اللہ کی ہر نعمت پر شکر واجب ہے
۔ شباب اور جوانی بھی خدا کی نعمت ہے ۔ اس لئے اس پر بھی شکر واجب ہے ۔
کتنے بخت آور ہوتے ہيں وہ لوگ جنہيں اللہ جل جلالہ ، اپنے اس عطيّے سے
نوازتا ہے اور طاقت ، قوت ، حسن و جمال ايسی عطاؤں کے دروازے کھول ديتا ہے
۔
جوانو ! غور کرو وُہ اللہ کی ذات جس کے قبضہ قدرت ميں ارض وسما ہے ---- فلک
وثریٰ ہے ---- گھنگھور گھٹائيں ہيں ---- خوش منظر فضائيں ہيں ---- حرکت و
ثبات ہے ---- جماد و نبات ہے ---- يمين و ليّسار ہيں ---- دريا وابحار ہيں
۔
روشن دن اور گہری راتيں ، سب کچھ اسی کے ہاتھ ميں ہے ، يہ موت و حيات کے
سلسلے اسی نے شروع کئے ۔ يہ گورے اور کالے انسان اسی نے پيدا کئے ۔ ان وحوش
وطيور کو جان اسی نے بخشی ، يہ بوڑھے اور ناتواں لوگ اسی کے حکم سے کمر
خميدہ ہوئے ، يہ وہی ہے جو چاہتا ہے سو کرتا ہے ، چاہے تو اميروں کو غريب
اور غريبوں کو امير کردے ، چاہے تو شاہوں کو گدا اور گداؤں کو شاہ بنا دے ۔
چاہے تو معصوم بچّوں سے ظِلّ پدری چھين کر انہيں يتيم بنادے اور چاہے تو
خوش عيش عورتوں کے سہاگ چھين کر انہيں بيوہ کر دے اس پر کسی کا زور نہيں ،
وہ خدا ہے ہم بندے ، وہ جابر ہے ، ہم مجبور ---- وہ خالق ہے ، ہم مخلوق
---- وہ مراد ہے ہم مريد ---- وہ قادر ہے ہم مقدور ---- وہ مالک ہے ہم
مملوک ---- مرضی اسی کی چلتی ہے ، بندہ چاہے بھی تو کيا چاہے ، قدرتيں ساری
تو اسی کے ہاتھ ميں ہيں ۔
اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیً قَدِ يْر ہ
ما نا کہ آج تم جوان ہو ---- آج تم طاقت ميں ہو ---- آج تم اپنے جيسا کسی
کو نہيں سمجھتے ---- آج تمہاری نظر شوخ شوخ ہے ---- آج تمہارے ارادے شررشرر
ہيں ---- آج حسن تمہارے گرداگرد گھومتا ہے ---- آج ادائيں تمہارا طواف کرتی
ہيں ۔
تسليم کيا ! ---- دولت بھی تمہارے پاس ہے ---- ثروت بھی تمہارے پاس ہے ۔ڈورتی
گاڑياں اور فلک بوس عمارتيں بھی تمہارے پاس ہيں ۔ دوستوں کی کثرت اور رشتوں
کی فراوانی ، سب کچھ تم رکھتے ہو ۔ چلو يہ بھی مان ليا کہ تم چاہو تو ستارے
جڑ جائيں اور پہاڑ اڑ جائيں اس لئے کہ دنياتمہاری ہے اور اس سے بھی انکار
نہيں کہ ---- بچپنے کی لا شعوری ---- بڑھاپے کی ناتوانی ---- غربت کی
پريشانياں ---- مسکنت کی قيامت سامانياں ---- تہی دست ہونے کے درد اور
محتاج ہونے کے اضطراب ۔ تم نے کچھ بھی نہيں ديکھے ۔
چلو يہ بھی سہی کہ :
ماں تمہيں ہی اپنا قبلہ سمجھتی رہی ---- باپ تمہيں ہی اپنا مقصود تصور کرتا
ر ہا ---- استاد اپنا دستِ شفقت تمہارے ہی سر پر رکھتا ر ہا ---- ماحول تم
پر ہی فدا ہوتا ر ہا ---- معاشرہ تمہاری ہی رائے کو قوی سمجھتا رہا ۔ فيصلہ
و قضا کی طنابيں تمہارے ہی ہاتھ ميں رہيں ۔
بلکہ ایسے بھی کہہ لو کہ :----
خوبيوں کا مرجع ---- محاسن کا مصدر ---- حقوق کا محور ---- دادوتحسين کا
مرکز ---- سب کچھ تم ہی ہو ليکن کبھی سوچا اور غور کيا کہ :
قطرہ آب سے کون پيدا ہوا ؟ ---- شکم مادر ميں بے کسی کی زندگی کسِ نے بسر
کی ؟
بچپنے ميں قدم قدم پر ناتوانيوں کے ہجموم نے کسِے گھيرا ؟ ماں کی مامتا کے
