حُسین حقانی کے استعفےٰ کے بعد کس
طاقتورترین شخصیت کی باری ہے قوم انتظار کرے یا ہاتھ ملے....
میمواسکینڈل کے ایک اہم کردار اور موجودہ جمہوری حکومت کے صدر آصف علی
زرداری کی عزیزترین شخصیت اورزرداری حکومت کے اہم ترین ستون اورامریکامیں
پاکستان کے سفیر مسٹر حُسین حقانی پاکستان آنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی
ہوگئے ہیں اور خود کو ہر سطح پر ہونے والی انکوائری کے سامنے پیش ہونے کا
بھی عزم کررکھاہے جس کے بعد پیداہونے والی صُورت حال کے حوالے سے یہ خیال
کیاجارہاہے کہ حکومت کو میمواسکینڈل کے حوالے سے تحقیقات کرنے اور کرانے
میں کسی قسم کی دشواری اورپریشانی درپیش نہیں ہوگی ۔
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اِن دنوں ہماری ملکی تاریخ کے اپنی نوعیت کے سب سے
انوکھے میمواسکینڈل نے صرف ہمارے ملک کے طُول وارض ہی میں نہیںبلکہ امریکا
سمیت دنیابھر میں بھی ایک ایسا بھونچال پیداکررکھاہے کہ آج سب کی نظریں اِس
میمو اسکینڈل کے تھمنے اور اِس کے حقائق پر مبنی آنے والے نتائج کی جانب
لگی ہوئیں ہیں اس منظر اور پس منظر میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اِس معاملے کو
دباناچاہتے ہوں گے اورجس کے لئے یہ اپنی کوششوں میں لگے بھی ہوں گے۔
تووہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اِس بھونچال کو منطقی انجام تک پہنچانے
کے لئے بڑی بیتابی سے انتظار بھی کررہے ہوں گے تو ایسے لوگوں کے لئے ہمیں
یہ مثل یاد آگئی ہے کہ ”نائی نائی بال کتنے...؟ججمان جی آگے آتے ہیں“ یہاں
یہ مثل ہم نے اُن لوگوں کے لئے اِس لئے دی ہے کہ جنہیں اِس میمواسکینڈل کے
نتائج جاننے کی بہت زیادہ ہی جلدی ہے تواِن کے لئے ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ
برائہ کرم یہ ہماری دی ہوئی اِس مثل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور صبر سے کام
لیں اور یہ بھی جان لیں کہ پاکستانی اور امریکی ادارے اپنے اپنے نقطہءنگاہ
سے اِس معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لئے انتہائی صاف وشفاف انداز سے تحقیقات
کررہے ہیں اور عنقریب اِس کے جو کچھ بھی نتائج ہوں گے وہ جلد یا دیر سب کے
سامنے آجائیں گے جیساکہ مسٹر حُسین حقانی نے اپنااستعفیٰ پیش کرکے
غیرجانبدار اور صاف وشفاف تحقیقات کے لئے راہیں ہموارکردیں ہیں۔اور اَب یہ
بھی دیکھئے اور انتظار کیجئے کہ حُسین حقانی کے استعفے کے بعد کس کی باری
ہے جو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے گایاہمیشہ کی طرح اپنی مصالحت پسندی کی اُوٹ
میں اِس گرداب سے کنی کٹاکر نکل بھاگنے میں کامیاب ہوجائے گا اور قوم ہاتھ
ملتے رہ جائے گی۔
حالانکہ اِس میمواسکینڈل والے معاملے پر ہماری رائے یہ ہے کہ یہ مسئلہ
اتنہائی بڑایا گھمبیر ہے کہ حکومت کو اِسے سنجیدگی سے لیناچاہئے کیوں کہ
اِس میمو کے ذریعے ہمارے ملک کے انتہائی حساس اداروں کے حوالے سے جو ا
فسوسناک نکات درج کئے گئے ہیں وہ قابل مذمت اور باعث تشویش بھی ہیں تو قابل
احتجاج بھی ... وہ اِس لئے کہ اِس میمو میںجس طرح ہمارے اِن حساس اداروں جن
پر ساری پاکستانی قوم ہمیشہ سے فخر کرتی آئی ہے اور تاقیامت کرتی رہے گی
