لوٹ کے آڈوانی جی گھر کو آئے

22ریاستوں اورمرکز کے تحت 5 علاقوں کے 38روزہ مہم کے بعد بھاجپا کے بزرگ لیڈر لال کرشن آڈوانی جی اتوار، 20نومبر کو دہلی لوٹ آئے۔ 84سال کی عمر میں سوا سات ہزارکلومیٹر طویل سفر کا پورا کرلینا بیشک حوصلہ مندی کا کام ہے۔ ان کی اس سے بھی زیادہ حوصلہ مندی یاترا کے دوران نظر آتی رہی کہ اس بار سابق کی پانچ یاتراﺅں کے برعکس وہ جہاںبھی گئے، ان کو اکثرعوام کی بے رخی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخری مرحلہ میںتو حد ہی ہوگئی۔ جموں، اتراکھنڈ، پنجاب اور ہریانہ میں توان کو خالی کرسیوں سے خطاب کرنا پڑا ۔پنجاب میں ، جہاں ان کی پارٹی سرکار میں شریک ہے، ان کوکالی جھنڈیوں اورانڈوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن رام لیلا گراﺅنڈ میں نقشہ بدلا ہوا تھا، جس کو دیکھ کران کی کلفت جاتی رہی اوریاترا کی کامیابی کے بلند بانگ دعووں کے ساتھ وہ جم کر بولے۔

سچائی یہ ہے کہ ان کے دم سے قومی سیاسی منظر نامے میں بڑی رونق ہے۔ ہم ان کی طویل عمر اور اچھی صحت کی دعا کرتے ہیں اور اس حوصلہ مندی کی داد دیتے ہیں کہ آر ایس ایس کی طرف سے کنارے لگائے جانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجودوہ ہنوز بے مزہ نہیں ہوئے۔آر ایس ایس نے دوٹوک ان کو جتادیا تھا کہ وہ وزیر اعظم کے منصب کا خواب نہ دیکھیں۔ اس کے باوجود اپنی دعویداری کو پکا کرنے کےلئے وہ اس مہم پر نکل پڑے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ بھاجپا لیڈروں میں آج بھی ان کا قد سب سے بڑا ہے۔ ہرچند کہ وہ عوام میں کوئی قابل ذکر لہر اٹھانے میں کامیاب نہیں رہے ، لیکن ان کے کئی تیر نشانے پر بیٹھے ، جن کی خلش گاندھی نگر میں بھی محسوس کی جارہی ہوگی، ناگپور میں بھی اور رالے گن سدھی میں بھی۔

آڈوانی جی ہزار انکار کریں، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے یہ مشقت صرف بدعنوانی کے خاتمہ کےلئے نہیں اٹھائی۔ بدعنوانی کو تووہ ایک مدّت سے پھلتا پھولتا دیکھتے رہے ہیں ۔ اپنی پارٹی کے لوگوں کوبھی اس میں غوطے لگاتے ہوئے دیکھا ہے، مگر کبھی کوئی فکر مندی ظاہر نہیں کی۔شاید ان کی نظر قریب کی کمزور ہے، دور کی اچھی ہے۔ ان کو غیر ملکی بنکوں کے خفیہ کھاتے تو نظر آگئے مکروہ کالا دھن نظر نہیں آتا جو اندرون ملک چور تاجروں اور سیاستدانوں کے لاکرس میں بند ہے، جس کا ایک حصہ ابھی کرناٹک میں ان کی پارٹی لیڈروں کے یہاں برامد ہوا۔دھارمک پرتشٹھان بیشک انکم ٹیکس سے مستثنٰی رہیں، مگردھرم استھانوں اور آشرموں میں بیٹھے باباﺅں پر جو دھن برستا ہے، کیا آشیرواد دینے سے پہلے کوئی پوچھتا ہے کہ جو دولت ہم پر نچھاور کررہے ہو اس پر ٹیکس دیا کہ نہیں؟ اور پھریہ دولت نجی تجوریوں اورخفیہ تہہ خانوں میں قید رہنے کے بجائے بنکوں میں جمع کیوں نہیں کرائی جاتی کہ قومی مفاد میں کام آئے؟ مگرکسی کو اس کی کیا فکر؟

