دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی
پالیسی سازی کے بارے میں اب تک امریکہ کو بالادستی حاصل رہی ہے اور یہ پہلا
موقع ہے کہ اسے پاکستان کی سرحدوں کے اندر حملے کرنے کے معاملے پر جہاں بظاہر
پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے وہاں اس معاملے پر وہ تنہا بھی نظر آ رہا ہے۔
گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں یہ پہلا
موقع ہے کہ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیوں کے سوال پر امریکہ کے اتحادی، نیٹو
اور قریبی حلیف برطانیہ نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ نیٹو
اور برطانیہ نے جو موقف اختیار کیا وہ پاکستان کے موقف کی کافی حد تک تائید
کرتا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ اس تبدیلی کی اصل وجہ تین ستمبر کا وہ واقعہ ہے، جب
ہیلی کاپٹروں میں آنے والے امریکی دستوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے انگور اڈہ
کے قریب ایک گاؤں پر حملہ کر کے بیس افراد کو قتل کر دیا تھا۔ تاحال سامنے آنے
والی معلومات کے مطابق مارے جانے والوں میں القاعدہ یا طالبان کا کوئی نامی
گرامی کمانڈر شامل نہیں اور بیشتر خواتین، بچے اور عام شہری ہی نشانہ بنے تھے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں سات سالہ شراکت
کے دوران گرمی سردی تو ہوتی رہی ہے لیکن دونوں کے اختلافات اور تعلقات میں
کشیدگی نہ تو پہلے اس نہج پر پہنچی اور نہ ہی اختلافات میڈیا کی زینت بنے۔
دفاعی مبصر لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکہ پہلی بار تنہا
ہوا ہے اور اس کے حملوں کے بعد پاکستان کی حکومت، فوج اور عوام کا جو رد عمل
سامنے آیا اور جس طرح نیٹو اور برطانیہ نے موقف اختیار کیا اس کے بعد امریکہ کے
لیے بہت مشکل ہے کہ وہ پاکستان پر حملوں کی پالیسی جاری رکھ سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے اندر جو حملے کیے ان میں کوئی بڑا
القاعدہ یا طالبان کا رہنما یا کمانڈر نہیں ہلاک ہو بلکہ عام شہری ہی مارے گئے۔
ایسے میں رد عمل ہونا لازمی تھا اور جس طرح قبائلیوں نے امریکہ کے خلاف لڑنے کا
اعلان کیا تو فوج کے لیے ممکن ہی نہ رہا کہ وہ اس پر خاموش بیٹھ سکے۔
طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ کی پاکستان میں موجودگی کی صورت میں
کسی امریکی کارروائی پر شاید پاکستان رد عمل ظاہر نہ کرے۔ ان کے مطابق موجودہ
صورتحال میں امریکہ جاسوسی کے لیے تو شاید بغیر پائلٹ کے طیارے استعمال کر سکے
لیکن حملوں کے لیے نہیں۔
پاکستان اور امریکہ میں تعلقات کی کشیدگی کی سطح کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا
ہے کہ اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر ایڈمرل مائیکل مولن کو اچانک اسلام آباد آنا
پڑا اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد یہ بیان دینا پڑا کہ
امریکہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرے گا۔
ان ملاقاتوں سے بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ دونوں ممالک کو احساس ہے کہ دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے دونوں کا تعاون لازم و ملزوم ہے۔ شاید یہی وجہ
ہے کہ فریقین اپنی بات چیت کے نتائج میڈیا کے سامنے لانے سے احتیاط برت رہے ہیں
اور صرف امریکی سفارتخانے کی جانب سے ایک مختصر بیان پر اکتفا کیا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں پاکستان نے بھی امریکہ کو مستقبل میں
باوثوق معلومات کی بنا پر فوری کارروائی کا یقین دلایا ہوگا اور آئندہ ایسی
کوئی بھی صورتحال پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے لیے ایک امتحان ہوگا۔ |