لئے کون ترسا ؟ باپ کی شفقت کے لئے کون تڑپا ؟ ---- سرديوں کی شدت نے کِس
کو رلايا ؟ گرميوں کی حِدّت نے کِس کو تنگ کيا ؟ ---- نجاست سے لتھڑے کپڑوں
میں راتيں کس نے گزريں ؟ ---- غلاظتوں کے ڈھير ميں کون آلودہ ہوا ؟ ----
معصوم معصوم ہاتھوں کو دوسروں کے ٹکڑوں کی طرف کِس نے پھيلايا ؟ ---- کحج
مج زبان سے مہمل باتيں کِس نے کِيں ؟
شباب ہميشہ رہے گا ؟ ---- عمر کے سائے نہيں ڈھليں گے ؟ ---- موت کی ہچکياں
نہيں لگيں گی ؟ ---- خداکی کچہری میں پيشی نہيں ہوگی ؟
جوانو ! چاند بھی ايک صورت ميں نہيں رہتا ، کبھی ہلال ، کبھی قمر ، کبھی
بدر ہوتا ہے ۔ تمہيں بھی اس دنيا ميں سدا نہیں رہنا ۔ يہاں جو آيا ہے جانے
کے لئے اور جو پيدا ہو ا ہے وہ مرنے کے لئے ۔ بقا تو صرف اللہ ہی کی ذات کے
لئے ہے ۔
کُلُّ مَنْ عَلَيْھَافَانٍ ہج وَّ يَبْقیٰ وَجْہُ رَ بِّکَ ذُوْالَجلَالِ
وَ اْلاِ کرام ہج فَبِاَ یِّ الا ِٕ رَبِّکُمَا تُکَذِّ بٰنِ ہ
( الرَّحمٰن ( ٢٦،٢٧،٢٨ )
" جو بھی ہے سو اسے فنا ہے ، باقی تو صرف تيرے ربّ کی ذات ہے ، بزرگی اور
عظمت والا ۔پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتيں جھٹلاؤ گے " ؟
آج ہمارے نوجوانوں کی حالت پتلی ہے --- ان کی سوچ سرسری ہے ۔ ان کے اخلاق
کھوکھلے ہو چکے ہيں ---- ان کی پيشانياں سجدوں کے نُور سے محروم ہيں ----
ان کی آنکھيں آبِ عصمت سے خالی ہيں ---- ان کے دل دردِ محبت اور غِم مِلّت
سے ناآشنا ہيں ---- ان کی مجلسيں شہوانی باتوں سے بھرپور ہيں ---- ان کی
زبانيں جنسی بے راہ روی سے آلودہ ہيں ---- ان کا تخيل برباديوں کا شکار ہے
---- ان کے افکار باطل تصورات کے اندھيروں ميں ڈوبے ہيں ---- مغربی تقليد
نے ان کے ہاں اسلامی نظرياتی خميوں کو اجاڑ رکھا ہے ۔
ہم پاکيزہ شباب اور مطہر فکر رکھنے والے نوجوانوں کی بات نہيں کرتے ۔ ہميں
شکوہ تو ان شرزدوں سے ہے ۔
جنہيں بہن اور ماں کی تميز نہيں ---- خير اور نيکی کا پاس نہيں ، صبح
خرمستياں ، شام آوارہ گردياں ---- گليوں ميں تنکوں کی طرح اڑنا، ---- کوچوں
ميں خاک کی طرح ذليل ہونا ---- ادھر جانکنا ، اُدھر تاڑنا ، اسے گالی ،
اُسے چھيڑنا ۔۔۔ پڑھنے سے گريز ، کھيلنے سے شغف ---- چلنا تو اکڑ اکڑ کر ،
بولنا تو بگڑ بگڑ کر ، ہنسنا تو کھِل کھِل کر ، کھانا تو مچل مچل کر ، سونا
تو بچھ بچھ کر ، جاگنا تو رک رک کر ، مستی ہی مستی ، نشہ ہی نشہ ۔
ماں کا ادب نہيں ---- باپ کا احترام نہيں ---- استاد کی توقير نہيں ۔ شرم
جہاں نہيں خوفِ خدا نہيں ---- قدم قدم نغمے،گام گام گانے ---- لحظہ لحظہ
غفلت ---- لمحہ لمحہ جہالت عُريانيت کے طوفان ---- فحاشی کی آندھياں ۔۔۔
کِس سے گلِہ کِس سے شکوہ ۔ اے بندگانِ خدا سوچو تو سہی !سنو تو سہی !تمہارا
خدا تم سے کيا کہتا ہے ۔
وَ اللہُ يَدْعُوْااِلٰی دَارَالسَّلاٰمِ ط وَ يَھْدِیْ مَنْ يَّشآ ُٕ
اِلٰی صِرَ اطٍ مُسْتَقِمْ ہ لِلَّذِ يْنَ اَحْسَنُوْاالْحُسْنٰی وَ زِ
يَادِۃُ ط لاَ يَرْ ھَقُ وَ جُوْ ھَھُمْ قَتَرُ وَّلاَ ذِلَّتہُ ط اُولٰيِک
