ایک نجی ٹی وی چینل کے تقریباََ
نجی پروگرام میں مسلم لیگ کے سینیٹر مشاہداللہ سے جب اینکر نے عمران خان کے
مسلم لیگ نون اور اس کے قائدین کے اثاثوں بارے کہی باتوں پہ سوال کیا تو
انہوں نے جواباََ عمران کو مشورہ دے ڈالاکہ عمران پہلے اپنے اثاثوں کی
تفصیل قوم کے سامنے رکھیں اس کے بعد کسی اور سے اثاثوں کے بارے میں سوال
کریں۔اپنے اس مطالبے کو انہوں نے بقول شاعر یوں بیان کیا۔
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
یوں انہوں نے عمران کو جو نصیحت کی سو کی لیکن ساتھ ہی عمران کے ہاتھوں
اپنے ممدوحین کے خراب حال کا بھی اعتراف کر لیا۔خیر میں آج کسی کے جرائم کی
صفائی بیان کرنے کے سرے سے موڈ ہی میں نہیں ہوں۔اس لئے میں آج عمران ہی سے
شروع کروں گا۔عمران کے اسلام آباد کے گھر کے بارے آج کل میڈیا میں بڑی
خبریں گردش میں ہیں۔معاملہ بہرحال مشکوک دکھتا تو ہے۔اس سے عمران کے مسٹر
کلین ہونے کے تائثر کی بھی نفی ہوتی ہے۔عمران کے پاس سوائے لوگوں کے اعتبار
کے اور بظاہراچھی نیت کے اور ہے ہی کیا۔ اگر پاکستان تحریک انصاف چاہتی ہے
کہ اس کی مقبولیت بر قرار رہے تو اسے اپنے میڈیا سنٹرکو ہدایت کرنی چاہئے
کہ وہ اس کی تسلی سے تشریح کریں۔اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اسے چھپانے کی بجائے
اس کا اعتراف کرنا زیادہ بہتر رہے گا کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے ہزار
جھوٹ گھڑنے پڑتے ہیں۔
رند خراب حال کی بات کریں تو پاکستانی عوام سے زیادہ رند خراب حال کون
ہے؟ہر قومی ادارہ عوام کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ایوان صدر،وزیر
اعظم،اسمبلیاں،سنیٹ،عدلیہ ،سیاستدان ا ور فوج کون ایسا ہے جس نے عوام کو
حالات کی صحیح تصویر دکھائی ہو۔ہر ایک اپنے اپنے ایجنڈے پہ ہے۔حکومت سے
شروع کریں تو ملک کی معاشی حالت تباہ ہو چکی ،ادارے تباہ ہو گئے۔لوگ بھوک
کے مارے بچے فروخت کر رہے ہیں۔بکتے نہیں تو انہیں مار کے خود کشیاں کر رہے
ہیں۔بجلی گیس پانی روٹی پانی سب ان ستم ظریفوں نے ہوا کر دیا۔ستم بالائے
ستم یہ کہ اب انہوں نے اب ایک ایسے بم کو لات مار دی ہے جو پھٹ گیا تو اپنے
ساتھ خاکم بدہن کہیں ملک عزیز ہی کو نہ لے ڈوبے۔
دوسری طرف پنجاب حکومت ہے ۔ان کی بھی مالی اور اخلاقی کرپشن کی کہانیاں بھی
زبان زد عام و خاص ہیں۔ڈینگی کے ڈنگ سے لے کے نواز شریف کے قومی اداروں کو
مارے جانے والے ڈنگ تک ہر طرف مایوسیوں کی ایک لمبی داستان ہے جس میں اب
فیملی کی جنگ بھی شامل ہو گئی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں میمو سکینڈل
بارے درخواست دے کے انہوں نے اپنی فراست کے ہر طرف ڈنکے بجوا دئیے ہیں۔اس
پیٹیشن سے وہ جہاں حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں وہیں وہ فوج کا مکو بھی
ٹھپنا چاہتے ہیں۔ یہی حال ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کا ہے۔الطاف حسین ہو
یا مولٰنا فضل الرحمٰن ،منور حسن ہوں یا پیر پگارہ،گجرات کے چوہدری ہوں یا
سرحد کے محب وطن سر خپوش،ہر ایک نے پاکستانی عوام کو حد سے زیادہ مایوس کیا
ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جب بحال ہوئے اور عدلیہ کی آزادی کا ڈنکا پٹنے لگا تو