اِن کی وہ کارکردگی جواَب تک اِنہوں نے ملک کی بقاءو سلامتی اور استحکام کے
لئے پیش کی گئیں ہیں اِنہیں جس انداز سے متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے
اِس سے یہ محسوس ہورہاہے کہ جیسے پاکستا ن کے حساس اداروں کو متنازع
بناکرملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی غیرت کو بھی للکاراگیاہے اِس حساس معاملے
پر کوئی بھی محب وطن پاکستانی یہ ہرگزبرداشت نہیں کرے گاکہ کوئی بھی ہمارے
اِن اداروں کی کارکردگی پر انگلی اُٹھائے یاشک کرے جو ملک کی سرحدوں کی
حفاظت کے لئے دن رات متحرک رہتے ہیں ۔
جیساکہ قوی خدشہ یہ ظاہرکیاجارہاہے کہ امریکامیں پاکستان کے سفیر حُسین
حقانی جو موجودہ جمہوری صدر عزت مآب جناب آصف علی زرداری کی قریب ترین
شخصیت بھی تصور کئے جاتے ہیں اِن کے درپردہ کسی خاص اشارے پر بدنام زمانہ
وہ شخص جس کا نام مصور منصور اعجاز ہے اِس نے امریکا کو یہ میموتحریرکیا
اور اِسے امریکی جنرل مائیک مولن تک پہنچایاجس کے بعد یہ میمواسکینڈل سامنے
آیاتو اِس حوالے سے خود پر شک کی بنیادپر لگنے والے الزامات کی صفائی اور
حقیقت بیان کرنے کے لئے حُسین حقانی حکومت کے فوری طلب کرنے پر گزشتہ دنوں
پاکستان آئے اورمیمواسکینڈل کی بنیاد پر اپنی ذات پر لگنے والے الزامات اور
اِس سے جنم لینے والی غلط فہمیوں کو دورکرنے میں مصروف رہے مگر یہ اپنے
دلائل سے ا یوانِ صدر سمیت کسی کو بھی مطمئن نہ کرسکے اور بالآخر ایوان صدر
کی جانب سے حُسین حقانی سے استعفیٰ طلب کیاگیااور ایوانِ صدر کی اِس ڈیمانڈ
پر حُسین حقانی نے اپنااستعفیٰ پیش کردیاجو فوراََ منظوربھی کرلیاگیا حُسین
حقانی کے استعفیٰ کے بعد کی پیداہونے والی صورتِ حال پر ملک کے سیاسی
مبصرین اور سینئر تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ حکومت اِس معاملے کی
صاف وشفاف طریقے سے تحقیقات کرانے کے لئے ایساکمیشن تشکیل دے جو غیرجانبدار
رہ کر اِ س کے اصل محرکات کا پتہ لگائے اور جو بھی فیصلہ سامنے آئے وہ
آئینہ کی طرح ہو جس پر کوئی شک پیدانہ کرسکے۔
اور جو بھی اِس معاملے میں ملوث پایاگیااِسے ایسی عبرت ناک سزادی جائے کہ
کوئی بھی آئندہ ایسی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہ سکے جس کی ناپاک حرکت سے
ہمارے حساس اداروں کی کارکردگی پر کوئی شک پیداہویا دنیاکاکوئی ملک اِس کی
کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاسکے جیساکہ پاکستان دُشمن مصور منصور اعجاز شخص
نے پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوری حکومت کو بحران سے دوچار کرنے کے لئے
ہمارے حساس اداروں سے متعلق اپنے میمومیں اُلٹاسیدھالکھ کر اِن کو ناکام
ادارے ثابت کرنے اور بیساکھیوں کے سہارے چلتے جمہوری عمل کو گرانے کی سعی
کی ہے۔
بہر حال!موجودہ حالات کے حوالے سے ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے کہ ملک کی اٹھارہ
کروڑ عوام کے دیرینہ مسائل سے مسلسل روگردانی کرنے والی ہماری اِس موجودہ
جمہوری حکومت نے ہر لمحہ اور ہر قدم پر اپنی مصالحت پسندی اور اپنے پرائیوں
کو قومی اداروں کو لوٹنے کھانے اور اِن کا بیڑاغرق کرنے کی جس طرح کھلی