اَصْحٰبُ الجَنَّتہِ ج ھُمْ فِيْھَاخٰلِدُوْنَ ہ وَالَّذِ يْنَ
کَسَبُوالسَّيّاِتِ جَزآ ُ ٔ سَيِّتہم بِمِثْلِھَا ہلا وَتَرْھَقُھُمْ
ذِلَّتہ ط مَا لَھُمْ مِّن اللہِ مِنْ عاصِمٍ ہ کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ
وُجُوْھُھُمْ قِطَعاً مِّنَ الَّيْل مُظْلِماً ط اُولَيِکَ اَصْحٰبُ
اْلنَّارھُمْ فِيْھَا خٰلِدُ وْنَ ہ ( سورة يونس ٢٦:٢٥ )
" اللہ کی دعوت سلامتی کے گھر کی طرف ہے جسے چاہتا ہے وہ سيدھی راہ کی
ہدايت بخشتا ہے ۔ وہ لوگ جو نيکياں کرتے ہيں ان کے لئے بہتر جزا ہوتی ہے
اور وہ بڑھتی ہی رہتی ہے ۔ ان کے چہروں پر نہ تو سياہی چڑھتی ہے اور نہ ہی
ذِلّت ظاہر ہوتی ہے ۔ ايسے ہی لوگ دراصل جنتی ہوتے ہيں اور وہ جنت ہی ميں
ہميشہ رہيں گے اور وہ لوگ جنہوں نے برائياں کمائيں ان کا بدلہ بُرائی ہی کی
مثِل ہو گا ۔ ذِلّت ان پر نماياں ہوگی ۔ اللہ سے انہيں کوئی بچانے والا
نہيں ۔ چہرے ان کے ايسے جيسے اندھيری رات کے ٹکڑے چڑھا دئيے گئے ہوں ۔ ايسے
ہی لوگ دوزخی ہوتے ہيں اور ہميشہ دوزخ ميں رہيں گے " ۔
نوجوانو ! کبھی غور کيا کہ :
تم کس شجر کی شاخ ہو ---- کس پھول کی کلی ہو ---- کس آسمان کے ستارے ہو
---- کس پربت کا ناز ہو ---- کس کہکشاں کا حسن ہو ---- کس چمن کے پروردہ ہو
؟ ---- کس نور کی جھلک ہو ---- کس آنکھ کی ٹھنڈک اور کِس دِل کی دھڑکن ہو ؟
---- کس آغوش نے تمہيں پالا ہے ؟
يقيناً تم جانتے ہو کہ تمہارے ہاتھ ميں پکڑی ہوئی رسّی کا دوسراسِرا فخرِ
رسالت محمد مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم کے ہا تھ ميں ہے ۔ کيا تم يہ بھول
گئے ہوکہ تمہارے کانوں نے دنياميں آنے کے بعدسب سے پہلی آواز جو سنی تھی وہ
خالقِ ارض وسما سے وفااور سکونِ فلک وثریٰ رسالت مآب عليہ السلام کی غلامی
کی دعوت تھی اور يہ بات بھی شک وشبہ سے بالا ہے کہ تمہاری زبان نے بار ہا
محمد عليہ الصّلوۃ والسلام کے ميٹھے ميٹھے نام کی مالا جپ کر وفاؤں کا
اظہار کيا ہے ۔ تمہيں جس ماں نے پا لا ہے وہ محمد مصطفٰے صلی اللہ عليہ
وسلم کی فدائی تھی تمہيں جس باپ نے تربيت دی ہے وہ محمد عليہ الصّلٰوۃ
والسّلام کا غلام تھا ۔ تم نے جس ماحول ميں آنکھ کھولی ہے يقيناً اس ميں
دعوتِ محمد عليہ الصّلٰوۃ والسّلام پہنچی ہے ۔ تم اگر برباد ہوئے ، تمہارے
اخلاق اگر کسی نے بگاڑے ---- تم اگر فساد کے کھوکھلے دہانے پر آ کھڑے ہوئے
---- تو اس ميں سارا قصور ، ساری کمزوری اور ساری غلطی اس شرِ ذمّہ ذليلہ
کی ہے جسے تم اپنا سمجھتے رہے ہو ۔ يہ سارا فساد ، يہ سارا جُرم " يہود "
کا ہے " نصاری " کا ہے ، مشرکين کا ہے اور ہر اس تہذيب کا ہے جس ميں
الحادوفساد کو ميٹھا اور شيريں بنا کر دکھايا گيا ہے ۔
ان ہاتھوں کو پہچانو جنہوں نے تم سے قرآن چھينا اور بلاّ گيند تھمايا ۔۔۔
ان سازشيوں کو بے نقاب کرو جنہوں نے سنّت مصطٰفی صلی اللہ عليہ وسلم کی
تصوير تم سے اوجھل رکھی اور فلموں کے پردوں پر تمہاری ہی بہنوں کی تھرکتی
تصويريں تمہيں دکھا کر تمہاری غيرت کو سلايا ، يہاں تک کہ تم اپنی بہنوں
اور ماؤں کو برہنہ ديکھ کر مستانے ہاتھيوں کی طرح اور شہوانی ريچھوں کی طرح