رام لیلا میدان کے جلسے میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ این ڈی اے کے سبھی ممبران پارلیمنٹ حلف نامہ داخل کریں گے کہ بیرون ملک بنکوں میں ان کا کالا دھن جمع نہیں ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن کے موجودہ ماحول میںیہ حلف نامے کتنے قابل اعتماد ہونگے، جب کہ ان کی پارٹی کے صدر (بنگارو لکشمن) خود پارٹی کے نام پررشوت لیتے ہوئے پکڑے جا چکے ہیں۔ان کے ایم پی بابو بھائی کٹارا جعلی پاسپورٹ پر کبوتر بازی کی پاداش میں جیل میں ہیں۔ایک وزیر اعلا کو استعفا دینا پڑا اور جیل کی ہوا کھانی پڑی۔دوسرے کو ہٹادینا پڑاکیونکہ اس نے گنگا کے کنارے غیرقانونی کانکنی روکنے سے انکار کردیا تھا اور ایک مخلص سادھو اس کے خلاف بھوک ہڑتال کرکے لقمہ اجل بن گیاتھا۔ دو سابق وزیر کرناٹک کی جیل میں ہیں۔آئین اور قانون سے وفاداری کے ان کے حلف ناموں کی کیا اہمیت رہ گئی ہے؟ ایسی ایک نہیں بیشمار داستانیں ہیں۔ ان کے جو لیڈر ’نوٹ کے بدلے ووٹ‘ معاملے ضمانت پر چھوٹ کر آئے ہیں ، ان کے کردار میں کہیں تو جھول ہوگا کہ ان کو خریدنے کی کوشش کی گئی۔چندروز قبل پنڈت سکھ رام کو رشوت خوری میں جیل بھیجا گیا ہے۔عوام کو یاد ہوگا کہ بدعنوانی میں پکڑے جانے کے بعد جب کانگریس نے ان کوپارٹی سے نکال دیا، تو بھاجپا نے ان کوگود میں بٹھالینے میں دیر نہیں کی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسی طرح کے حلف نامے پارٹی اپنے ممبران اسمبلی اور عہدیداروں سے بھی داخل کرائے گی اور کیا بتائے گی کہ پارٹی کو کس ڈونر نے کب ، کیوں اور کتنی رقم دی؟انا ہزارے نے اپنی مہم کے دوران ایک سچ بات یہ کہی تھی کہ بدعنوانی کے معاملے میں بی جے پی کا معاملہ مختلف نہیں ہے۔ اگر دامن بدعنوانی سے پاک ہوتا تو مودی لوک آیکت کی تقرری کو 7 سال سے ٹالتے نہیں رہتے اور اب گورنر نے اس منصب پر ضابطہ کے مطابق تقرری کردی ہے تو اس کو ایشو نہ بناتے ۔

ہم عرض یہ کررہے تھے کہ آڈوانی جی نے اس یاترا میں ایک ساتھ کئی نشانے سادھے ہیں۔ یاترا سے انا ہزارے کا ہی رنگ پھیکا نہیںپڑا ہے ، بلکہ آر ایس ایس کے مہرے مودی کی وزیر اعظم کے منصب پر دعویداری کو بھی دھکا لگا ہے۔ دہلی کے جلسہ میں بھاجپا کے وزرائے اعلا کو مدعو نہیںکیا گیا۔ ڈر تھا کہ مودی کی عدم موجودگی پر سوال اٹھیں گے۔ لیکن این ڈی اے کے لیڈروں کی شرکت اورجے للتا کے نمائندے کی موجودگی سے ان کی امیدواری کو تقویت ملی ہے۔ ہرچند کہ کسی مقرر نے ان کی دعویداری کی کھل کرتائید نہیں کی لیکن بالواسطہ تائید ہوگئی۔تاہم نتیش کمار کی عدم موجودگی اہم ہے۔ان کی انتظامی لیاقت نے مودی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سیکولر شبیہ میں آڈوانی ان کے مقابلے کہیں نہیں ٹکتے۔

