سرمایہ دارانہ نظام ایک نئے چوراہے پر

سرمایہ دارانہ نظام کی مختصراً تعریف یہ ہے کہ اس نظام میں امیر، امیر تر اور غریب ،غریب تر ہوئے جاتے ہیں ۔سرمایہ دارانہ نظام کے حامی افراد جو چاہے دلیلیں اور تاویلیں باندھتے رہیں مگر سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی صرف اور صرف اوپر بیان کی گئی ایک سطر سے عیاں ہو جاتی ہے کہ اس معاشی نظام کی بنیاد ہی معاشی نا ہمواری، چوربازاری، کرنسی کی غیر مساویانہ تقسیم اور غریب اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے معاشی استحصال پر رکھی گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی افراد نے اس معاشی نظام کے قیام سے لے کر تادم تحریر اس نظام کی بقا اور سالمیت کے لیے جہاں بڑے بڑے آمروں کی پشت پناہی کی وہیں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر تا حال چھوٹی بڑی ایک سو ساٹھ کے قریب جنگوں کی بنیادی وجہ یہی نظام ہائے معیشت ہے۔عام اور سادہ الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ انیس سو اسی تک ان جنگوں کے نتیجے میں ۷۴ فیصد شہری جاں بحق ہوئے ۔

بد قسمتی سے پہلی عالمی جنگ میں شہریوں کے مرنے کی تعداد 10 ملین تھی اور پہلی عالمی جنگ کے ٹھیک پچیس سال بعد ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں مرنے والے شہریوں کی تعداد پچاس ملین تک جا پہنچی ۔سرمایہ دارانہ نظام کے ثمرات پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ہی نہیں نظر آتے بلکہ ان جنگوں کے بعد بھی اس نظام کے کرتا دھرتا شہری آبادیوں کے خون سے اپنے اس نظام کی آبیاری کرتے رہے ہیں ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا یک قطبی نظام کے تحت امریکی تسلط میں آ گئی اور صحیح معنوں میں سرمایہ دارانہ دور کا آغاز ہو ا اور کمیونزم زوال پذیر ہوا۔ امریکہ کی جانب سے ویت نام جنگ ، جس میں 4 ملین بے گناہ ویت نامی مارے گئے اور خود امریکہ کے اٹھاون ہزار فوجی واصل جہنم ہوئے، سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور سالمیت کے لیے ہی کیا گیا ایک انسانیت سوز جرم تھا۔ امریکہ نے اپنے جنگی جنون اور سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے کے لیے ہی یوگوسلاویہ، سوڈان ، افغانستان اور عراق پر بمباری کر کے اپنی اسلحے کی صنعت کو ایک نئی جہت عطا کی۔ یاد رہے 1985 ءتک امریکہ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں ۵۴ سے زائد ہونے والے لڑائی جھگڑوں اور فسادات میں 42 بلین ڈالرز کا اسلحہ سپلائی کیا گیا تھا۔23 جون 1999 ءکو نیو یارک ٹائمز کے ایک اداریے میں کوسٹا ریکا (Costa Rica)کے سابق صدر آسکر ایریاس (Oscar Arias) امریکہ کو ”آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور بیرون ملک انسانیت سوز جرائم“ کا مرتکب ٹہھراتے ہوئے لکھتے ہیں: امریکی ہتھیار اکثر عوام الناس کے مخالف ہو جاتے ہیں اور صحیح معنوں میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جیٹ فائٹر طیارے، ٹینک، مشین گنز اور دوسرے ہتھیار امریکہ سے ترقی پذیر ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک 41 ٹریلین ڈالرز کی خطیر رقم جنگوں پر خرچ کر چکا ہے جو کہ اس کے چھ نام نہاد دشمنوں کی جانب سے خرچ کی گئی رقوم سے 18 گنا زیادہ ہے یہی نہیں امریکہ اپنے بعد کی پانچ بڑی فوجی طاقتوں سے دوگنی رقوم اپنے جنگی جنون کی نظر کر تا آیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق افغانستان پر امریکی حملے کے بعد 2002ءسے2006 ءتک 99فیصد امریکیوں کی سالانہ آمدنی میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہواجبکہ سارا فائدہ ملک کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد حصے کو ہوا جس کا تعلق اسلحہ ساز فیکٹریوں یا محکمہ دفاع سے تھا۔عراق اور افغانستان میں جاری کارروائیوں اور وہاں تعینات امریکی افواج کی رہائش اور دیگر اخراجات پراب تک30کھرب ڈالرکے اخراجات اٹھ چکے ہیں۔ ان اخراجات کے باعث امریکی حکومت کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے صرف 2008 ءکے دوران ہی امریکی حکومت نے عالمی اداروں کھربوں ڈالر زائد کے قرضے لئے تھے۔ امریکہ کی افغانستان سے جنگ کی پالیسی کے نتیجے میں 2002ءکے بعد سے امریکہ میں بیروزگاری کی شرح میںبھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔

سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہونے والے معاشی استحصال کو دیکھتے ہوئے کینیڈا کے ایک ادارے ایڈ بسٹر (Ad Buster) کی جانب سے امریکہ کے سب سے بڑے معاشی مرکز وال سٹریٹ پر ”وال سٹریٹ پرقبضہ کرو “نامی پر امن تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی اور اس تحریک کی ویب سائٹ بنانے کے لیے ڈومین ”occupywallstreet.org“ خریدنے کی درخواست دے دی ۔ 2 اگست 2011 ءکو اس تحریک میں ایک اور گروپ نیو یارکرز اگینسٹ بجٹ کٹس(New Yorkers against Budget Cuts) شامل ہو گیا۔ ان دونوں گروپوں نے 18 ستمبر2011 ءکو ایک ہزار امریکی شہریوں کے ساتھ مل کر ایک منفرد رد عمل کا مظاہرہ کیا اور” وال سٹریٹ پر قبضہ کرو“ نامی تحریک کا عملی آغاز کرتے ہوئے وال سٹریٹ کے آس پاس کے علاقے میں خیمہ زن ہوگئے ۔سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ جوق در جوق اس تحریک میں شامل ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ وال سٹریٹ سے شروع ہونے والی سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کی یہ تحریک امریکہ کے ستر شہروں میں پھیل گئی۔الیکٹرانک ،پرنٹ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی بدولت جلد ہی یہ تحریک امریکہ سے ہوتی ہوئی بر اعظم ا یشیا، افریقہ اور یورپی ممالک تک پھیلنے لگی۔

اس تحریک کی ایک اور اہم اور منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس تحریک میں شامل ہر شخص کو اظہار خیال کرنے کی مکمل آزادی ہے اور یہ تحریک کسی ایک قیادت کے زیر اہتمام نہیں چل رہی۔ اس لیے عالمی مبصرین اور اقتصادیا ت کے ماہرین کی رائے میں یہ معاملہ بھی دیگر بین الاقوامی معاملات کی طرح اتنا سادہ اور سیدھا نہیں کہ جتنا نظر آتا ہے ۔ ان ماہرین کے مطابق پر امن احتجاج، دلنشیں نعرے بازی اور خوش الہان تقاریر اتنے بڑے معاشی نظام میں قطعی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ خود امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اس تحریک کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک نئی چال سمجھتے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے عہدیداران کے مطابق اگر انہوں نے اس تحریک کی حمایت کی تو بڑے بڑے سرمایہ دار ان کو مالی منفعت سے محروم کر دیں گے۔

اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس تحریک کے بانی گروپ ایڈ بسٹر کو ٹائیڈز(Tides) نامی تنظیم کی جانب سے فنڈنگ کی جاتی ہے ۔ ٹائیڈز کے بڑے بڑے ڈونرز میں بل گیٹس فاؤنڈیشن(Bill Gates Foundation) اور اوپن سوسائٹی(Open Society) شامل ہیں ۔ یہی نہیں اس تحریک کو بڑی بڑی ملٹی نیشنل آرگنائزیشنز سپانسرشپ کے نام پر امداد دے رہی ہیں جن میں وال مارٹ(Walmart)،نیسکر(Nascar)، ایپل(Apple)، دی اولیو گارڈن(The Olive Garden)،اور کورز لائٹ(Coors Light) وغیرہ شامل ہیں۔ یہی نہیں بڑی بڑی ارب پتی شخصیات بھی مختلف حیلوں بہانوں سے اس تحریک سے اپنی وابستگی کو ثابت کر رہی ہیں جن میں جمائما خان اور جولین اسانج تو براہ راست اس تحریک کے ہر اول دستے میں شامل دکھائی دیے ۔یہی وجہ ہے کہ 18 ستمبر 2011 ءسے شروع ہوئی تحریک روز بروز پروان چڑھتی جا رہی ہے اور جو تحریک سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت میں شروع ہوئی تھی دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ تحریک بنتی نظر آنے لگی ہے۔

مختصراًسرمایہ دارانہ نظام نے اپنے آغاز سے لے کر تاحال عوام الناس کا معاشی استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو مختلف النوع مسائل میں الجھائے رکھا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک، ہر انقلاب کو نیچا دکھانے کے لیے سفلی سازشوں کے تانے بانے بنے ہیں اور بڑی کامیابی سے اپنے حامیوں کو منفعت پہنچایاہے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی یہ سازش بھی بہت جلد بے نقاب ہوگی اور خود ہی اپنے منتقی انجام کو پہنچے گی۔ اگر چہ اس تحریک سے وابستہ لوگوں کی نیت پر شک ہر گز نہیں مگر وہ سرمایہ دار ادارے اور افراد جو اس تحریک کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے احیاءکی سازش کر رہے ہیں جلد یا بدیر بے نقاب ہوں گے اور زیادہ دیر تک سرمایہ دارانہ نظام کو بچائے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
Syed Zaki Abbas
About the Author: Syed Zaki Abbas Read More Articles by Syed Zaki Abbas: 22 Articles with 33869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.