ناچنے لگے، ہاں ان حاکموں کو بھی معاف نہ کرو جنہوں نے قوم کے گلے ميں
اسلام کا تعويذ تو ڈالا ليکن نظامِ زندگی سے " ابليسی " مشوروں کو نہ نکال
سکے ۔
وَ زَيَّنَ لَھُمُ الشّيطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِيْلِ
فھُمْ لاَ يَھْتَدُ وْنَ ہ ( النمل : ٢٤ )
" اور شيطان نے ان کے لئے عمل کچھ يوں آراستہ کئے کہ سيدھی راہ ہی سے روک
ديا ۔ پس وہ راہ نہيں پاتے ۔
اس زار و زبوں دنيا ميں رہتے ہوئے تم نے ضرور جان ليا ہو گا کہ آج انسانيت
کو خطرات نے چاروں طرف سے گھير ليا ہے ۔ چار سوُ بے يقينی کی فضا نے آدميت
کو لرزا کر رکھ ديا ہے ، شايد تم سمجھتے ہو کہ ميرا اشارہ مہلک ہتھياروں کی
تخليق کی طرف ہے يا عالم کش اور نفس سوز زہريلے بموں کو ميں انسانيت کے لئے
فساد انگيز تصوّر کرتا ہوں ۔ اپنی جگہ يہ ساری چيزيں خوف آفريں ہيں ، ليکن
اس دنيا کے باسيوں کا اصل مسئلہ ان کی عالی اقدار کا مِٹ جانا ہے جن سے
انسانيت صيح معنوں ميں ارتقا کی منزلوں پر گامزن ہو سکتی ہے ۔ چکّی کا پاٹ
خطرناک اس وقت ہی ہوتا ہے جب وہ اپنے محور سے سرک جائے ۔ آج کے انسان کا
اصل مسئلہ(problem) يہ ہے کہ وہ اپنے مرکز سے ہٹ چکا ہے ۔ انسانيت کو اپنے
مدار پر دوبارہ لانے کے لئے ايک زبر دست علمی و عملی اور روحانی انقلاب کی
ضرورت ہے اور ايک ايسی قوّت بھی درکار ہے جو اس عظيم کارنامے کو بجا لانے
کے لئے اپنا کندھا آگے بڑھائے ۔
اب مشاہدات اورعالمی حالات نے اس بات کو پوری طرح خارج ازبحث کر ديا ہے کہ
انسانوں کے لئے مغربی طريِق حيات نفع مند ہے يا مشرقی فِکر خود آفريد ؟
زندگی کی دوڑ ميں يونان کا فلسفہ ، مشرق کی روايات اور مغرب کے نظام سب
ناکام ہو چکے ہيں ۔ انسانيت نے قديم جديد اور دائيں بائيں سب سے مايوس ہوکر
اس حقيقت کی طرف سفر شروع کرديا ہے جس سے امن و سکون کی جنتيں آباد ہو سکتی
ہيں اور صيح بات يہ ہے کہ يہی آدمّيت کا اصل مرکز ہے ۔ اسے ہی اسلام اور
ايمان ايسی اصطلاحوں سے تعبير کيا جاتا ہے ۔ روحانی کائنات کا يہی وہ محور
ہے جس کے گرد گھوم کر عالمی امن اور اخروی سعادتوں کی ضمانت مہيا کی جا
سکتی ہے ۔ ليکن سوال يہ ہے کہ انسانوں کی ضرورت ، نظريات کی تلاش نہيں
قيادت کی جستجو ہے ۔ اب کون ہيں وہ لوگ ، جن کی مردانہ قوّت اور فتوّانہ
شان قافلہّ انسانيت کو اٹھا کر صراطِ مستقيم پر رواں کردے ۔ انسانی رہنمائی
کا يہ عظيم کارنامہ اٹيمی توانائی سے سر انجام نہيں ديا جا سکتا ۔ تسخيرِ
کا ئنات کے ايجاداتی مظاہرے انسانوں کی ارواح کو ٹھنڈ ک اور سکون نہيں
پہنچا سکتے ۔ آخر اس قوّت کی تلاش کيوں نہيں کی جاتی جس نے ماضی کی تاريخ
ميں اس نوعيت کا ايک عظيم انقلاب بپا کيا ہے اور يقيناً وہ نظام مصطفٰے صلی
اللہ عليہ وسلم ہے ۔ يہی وہ طاقت ہے جسے آج بھی استعمال کيا جائے تو عالمی
بے چينی دُور کی جاسکتی ہے ۔ ليکن اس قوّت کے زور آور استعمال کے لئے ايسے
ری ايکڑ چاہيں جن کے اندر فطرت نے انقلابی صلاحيّتيں وديعت کی ہوں ۔ ميرے