رام لیلا میدان کے جلسہ میں سشما سوراج نے اپنی پرجوش تقریر میں بجاطور پر کہا کہ سیاست دانوں اور سیاسی نظام کی وقعت اوروقار میں پچھلے دنوں تیز رفتار گراوٹ کاجو خطرناک رجحان نظرآرہا تھا، اس میں اس یاترا کی بدولت کچھ بند لگا ہے۔ ان کو بتانا چاہئے تھا کہ اس خطرناک رجحان کےلئے کون ذمہ دار ہے اور انا ٹیم نے اس رجحان کو کتنی ہوا دی ہے؟ انا تحریک کو آسمان تک پہنچانے میں بھاجپا اور آرایس ایس نے کلیدی رول ادا کیا۔ہرچند کہ ان کا مخفی مقصد بدعنوانی کے عنوان سے یوپی اے کو بے وقارکرنا تھا ،مگراسی دوران کرناٹک کے بھاجپائی وزیراعلا اور وزیروں کی بدعنوانیاں طشت از بام ہوگئیں اور بھاجپا بھی زد میں آگئی۔ ہر چند کہ انا نے کبھی مودی کی تعریف کرکے اور کبھی آڈوانی جی کاشکریہ ادا کرکے بھاجپا کو بچانا چاہا مگر آخر میں ان کو بھی کہنا پڑا کہ بھاجپا لیڈر بھی پاک صاف نہیں۔لہٰذا اس تحریک کے زد پورے سیاسی نظام پر پڑگئی۔ پارلیمنٹ کے وقارکوبھی نشانہ بنایا گیا۔ تاہم سشما جی کا یہ کہنا درست ہے کہ یاترا کی بدولت سیاسی عمل کی شبیہ سدھری ہے۔ جواپوزیشن انا تحریک کے سائے میں دب کر رہ گئی تھی، وہ پھر ابھرتی نظرآئی ہے۔ یہ یاترا بدعنوانی کے اسی عنوان کو بھنانے کی کوشش تھی، جس کو ٹیم انابھنانا چاہتی ہے ۔چنانچہ اس سے بھاجپا کو جو فائدہ پہنچے گا،وہ ٹیم اناکا نقصان قرار پائیگا۔

یہ بات عوام کی سمجھ میں آنے لگی ہے کہ بدعنوانی کی لعنت دبنگائی کی جس سیاسی روش سے پروان چڑھی ، اپنا مطالبہ منوانے کےلئے وہی انا ٹیم نے اختیار کرلی ۔ٹیم انا نے جو روش اختیارکی اور جو تیور اپنائے وہ جمہوری سیاسی نظام کےلئے سخت نقصاندہ ہے۔ افسوس کہ اپوزیشن نے بھی پارلیمنٹ میںاسی روش کو اختیار کررکھا ہے۔ چنانچہ فیصلے عقل اور استدلا ل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ہنگامہ آرائی کی بنیاد پر کرانے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ سشماسوراج کو سیاسی پارلیمانی نظام کی گرتی ہوئی صحت کا خیال آیا ہے۔ لیکن اس نظام کے وقار کی بحالی کےلئے سڑکوںپر سیاسی مشقت کے بجائے توجہ پارلیمنٹ کے اندر دینی چاہئے ۔جب سے بھاجپا ممبران کی تعداد بڑھی ہے،سنجیدہ بحثیں کم شور شرابا زیادہ ہونے لگا ہے۔ پورے پورے اجلاس بغیر کسی کاروائی کے ختم ہوجاتے ہیں اوران کی پارٹی اس کو اپنی بڑی کامیابی تصور کرتی ہے۔ اگر پارلیمانی جمہوریت میں عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہے توگھیراﺅ، شور مچاﺅ، اجلاس نہ چلنے دو کی روش کو بدلنا ہوگا۔لیکن رواں سرمائی اجلاس کے پہلے ہی دن این ڈی اے نے ظاہرکردیا کہ جمہوری نظام کو کام نہیں کرنے دیگی۔پارلیمانی نظام میں کون وزیر ہوگا ، کون نہیں، یہ وزیر اعظم کا حق ہوتا ہے ، مگربھاجپا کی ضد ہے کہ اس کی پسند اور ناپسند پر وزیر ہٹائے اور لگائے جائیں۔اس غیر جمہوری مطالبہ کی بدولت اجلاس کا آغاز کاروائی کے التوا سے ہوا ہے۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ 21 روزہ مختصر اجلاس کا ایک منٹ بھی ضائع نہ جاتا۔اس وقت لوک پال سمیت تقریباً 50 بل زیر التوا میں ہیں۔ ان کو منظور کرانے میں معاونت اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ ہندستان کو یہ جمہوری نظام برطانیہ سے ورثہ میںملا ہے۔ سشما جی اور ان کی پارٹی کے دیگر لیڈر برطانوی پارلیمنٹ کو دیکھیں کہ کس طرح باوقار انداز میں کاروائی چلائی جاتی ہے ۔ بحث و مباحثہ کا ماحول بحال کرنے کےلے ایسے لوگوںکو پارلیمنٹ میں لانا ہوگا جو ہندستان جیسے عظیم ملک کے شایان شان اس کی کاروائیوں میںحصہ لے سکیں اور مفادپرستوں، باہو بلیوں اوربدعنوان لوگوں کو باہر کرنا ہوگا۔سرکار کے بھی حساس ہونا پڑیگا۔بات چھوٹی ہویا بڑی، اس کے کان میں اس وقت تک نہیں پہنچتی، جب تک ہنگامہ برپا نہ ہوجائے۔ (ختم)

(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.