ابوسفیان جنگ کے میدان سے واپس
جانے لگا تو ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور زور زور سے پکارا کہ کیا یہاں محمد (صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟حضور نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جواب نہ
دو۔ پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں عمر ہیں ؟ جب اس کا بھی کوئی جواب نہیں
ملا تو ابوسفیان گھمنڈ سے کہنے لگا کہ یہ سب مارے گئے کیونکہ اگر زندہ ہوتے
تو ضرور میرا جواب دیتے۔ یہ سنکر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ضبط نہ
ہوسکا اور آپ نے چلاکر کہا کہ اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے۔ ہم سب زندہ ہیں۔
ابو سفیان نے اپنی فتح کے گھمنڈ میں یہ نعرہ مارا کہ “اغل ھبل۔ اغل ھبل“
یعنی اے ہبل ! تو سر بلند ہوجا۔ اے ہبل تو سر بلند ہوجا۔ حضور صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلمنے صحابہ سے فرمایا کہ تم لوگ بھی اس کے جواب میں
نعرہ لگاؤ لوگوں نے پوچھا کہ ہم کیا کہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ یہ نعرہ
مارو کہ اللہ اعلی واجل یعنی اللہ سب سے بڑھ کر بلند مرتبہ اور بڑا ہے
ابوسفیان نے کہا کہ لنا العزٰی ولا عزی لکم یعنی ہمارے لئے عزٰی (بت) ہے
اور تمھارے لئے کوئی “عزٰی“ نہیں ہے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلمنے
فرمایا کہ تم لوگ اس کے جواب میں یہ کہو کہ اللہ مولانا ولا مولٰی لکم یعنی
اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمھارا کوئی مددگار نہیں۔
ابوسفیان نے بہ آواز بلند بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آج کا دن بدر کے
دن کا بدلہ اور جواب ہے لڑائی میں کبھی فتح شکست ہوتی ہے اے مسلمانو !
ہماری فوج نے تمھارے مقتولوں کے کان ناک کاٹ کر ان کی صورتیں بگاڑ دیں ہیں
مگر میں نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا نہ مجھے اس پر کوئی رنج و افسوس ہوا ہے
یہ کہہ کر ابوسفیان میدان سے ہٹ گیا اور چل دیا۔ (زرقانی ج2 ص48 و بخاری
غزوہء احد ج2 ص579) |