خيال ميں بجا طور پر اسلامی برقی قوتيں مِلّت کے نوجوان ہيں بشرطيکہ وہ
اپناوتيرہ بدل ليں اور قومی ترقی اور مِلّی نمو کا احساس ان ميں اجاگر ہو
جائے ۔
يہ ہو سکتا ہے کہ وہ نفسياتی سکون کے حصول کے لئے برباديوں کا سارا بوجھ
اپنے بزرگوں کے کندھوں پر پھينک ديں يا پھر توجہيہ اور توضيح کا يہ راستہ
اختيار کرليں کہ يہ دَور شرافت کا نہيں ، يہاں نيکی کو تحريکی صورت ميں
اپنانے پر مذاق بننے والی بات ہے ۔ يہ بحث تو الگ ہے ۔ نيک لوگ اگر يہ
فلسفہ اپناليں کہ " ہر شخص نے اپنی اپنی قبر ميں جانا ہے " اور مغرور عناصر
يہ منطق اختيار کر ليں کہ ہمارادورنيکی کا دور ہی نہيں تو نتيجہ کيا برآمد
ہو گا "۔ ياد رکھنے کی بات يہ ہے کہ يہ معقوليت نہيں کہ چوروں کو ديکھ کر
آدمی چور اس لئے بن جائے کہ اگر ميں چور نہ بنا تو لوگ مذاق کريں گے ۔
شرابيوں کو ديکھ کر شراب اس لئے پی جائے کہ اگر ميں نے شراب نہ پی تو لوگ
ٹھٹھہ کريں گے ۔ اس وقت نوجوان مسلمان فسق وفجور کو بطور فيشن اپنا رہے ہيں
۔ مخص اس لئے کہ اگر ہم نے اس غلط تہذيب کی بساط کو يکسرالٹ ديا تو مذاق بن
جائيں گے حلانکہ قيامت کا ماملہ بالکل ہی دوسری نوعيت کا ہو گا ۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْامِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
يَضْحَکُوْنَ زھلےہ وَ اِذَاُمرُّ وْابِھِمْ يَتَغَامَزُوْنَ زھلے ہ وَ
اِذَاانْقَلَبُوآاِلیٰ اَھْلِھِمُ اْنقَلَبُوْا فَکِھِيَن ہ وَ
اِذَارَاَوْھُمْ قَالُوْ آاِنَّ ھٰوُلَا ِٕ لَضَآ لُّوْنَ ہلا
وَمَآاُرْسِلُوْ عَلَيْھِمْ حٰفِظِيْن ہط فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ امَنُوْ
مِنَ الْکُفَّارِ يَضْحَکُوْنَ ہلا ( المطففين ٢٩ تا ٣٤ )
"مجرم لوگ (دنياميں)ايمان والوں سے ہنسا کرتے تھے۔ جب کبھی ان پر ان کا گزر
ہوتا تو آنکھ سے اشارہ کرديتے ۔ جب اہل وعيال کےپاس آتے تو خوشياں لُوٹتے
اور مسلمانوں کو ديکھتے تو کہہ ديتے کہ يہ لوگ تو بہکے ہوئے ہيں ، حالانکہ
انہيں مسلمانوں پر محافظ تھوڑا ہی بنايا گيا تو پس اُس دن (يوم آخرت)ايمان
والے،کافروں پر ہنسيں گے ۔"
نوجوانو ! اس وقت تمہاری سوسائٹی وہ حمام بن چکی ہے جس ميں اس کا ہر رُکن
ننگا کھڑا ہے بجائے اس کے کہ بے حيائی کا يہ انداز تم خود اپناؤ اس کے خلاف
سينہ سپر ہو جاؤ اور حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی سنّت کے مطابق ايک ايسے
جہاد کا آغاز کرو جس کے نتيجہ ميں خدا کا دين تمام شئونِ حيات ميں غلبہ
حاصل کرے ۔
حَتّیٰ يَکُوْنَ الدِّيْنُ لِلّہِ
شايد اپنی جگہ تم يہ اميد لگائے بيٹھے ہو کہ زندگی کا يہ عالی مقصد پورا
کرنے کے لئے ايک ارب مسلمان موجود ہيں ۔ پچاس سے زيادہ اسلامی رياستيں کام
کر رہی ہيں اور زمين پر لاکھوں مسجدوں کے منيار اٹھائے جارہے ہيں ، يادرکھو
! ميں قرآن مجيد کے گہرے اور عميق مطالعہ کے بعد اس نتيجہ پر پہنچا ہوں کہ
اس عالمِ رنگ و بُو ميں اس وقت ايک جہالت وہ ہے جودنيائے کفر کی طرف سے
پھيلائی جا رہی ہے اور دوسری وہ جسے مسلمان بغل ميں دبائے ہيں ۔ ايک طاغوت
