزپارٹی سے مفاہمت اس لیے کی ہے کہ فضول کے لڑائی جھگڑوں
سے گریز کیا جائے اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ قومی مفادات کو نقصان
پہنچانے والی پالیسیاں بالاہی بالا بناکر قوم کو اعتماد میں لیے بغیر انہیں
ٹھونس دیاجائے سردار عتیق احمد نے کہا کہ میں نے گزشتہ روز سٹاف کالج کوئٹہ
میں چار سو کے قریب فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے اس زہریلی پالیسی کو
نظریہ پاکستان کا خطرناک ترین دشمن قرار دیا ہے ایک سوال کے جواب میں
انہوںنے کہا کہ میرے ذاتی سطح پر آصف علی زرداری ،میاں محمد نوازشریف ،عمران
خان ،اسفندیار ولی ،منور حسین ،الطاف حسین ،چوہدری عبدالمجید ،بیرسٹر سلطان
محمود ،سردار سکندر حیات ،راجہ فاروق حیدر ،خالد ابراہیم سے لے کر پوری
قومی قیادت کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں لیکن ان تعلقات کا یہ مقصد ہر
گزنہیں ہے کہ وہ پالیسیاں جو پاکستانی اور کشمیری قوم کا بیٹرا غرق کرسکتی
ہیں اس پر ہم چپ رہیں میں اس سلسلہ میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے تمام
ضلعی ہیڈکوارٹر ز کا دور ہ کررہاہوں اور میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ
کرتاہوں کہ اگر آپ نے بھارت سے دوستی کرنی ہی ہے تو کشمیر کی قربانی دینے
کی بجائے سیاچین ،سرکریک،گلگت بلتستان ،لداخ ،دریاﺅں کے پانی کے مسئلے سے
لیکر دیگر مسائل کے حوالے سے سوچا جائے بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور
لاکھوں کشمیریوں نے صرف ا ور صرف آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں
بھارت سے تجارت پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے اور بھارت سے تجارت کرکے
پاکستانی صنعتوں کو دفن کردیا جائے گا بھارت ایک بڑی اقتصادی قوت ہے اور
پاکستان اس کا صنعتی میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتا سردار عتیق احمد خان نے
کہا کہ پہلے بھی بھارت نے پاکستان کے ساتھ تجارت کی تھی اور کھانے پینے کی
جو اشیاءبھارت نے پاکستان بھیجی تھیں وہ مضر صحت تھیں ہم خود کشی پر مبنی
یہ کام نہیں ہونے دیں گے ۔
سردار خالد ابراہیم نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی آزادی کا
کھلا دشمن ہے اور پاکستان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایسے اقدامات سے تحریک
آزادی کو نقصان پہنچے گا جو لوگ یہ باتیں کررہے ہیں کہ کشمیر کیس کو دس سال
کے لیے فریز کردیا جائے وہ حماقت کا مظاہرہ کررہے ہیں ایک سوال کے جواب میں
انہوںنے کہا کہ آزادکشمیر کے بانی صدر ان کے والد محترم سردار خالد ابراہیم
نے معاہدہ کراچی کے ذریعے گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے سپرد کیا تھا
اور یہ کوئی غلط فیصلہ نہ تھا بلکہ یہ واحد دستاویز ہے جو یہ ثابت کرتی ہے
کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہیں ۔
آزادجموں وکشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد
اکرم چوہدر ی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت آزادکشمیر میں ساٹھ سے زائد
صنعتی یونٹ بند پڑے ہیں ،بجلی پانی اور گیس کی سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے
وفاقی اور آزادحکومت صرف باتیں کررہی ہے عملی طور پر صنعت کار انتہائی
پریشانی کاشکار ہیں ڈاکٹر اکرم چوہدری نے کہا کہ میں آزادکشمیر حکومت صرف
آٹھ ہفتوں کی ڈیڈ لائن دے رہاہوں کہ وہ دوماہ کے اندر صنعتی ایریا کا آٹھ
سال سے زیر تعمیر پل مکمل کریں ورنہ ہم شدید ترین احتجاج کریں گے ۔
رافع سلیم ایم ڈی نفیس گروپ آف کمپنیز برطانیہ وپاکستان نے کہاکہ اس وقت
بھارت اپنے صنعت کاروں کو بجلی پانی گیس اور دیگر تمام چیزوں پر سبسڈی دے
رہاہے جبکہ ہمارے ملک میں صنعت کار سبسڈی تو دور کی بات ہے بل اداکرکے بجلی
پانی اور گیس کو ترس رہاہے یہاں سرکاری محکموںمیں رشوت اور دیگر بدعنوانیوں
کے وہ دروازے کھلے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری تو بہت دور کی بات ہے اس
سرزمین سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن ملک سے بھاگ جاتے ہیں آج بھی برطانیہ
کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں سرمایہ کارپاکستان اور آزادکشمیر میں انڈسٹری
لگانا چاہتے ہیں لیکن حکومت ان کی مشکلات دور کرے -
قارئین یہ قومی مفادات کے متعلق مذاکرے میں قومی قیادت اور صنعت کاروں کے
تاثرات تھے جو ہم نے مختصر اً آپ کے سامنے پیش کردئیے آپ خود فیصلہ کیجئے
کہ سچ کیاہے اور جھوٹ کیا ہے اس وقت نازک موڑ پر پورا ملک کھڑاہے اور ہماری
سیاسی قیادت خداجانے کیا فیصلے کرکے کیاکیا کام کررہی ہے بقول غالب کشمیر ی
قوم تویہ کہہ رہی ہے
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حوران ِ خلدمیں تری صورت مگر ملے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد ِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جاناکہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
قارئین ہمیں امید ہے کہ موجودہ پاکستانی قیادت کشمیر اور دوقومی نظریے کو
بھارت سے محبت کی نذر کرتے ہوئے دفن نہیں کرے گی اگر ایسا کیا گیا تو
پاکستان کا اپنا وجود خطرے میں پڑسکتاہے ۔
آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سیاستدان نے جلسے میں گرما گرم تقریر کرنے کے بعد اپنے دوست کو سٹیج پر
ہی کان میں سرگوشی کی ”جتنے لوگ بھی تقریر سن رہے تھے سارے گدھے تھے “
دوست نے جل کرجواب دیا
”تب ہی تو آپ ان کو میرے بھائیوں، میرے بھائیوں کہہ رہے تھے “
قارئین سیاسی قیادت سے گزارش ہے کہ وہ عوام کو گدھا مت سمجھیں اس لیے کہ ہم
ان کے بھائی ہیں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی لالچ میں قومی مفادات کو
دفن نہ کیا جائے ۔ |