بلی اور گوشت

ایک شخص کی بیوی سخت نخرے باز ، خائن اور بد سلیقہ تھی۔ شوہر محنت مزدوری کر کے جو چیز بھی گھر میں لے کر آتا وہ اُسے تباہ وبرباد کر دیتی۔ایک مرتبہ گھر میں کچھ مہمان آنے تھے۔ شوہر محنت مزدوری کر کے مہمانوں کے کھانے کے لیے گوشت لے کر آیااور گھر سے جاتے ہوئے بیوی کو کہہ گیا کہ مہمانوں کے لیے اچھا کھانا تیار کر لینا۔شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی نے اُس گوشت کے کباب بنائے اور خود کھا لیے۔شوہر واپس آیا اور پوچھا کہ مہمان آنے والے ہیں کیا کھانا تیار ہے۔ بیوی نے جواب دیا کہ وہ گوشت جو تم پہلے لائے تھے وہ تو بلی کھا گئی ہے اور اگر مہمانوں کے لیے کچھ پکانا ہے تو اور گوشت لے کر آﺅ۔ شوہر نے ترازو لی، بلی کو پکڑا اور اُس کا وزن کیا۔ بلی آدھا سیر نکلی۔ شوہر نے کہا کہ اے نیک بخت وہ گوشت نصف سیر سے زائد تھا اور یہ بلی نصف سیر ہے۔ اگر یہ بلی ہے تو گوشت کہاں ہے اور اگر یہ گوشت ہے تو بلی کہا ں ہے؟

اس واقعے کو اگر ہم ملکی صورتحال پر لاگو کر کے دیکھیں تو درج ذیل سوال نامہ مرتب ہو سکتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران عوام کے اربوں کھربوں کے وسائل کرپشن، بے ایمانی، بدمعاشی کے ذریعے علی الاعلان لوٹ چکے ہیں، لوٹ رہے ہیں اور خدانخواستہ آئندہ بھی لوٹتے رہیں گے۔اگر وہ اپنے تئیں دیانتدار ہیں تو وہ عوام کو جواب دیں کہ اُن کے فارن کرنسی اکاﺅنٹس میں رقوم کہاں سے آئی ہیں؟

اُن کی فیکٹریاں اور ملیں سیاست میں آنے کے بعد دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے ایک سے سو کیسے بنیں؟

ہر سال اسی حکمران طبقے کی فیکٹریوں میں بننے والی چینی اور آٹے سمیت اشیائے خوردونوش وصرف جن کی پیداوار یا ڈسٹریبیوشن پر انہی کا قبضہ ہے وہ اشیائے ضرورت ملک میں ایک خاص ٹائم پیریڈ میں قلت سے دو چار کیوں ہوتی ہے اور پھر اُن کی قیمتیں راتوں رات کیسے بڑھ جاتی ہیں؟

ملکی وسائل لوٹنے والوں، عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والوں، رستہ گیروں، بھتہ خوروں ، کمیشن مافیا اور دیگر ہر طرح کے وارداتیوں کو پکڑنے کے لیے کیا اُنہی کے سرپرست کوئی کارروائی کریں گے۔ اس بات کو ایک لطیفے کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں کہ
”ایک بچہ آموں کے ایک باغ میں درخت پر چڑھ کر آم توڑ رہا تھا کہ وہاں اچانک مالی آگیا“
”مالی نے اُسے دیکھا تو غصے سے دھاڑا کہاں ہیں تمہارے والد صاحب میں ابھی جا کر انہیں تمہاری شکایت کرتا ہوں۔ بچے نے معصومیت سے جواب دیا جی وہ گھر پر نہیں ہیں وہ بھی ساتھ والے درخت پر چڑھ کر آم توڑ رہے ہیں۔

حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے خواب قائدِ اعظم محمد علی جناح کی محنت شاقہ سے معرضِ وجود میں آنے والی اُس خواب کی تعبیر اور کروڑوں مسلمانانِ برصغیر کی اُمیدوں و امنگوں کا محور و مرکز پاکستان اس وقت لٹیروں کے درمیان گھرا ہو ا ہے۔

سردار عبد الرب نشتر نے پاکستان بننے کے بعد اسمبلی میں جو دردِ دل بیان کیا تھا وہ بالکل درست تھا
بس اتنی بات پر چھینی گئی تھی راہبری ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پر لٹوائے نہیں جاتے

ہمارے عوام کے وسائل پر پلنے والی یہ جونکیں تب تک ہمارے خون پر پلتی رہیں گی جب تک ہم ان راہزنوں کے خلاف مظلوم بن کر ان کے ظلم سہتے رہیں گے۔اگر ہم نے جینا سیکھنا ہے تو پہلے مرنا سیکھنا ہو گا ورنہ یہ بلیاں گوشت کھاتی رہیں گی اور عوام اسی طرح پستے رہیں گے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374138 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More