کفرکی صورت ميں ہے اور دوسرا طاغوت تمہاری وہ مسلمان رياستيں ہيں جن ميں
خدا کے دين کی بجائے سرمايہ داريت ، شہنشاہيت ، جنگل راج ، اشتراکيت اور
عبث جمہوريت کے صنم پوجے جا رہے ہيں ۔ اب تم بتاؤ ايک گھر کو آگ لگ جائے تو
اُسے بجھانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے ۔ سارا عالم بدی اور شرک کی آگ ميں
جل رہا ہے ليکن کيامسلمان کيا کافر اسے بجھانے کی بجائے اس پر تيل چھڑک رہے
ہيں ۔
لاَ يُشْرِکُ فیِْ حُکْمِہٓ اَحَدًا ہ ( الکہف : ٢٦ )
" وہ اپنی حکومت ميں کسی کو بھی شريک نہيں کرتا "۔
ان نار بداماں حالات میں زندہ دلوں کی دھڑکن اور فطرت کی آواز نوجوان ہی ہو
سکتے ہيں ۔جن کے جلنے ، کٹنے ،مرنے ، اور قربانی دينے سے وہ نسل کھڑی ہو
سکتی ہے جس کی حرکت و محنت سے اس دُنيا کا نقشہ بدلا جا سکتا ہے اورخلافتِ
الہيہ جيسا پاک مقصدِ رسالت پوراکيا جاسکتا ہے ۔
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّلِحٰتِ
لَيَسْتَخْلَفِنَّھُمْ فِیْ الاَرضِ کَماَ اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ
قَبْلِھِم ص وَلَيُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِيْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ
وَلَيُبَدِّ لَنھُم مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْناًيَعْبُدُوْنَنِیْ لاَ
يُشْرِکُوْنَ بِیْ شَيْاً ط
( النُور : ٥٥ )
" وہ لوگ جو تم ميں سے ايمان لائے اور اچھے عمل کئے ان سے اللہ کا وعدہ ہے
کہ وہ زمين ميں ان کی خلافت ضرور قائم فرمائے گا جيسا کہ ان سے پہلوں کو
خلافت سے نوازااور يہ بھی کہ وہ دين جسے ان لوگوں کے لئے پسند کيا گيا ہے
ضرور مستحکم فرمائے گا ۔ نتيجتاً يہ اس قانون کی برکت ہی ہوگی کہ اللہ خوف
کوامن سے بدل دے گا ۔
پس چاہيےکہ لوگ ميری ہی عبادت کريں اورميرے ساتھ کسی کوبھی شريک نہ
ٹھہرائيں "۔
قيامِ خلافت اور نظامِ عبادت اسلام ميں ايک ہی تصوير کے دو رُخ ہيں اوران
دونوں کے حصول کے لئے ايک مسلسل جہاد کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ يہ مواد
اللہ تعالٰی نے صرف نوجوانوں کو عطا کر رکھا ہے ۔
نوجوانوں کی اس وقت دو قسميں ہيں ۔ ايک وہ جو کاملاً اپنے آپ کو بندہ شيطان
بنا چکے ہيں ۔ اور دوسرے وہ جن کی آنکھوں ميں ابھی تک دينی غيرت اور حمّيت
موجود ہے اور ان معصوم دينی نوجوانوں کی بدقستمتی کہ مذہبی جاگيرداری نظام
نے انہيں اپنی بوسيدہ روايات کی پرستش کا اس قدر خوگر بنا ديا ہے کہ اسلام
کا انقلابی فلسفہ حيات ان کی سمجھ سے ازحد باہر ہو گيا ہے ۔ ايک عرصہ سے
گوہر نظر نوجوانوں کے شاب ڈھل کر بڑھاپے ميں بدل رہے ہيں اور مسلمانوں کی
پارہ نظر نسليں آنے والی نسل کی گود ميں دم توڑ رہی ہيں ليکن روايتی جنون
کے سياہ ناگ برابر کاٹتے چلے جا رہے ہيں ۔ يہاں يہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے
کہ ہم روايات دشمنی سے ہرگز مادر پدر آزاد ہونا مراد نہيں ليتے ۔ ہماری نظر
ميں اب بھی " انقلاب" رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی کامل اور مکمل اطاعت