عوام سمجھے کہ نجات دہندہ آگئے ۔لوگوں کا خیال تھا کہ اب چوروں لٹیروں اور
غاصبوں کا احتساب ہوگا۔لیکن ہوا اس کے بالکل بر عکس ،سپریم کورٹ بھی پچھلے
دو سالوں میں گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی۔نواز شریف
اور مسلم لیگ نون کے کیسز بیک برنر پہ کیا سٹور میں ڈال دئیے گئے ہیں۔جہاں
سے ان کی بر آمدگی کی کوئی امید نہیں۔ راشی وزیرسر عام رشوت لیتے،پکڑے جاتے
،پیسے واپس خزانے میںجمع ہو جاتے لیکن آزاد عدلیہ کی موجودگی میں بھی وزیر
وزیر ہی رہتا ہے۔دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟ کراچی کی قتل و غارت میں بھی
دراصل سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن تھا۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ گرا
گدھی سے اور غصہ کمہار پہ۔نواز شریف کی طرح سپریم کورٹ کا بھی حشر نشر تو
کیا مشرف نے ،لیکن دونوں نے اسے تو عزت سے جانے دیا اور اس کے بعد فوج کو
نشانے پہ رکھ لیا۔حالت یہ ہے کہ ذیلی عدالتوں میں اپنے ذاتی معاملات میں
پیش ہونے والے فوجی افسران کی بھی عدلیہ کے انتہائی جونیئر ا فسران یوں گت
بناتے ہیں کہ دیکھنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے نظر آتے ہیں۔کبھی فوج
مقدس گائے تھی اب عدلیہ ہے۔
مشرف نے اپنے سیاہ دور میں اس فوج کو جو عوام کی آنکھ کا تارہ تھی، ذلت اور
رسوائی کی اس انتہا تک پہنچا دیا کہ ان کا وردی میں باہر نکلنا محال ہو
گیا۔مشرف کی رخصتی ہوئی تو جنرل کیانی کی آمد اور ان کے اقدامات سے فوج کا
مورال دوبارہ بحال ہوا۔مشرف نے اپنے ذاتی اقتدار کی بقا کے لئے دہشت گردی
کے خلاف امریکی جنگ کو پاکستان کے خلاف جنگ بنا دیا۔اس جنگ میں پاکستان فوج
کے سپاہیوں سے لے کے جرنیلوں تک نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن جی
ایچ کیو اور اسی طرح کے دوسرے حملوں نے عوام کی نظر میں فوج کی عزت خاک میں
ملا دی۔لڑائی میں کبھی ایک فریق کی جیت ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی اور فریق
بھی ایسا جسے بین الاقوامی طاقتوں کے اشارہ ابرو پہ لڑ رہا ہو۔ان حادثات کے
بعد فوج نے شاید ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی کی ہو لیکن عوام تک اس کی
کوئی خبر نہیں آئی۔پھر دو مئی کا واقعہ جس میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر کی
تباہی کی گواہی نے پاکستان اس کی فوج اور آئی ایس آئی سب کو اقوام عالم میں
نکو بنا کے رکھ دیا۔اس معاملے کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا
ضروری تھا لیکن اتنی بڑی نا اہلی کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا۔فوج
سے محبت اور عقیدت اپنی جگہ لیکن نا اہلی اور نالائقی کی اب پاکستان میں
شاید کچھ زیادہ گنجائش نہیں۔
آخر میں کچھ بات ان غبی اور جانوروں والی زندگی گذارنے والے منافق عوام کی
جو ظلم تو سہتے ہیں بغاوت نہیں کرتے۔وہی چور وہی لٹیرے وہی بد قماش بدمعاش
ان کی نگاہ ِ انتخاب پہ پورے اترتے ہیں۔ایسے لوگوں کا یہی نصیب اور یہی
مقدر ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستانی عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے میری دانست
میں تو بالکل ٹھیک ہو رہا ہے۔ |