حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کے
لیئے صرف باقی ماند ہ 14 ماہ گزارنے ہیں ۔حکومت کے عہدے داروں نے جس
خوبصورتی سے تمام سیاسی پارٹیوں کو وہ ۔۔۔۔۔۔۔بنایا ہے جو یہ ہمیشہ سے بنے
ہوئے ہیں اور سسٹم کی تبدیلی (جو کہ عوامی انقلاب کے باعث ہی ممکن ہے)تک یہ
وہ۔۔۔۔ بنتے رہیں گے۔پہلے بھی کئی بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ پیپلز پارٹی کی
قیادت کو پارٹی کے اند کے انتشار کو سمجھنا چاہیئے اور حکومت کی حلیف اور
حریف جماعتوں کو پیپلز پارٹی کی سیاست پر غور کرنا چاہیئے کہ پیپلز پارٹی
کونسے کارڈ کھیلے گی؟ پیپلز پارٹی نے ذوالفقار مرزا کی قربانی دے کر سندھ
میں نہ صرف اپنے ووٹ بینک جو محفوظ بنا یا ہے بلکہ ایم کیو ایم اور دیگر
حلیف جماعتوں کو مرزا کا خوف دلوا کر انہیں اپنے ساتھ اتحاد میں بھی برقرار
رکھا ہے۔جو ملکی سیاست میں ایک اہم قدم ہے۔مسلم لیگ نے بنیادی طور فرینڈلی
اپوزیشن کا کردار ادا کرکے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور پیپلز پارٹی
کو ایک بار پھر پنجاب میں سیٹیں لینے کا موقع فراہم کر دیا ہے مگر اس کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقبولیت گراف بلند ہو گیا ہے پیپلز
پارٹی کی قیادت اور سربراہ کا وفاداروں اور دوستوں کو نوازنے کا عمل جاری
ہے جو پیپلز پارٹی کی پرانی پالیسی ہے۔پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت
پاکستا نی عوام کو صحت تعلیم روزگار مکان تحفظ ۔۔۔۔سمیت تمام زندگی کی
ضروریات دینے کی پابند ہے مگر ایک بھی حکومت اپنا وعدہ وفا کرنے میں کامیاب
نہ ہوئی۔مگر یہ ضرور ہوا کہ درجنوں خاندان پاکستان کی امیر ترین لوگوں کی
فہرست میں شامل ہو گئے اور ان ارب پتی لوگوں کی ہوس دن رات کم ہونے کی
بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پر 70 ماہ تقریبا
حکومت کی،اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت 57 ماہ پر مشتمل تھی اسی طرح آصف
علی زرداری کی حکومت کے عرصہ کو ملا کر اس خاندان کی حکومت کا دورانیہ 164
ماہ بنتا ہے۔نواز شریف کی حکومت کا بطور وزیراعظم دورانیہ 64 ماہ بنتا ہے
جبکہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب عرصہ حکومت 44 ماہ ہے۔کل عرصہ اقتدار 108ماہ
بنتا ہے۔شہباز شریف کا دور اقتدار 76 ماہ پر مشتمل ہوچکا ہے۔19 سال سے زائد
عرصہ دور اقتدار کی چیمپئین بیلٹ جمہوریت کے چیمپئینوں کے پاس رہ چکی ہے۔اس
تمام عرصہ میں پاکستان نے ہر محاذ اور ہر فورم پر شکست کا سامنا کیا ہے اور
حکومت نے کچھ دیا ہے عوام کو تو وہ صرف اور صرف مہنگائی کرپشن بے روزگاری
آٹے کی لائنیں ڈینگی پٹرول کی ہوشربا قیمتیں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر
دوسرے ماہ فی یونٹ نرخوں میں اضافہ اوور بلنگ300 سے زائد اچھی بھلی چلتی
ہوئی ٹرینوں کی بندش پی آئی اے کی ہنگامی لینڈنگزاور ناکارہ مرمت اور اوور
ہالنگ چور بازاری ذخیرہ اندوزی کے۔حکمرانوں نت وطیرہ بنا لیا ہے ملکی وسائل
کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے کا۔اسی طرح بھٹو خاندان اور شریف خاندان کی
طرح اقتدار کو موروثی وراثت سمجھتے ہوئے گیلانی صاحب بھی قدم ملانے
لگے۔مجتبیٰ گیلانی عبدالقادر گیلانی کو بھی اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے کا
موقع دے دیا گیا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جمہوریہ پاکستان بحران بنا
دیا گیا ہے۔اور حقائق سے اس طرح منہ موڑا ہوا ہے جیسے کہ اس ملک میں انہوں
نے عدل فاروقی قائم کر رکھا ہے؟
ہر چینل پر کم از کم تین تین ٹالک شو چلتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر جو مسلسل
حکومت کی نا اہلی کی داستان بیان کرتے ہیں مگر ان شوز میں سوال گندم اور
جواب اپوزیشن ہوتا ہے جو کہ ان نام نہاد عوامی نمائندگان کا اینکرز اور
عوام کے ساتھ بہیمانہ مذاق ہوتا ہے۔A ٹوZ حکومتی ٹولہ نااہل ترین لوگوں پر
مشتمل ہے جن کی وجہ سے آج ملکی و غیر ملکی دشمن عناصر کی مداخلت سے ملک بد
ترین انتشار کا شکار ہو چکا ہے ہم بہ حیثیت قوم ایسے لوگوں کو اقتدار دے
چکے ہیں جو ہمیں مایوسی اور اندھیروں کی منزل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ریلوے
کی بربادی سامنے ہے۔جبکہ چند سال پہلے پی آئی اے اور ریلوے کا خالص منافع
اربوں میں ہوتا تھا۔ریلوے کا ملکی دفاع میں اہم ترین کردار ہے اگر ہماری
ریلوے آپریشنل پوزیشن میں نہ ہوئی تو ملک کو کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں
سخت نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہو جائے گا۔لہذا آرمی چیف اشفاق کیانی اور
چیف جسٹس پاکستان چوہدری افتخار محمد کم سے کم ملکی سالمیت میں اہم ترین
کردار ادا کرنے والے اداروں کو فعال رکھنے کے لیئے کوئی جامع پالیسی تحت ان
کی بہتری کے لیئے اقدامات کریں جس میں توانائی لاجسٹک دفاع وغیرہ کے شعبے
قابل ذکر ہیں اور ان کو پڑھے لکھے جاہل وزراء کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔ان
کی مثال یہ ہے کہ ایک جنگل میں سب جانوروں کی میٹنگ ہوئی اس کا ایجنڈا تھا
کہ کسی باشعور جانور کو ڈاکٹری کی تعلیم دلوائی جائے تاکہ جانوروں کو درپیش
بیماریوں کا علاج باآسانی ہوسکے ۔قرعہ بند کے نام نکلا اس کو ڈاکٹر بننے کے
لیئے شہر بھیج دیا گیا جہاں اس نے تعلیم حاصل کی اور واپسی پر شاندار
استقبال کیا گیا۔کچھ دن بعد خالہ لومڑی بیمار ہو گئیں ۔جانور مزاج پرسی کے
لیئے اکھٹے ہوئے تو کسی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو بلاؤ وہ اس کا علاج کریں
۔ڈاکٹر بندر آ گئے اس کو دیکھا اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر اچھلنا کودنا
شروع کردیا ۔بالآخر لومڑی خالہ مر گئی ۔جانوروں نے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا
ہے؟ اس نے جواب دیا کہ محنت تو بہت کی تھی مگر قدرت کی یہی مرضی تھی۔اب
پاکستانی عوام خود عقل و شعور کی مالک ہے کہ اس نے اپنی تقدیر کس کے ہاتھ
میں دینی ہے اور کس کو مسیحا بنانا ہے۔ |