اور اتباع ہی سے آئے گا ليکن ہمارے نزديک اتباع اور اطاعت کا مفہوم نہايت
وسعت رکھتا ہے ۔ ہم انقلاب کے لئے اس دورِ جديد ميں بھی ايک زبردست ، ٹھوس
اور ثمرآور تحريک کے لئے منہج رسالت کی جز بجز اطاعت لازم تصور کرتے ہيں ۔
بات يہ ہو رہی تھی کہ دينی نوجوانوں کا معصوم اور مظلوم گروہ بُری طرح
"مولويانہ رقابتوں" کی بھنيٹ چڑھ رہا ہے ۔ فرقہ وارانہ ابحاث اور طلسمات نے
ايک پوری نسل کو مسل ڈالا ہے ۔ خانقاہ اور محراب باستنثائے نيک دلاں مايوسی
اور بدنظمی کے جھنجھنوں سے کھيل رہے ہيں ۔ مادہ گيری کے جتنے طريقے يہاں سے
جہنم ليتے ہيں ، ابليسی ماہرين معاشيات کے علم ميں بھی نہ ہوں گے ۔
ہمارا مقصد کسی بھی " حلقہ آدميت " سے مخالفت برائے مخالفت نہيں بلکہ ہم تو
" نوجوانوں " کی ايک ايسی " ٹيم " ديکھنا چاہتے ہيں جو قرآن اور سنّتِ رسول
صلی اللہ عليہ وسلم کا فہم ٹھيک دورِ رسالت مآب عليہ الصلٰوة والسّلام کے
تناظر ميں رکھ کر حاصل کرے اور پھر يکسوئی سے دينی دعوت عام کرے ليکن کمال
کی حد تک ---- عمل کرے ليکن اخلاص کا نور لے کر ---- جہاد کرے ليکن فيصلہ
کن عزائم سے اور نتيجتاً اسلام نافذ کرے ، انسانيت کی بھلائی کے لئے اس راہ
حق ميں دولت اس کے راستے نہ بدل سکے ۔
جزوی اقتدار اس کی گردن جھکانے ميں ناکام ہو جائے ۔
جہالت نورِ بصيرت چھيننے ميں منہ کی کھائے ۔
باطل عناصر کے مسلم شکن حربے انہی کی پاؤں کی زنجير بن جائے ۔
ميں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ لکھتے ہوئے ميرا قلم خجالت سے چيختا ہے ۔ حروف
انقلاب پيدا نہيں کرتے ۔ انقلاب کے لئے ايک جانباز ، ايماندار اور حوصلہ
کيش قوم درکار ہوتی ہے ۔ شايد قوم سازی اور استقبال نوازی کی يہ عظيم خدمت
کسی غريب گھرانے کا کوئی نوجوان سرانجام ديدے ليکن خاک ہو جائيں گے ہم ان
کو خبر ہونے تک ۔ مے کشی کی رسم نبھانا آسان ہے اور ہادہُو کی محفليں ممکن
۔ ليکن دل کے تاروں پر حقيقت کا نغمہ چھيڑنا اور لوگوں کے خون کو مائل بہ
جہاد کرنا کارےدارد ۔
نوجوانو ! ہم نے پاکستان بنانا ہے اپنے اجسام پر ---- اپنے اجساد پر اپنی
ارواح پر سيرت ميں کردار ميں ، زمان و مکاں ميں ، حالات خواہ کيسے بھی ہوں
---- ہميں پاکستان بنانا ہے ---- پاکستان کو پاکستان بنانا ہے ---- جل کر،
کٹ کر ، مرکر ---- خدا کی ساری زمين کو پاکستان بنانا ہے ---- اسلامستان
بنانا ہے ---- نورستان بنانا ہے ---- خدا کی تائيد سے ، مصطفٰے صلی اللہ
عليہ وسلم کی نگاہ سے اور قرآن کے نور سے ---- پاکستان بنانا ہے ---- انشا
ٕاللہ بنانا ہے ۔
ياد رکھو !
جہاں قرآن نہيں ---- جہاں نبی صلی اللہ عليہ وسلم کی سنّت نہيں ---- جہاں
اسلام کا نور نہيں ---- وہ پاکستان نہيں ---- وہ مرا کا عشرت کدہ ہے ، وہ
جاگيرداروں کی سيرگاہ ہے ---- وہ سرمايہ داروں کی شکار گاہ ہے ---- وہ
افسروں کا قبحہ خانہ ہے ---- وہ سياستدانوں کا اکھاڑہ ہے ---- وہ سپہ
سالاروں کا جاگير ہے ---- وہ سبزوں کا ملعب ہے سرخوں کا بھٹ اور آدابِ
غلامی سکھانے کی تربيت گاہ ہے ۔
مسلم نوجوانو ! ميرے جگر کے ٹکڑو !