آزادی دے رکھی ہے اِس کی مثال بھی ہمارے ماضی ہی میں نہیں بلکہ خطے کے
دوسرے ممالک میں بھی کہیں نہیں ملتی ہے اوراِس پر یہ کہ بات ابھی یہیںختم
نہیں ہوجاتی ہے بلکہ ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے.... کہ اِس حکومت نے ملک میں
مہنگائیکے طوفان برپا کرکے، ملک میں کرپشن اوراقرباءپروری جیسے سسٹم کوبھی
بے لگام چھوڑ رکھاہے تووہیں یہ اپنے من پسند لوگوں اور اشخاص کوقومی خزانے
سے جھولیاں بھربھرکر دینے اور قومی دولت بیدریغ لٹانے کی پالیسی پر جس طرح
عمل پیراہے اِس سے تو یہ اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل نہیں ہے کہ اَب تو
قومی خزانہ بھی خالی ہونے کے قریب تر ہوگیاہوگا ۔
مگر اِس حکومت کی سخاوت تو ایسی ہے کہ جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی
ہے اِس پر ہمیں یہ بھی کہنے دیجئے کہ اتناکچھ کرنے کے باوجود بھی ہماری یہ
موجودہ حکومت ملک کے اندر سوائے لولے لنگڑے جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے
اورکچھ نہیں کرپائی ہے مگراِن تمام باتوں کے باوجود بھی اِس حکومت کے لئے
ایک بات جو یہاں بڑی حیرت انگیزہے وہ یہ کہ ایک طرف تو اِس نے اپنا سارازور
اور دھیان ملک میں جمہوریت کے سینچنے ،پرونے اور اِسے پروان چڑھانے پر دیئے
رکھاتودوسری جانب اِس سے خائف ایک ایسا ٹولہ بھی رہاجو نہ صرف ملک کے اندر
بلکہ بیرون ممالک بھی اِس کے خلاف سازشوں کے جال بنتارہا اور اِس کے ہر عمل
اور اِس کے ہر اٹھتے قدم پر تنقیدوتشویش کرنااپنی سیاسی بقاءکا ضامن تصور
کرتارہا اورجس پر یہ آج بھی کاربند ہے اِس صورت حال میں ہم یہ سمجھتے ہیں
کہ یہی وہ وجہ ہے کہ یہ حکومت نہ تو اپنے عوام کے معیار پر ہی پورااُترسکی
اور نہ ہی یہ ملک میں صحیح معنوں میں جمہوری ثقافت و سیاست کو ہی رائج کرنے
اور کرانے میں اِن سطور کے رقم کرنے تک کامیاب ہوسکی ہے اِس ناکام حکومت کے
ایسے فرسودہ اور بے مقصد طرزحکمرانی پر ہر جانب سے اِس پر اعتراضات کی
انگلیاں اٹھ رہی ہیں مگر اِس کے ساتھ ہی ہم یہاں یہ بھی کہناچاہیں گے کہ
اپنے مخالفیں کی سازشوں کے باوجود بھی صدرآصف علی زرداری کی موجودہ حکومت
نے اپنے دورِ اقتدار کے اِن ساڑھے تین برسوں میں انتہائی پھونک پھونک کر
قدم اٹھائے ہیں ۔اور آئندہ بھی (اگر میمواسکینڈل کے نتائج کے آنے کے بعد رہ
گئی تو) عوامی مسائل کو دیدہ ودانستہ بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مفادات کا
خاص خیال رکھے گی اور عوام کے لئے تو خیر نہیں ہاں البتہ !اپنے لئے ضرور
ایساکچھ کرتی رہے گی جس سے اِس کو ہی فوائدحاصل ہوں گے اور بھوک و افلاس
اور تنگدستی کے اندھے کنوئیں میں پڑے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام یوں ہی رہیں
گے جیسے ابھی ہیں۔
جبکہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت زورپکڑتی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت کی ایک
طاقتورترین شخصیت اِس میمواسکینڈل سے پوتراور صاف وشفاف ہوکر یوں نکل جائے
گی جس طرح دودھ سے مکھی نکل جاتی ہے یا حقانی کی طرح کسی انجام کو پہنچے گی.....؟یا
پہنچائی جائے گی....؟آگے آگے دیکھئے کیا ہوتاہے....؟؟ |