نہ مانو ! قطعاً نہ مانو !
افسر شاہی کو ---- بادشاہی کو ---- شہنشاہی کو ---- وزيرشاہی کو ---- نفس
شاہی کو ---- شيطان شاہی کو ---- درہم شاہی کو ---- ريال شاہی کو ----
اوردولت شاہی کو اور اب ہو ہی جاؤ آمادہٓ مخالفت :
زمانے کے ہر فرعون کے خلاف ---- زمانے کے ہر نمرود کے خلاف ---- زمانے کے
ہر يزيد کے خلاف ----
نہ مانو ! غيراسلامی اور باطل قوانين کو !
خدا را نہ مانو --- تمہيں تمہاری عاقبت کا واسطہ ---- نہ مانو ! طاغوت کو ،
سوشلزم اور کميونزم کو ! فتنہ کواور فساد کو ---- ظلم اور استحصال کو !
ماننے کے لئے صرف اللہ ہے ---- رسول صلی اللہ عليہ وسلم ہے ---- قرآن ہے
اور سنّتِ نبی صلی اللہ عليہ وسلم ہے ۔ ہميں تمہارا انتظار ہے ، آؤ مل کر
جہاد کريں اور تادمِ آخر جہاد کريں ۔
اسلام کے غلبہ کے لئے ---- خدا کی رضا کے لئے ---- اور مصطفٰے صلی اللہ
عليہ وسلم کی خوشنودی کی خاطر ، اگر تم ہمارے ساتھی ہو اور يقيناً ہو تو
ايمان مضبوط کرو ---- يقين محکم رکھو ---- نمازيں قائم کرو ---- احکامِ خدا
بجا لاؤ ، مال و جان کی قربانی دو ، عفت کو داغدار مت بناؤ ---- سنجيدگی
اختيار کرو ---- بڑوں کی عزّت ان کا حق سمجھو ، چھوٹوں پر شفقت لازم رکھو
---- عصری علوم ميں مہارت پيدا کرو ، قرآن کی تلاوت کرتے رہو ---- محبت کا
نُور پھيلاتے رہو ---- حَسَد ، بغض اور چغلی سے بچو ---- ماں باپ کا ادب
کرو ---- لباس ہميشہ سادہ پہنو ---- علم سيکھتے رہو ---- خيانت سے باز رہو
---- وعدوں کا پاس رکھو ---- وقت کی پابندی کرو ---- اللہ کے محبوب بندوں
کےمزارات پرحاضری ديتے رہو ---- جھوٹ کسی بھی حالت ميں نہ بولو ۔ ساتھيوں
کی عيب پوشی کرو ---- رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو ---- نيکی کا حکم ديتے
رہو ، برائی سے منع کرتے رہو بے شک اللہ تم سے راضی ہو گا اور رسول اللہ
صلی اللہ عليہ وسلم کی شفاعت تمہيں نصيب ہوگی ۔ اے تاريکيوں ميں روشنيوں کے
انقلاب لانے والی ذات ! راہ حق ميں وہ ساتھی نصيب فرما جن کی معيت سے
تکميلِ مقصد آسان ہو اور زندگی کا سفر سکون سے گزرے اور جب ہم دنيا سے
اٹھيں تو ہمارے نيک وارث ، مقاصد کی شمع کو روشن رکھيں ۔ آمين ۔
بجاہ سيّد المرسلين وَالصّلٰوة وَالسلام علٰی سائرالمرسلين خصُوصاً علٰی
خاتم النبيّن
بنيادی عقيدہ
· اللہ ہمارا رب ہے ، اور منزّہ عن العيّوب ہے ۔
· محمد صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کے رسول اور معصوم عن الخطا ہيں ۔
· قرآن مجيد خدا کی کتاب ، ہمارا ضابطہ حيات اور بے عيب ہے ۔
انسان خطاؤں اور لغزشوں کا پتلا ہے ۔ اس حيثيت سے بہرحال يہ امکان رہتا ہے
کہ وہ لکھتے ہوئے پھسل جائے ---- دورانِ مطالعہ اگر آپ اشارة ً يا صراحتہً
کسی بھی انداز ميں ہمارے درج بالا بنيادی عقيدہ کو مجروح ہوتا ہوا پائيں تو
اس کو ہماری ذاتی کمزوری متصور کرتے ہوئے قلم زد کر ديجئے ہم اپنی عزّت ،
مقام اور جھوٹی اَنا کے مقابلہ ميں ايمان کو بہرصورت ترجيح ديتے ہيں
پیرآف اوگالی شریف |