حکومت نے این آر او کیس میں نظر
ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے ۔فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے
فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں گے۔“یہ وہ موقف ہے جو وزیر اعظم نے
این آر او کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی
اپیل دائر کرنے کے بعداپنایا ۔"
نظر ثانی کی اپیل پر سپریم کورٹ کا دو ٹوک اور غیر مبہم فیصلہ سامنے آچکا
ہے۔یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وزیر اعظم ”روح “ کی کوئی تعبیر کرتے ہیں یا
فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہیں۔اس سے قبل سپریم کورٹ اسی کیس کی سماعت کے
دوران دلچسپ ریمارکس دے چکی ہے کہ حکومت عدالت کے فیصلوں کا صرف ”احترام “
کرتی ہے عمل درآمد نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ رات صدر آصف علی زرداری
کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماﺅں کا ایک اہم اجلاس ہوا۔اجلاس کے
بعد بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس کیس کے تفصیلی فیصلے کا انتظار
کر رہی ہے۔ تاہم اصولی طور پر طے کیا گیا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا احترام
کیا جائے گا۔کیا اس دفعہ بھی فیصلے کا محض ”احترام“ کیا جائے گایا ”عمل
درآمد “؟ قوم کو یہ جاننے کےلئے تھوڑا سا مزید انتظارکرنا ہوگا کہ
محض”احترام“یا عمل درآمد؟عوام کا یہ خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کی حمایت سے
منتخب ہونے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یا سین آزاد ایڈووکیٹ
حکومت کے ساتھ عدالت کے خلاف کھڑے ہوںگے مگر ان کا واضع موقف سامنے آچکا ہے
کہ” ہماری عدلیہ اتنی کمزور نہیں کہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرا
سکے۔حکومت کو ہر صورت میں فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ حکومت کے پاس یہ
جواز ختم ہوگیا کہ اس نے نظر ثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے ۔اب فیصلہ
آگیا ہے اگر حکومت نے عمل درآمد نہ کیا تو سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لیتے
ہوئے کاروائی کر سکتی ہے۔انہوں نے ساتھ ساتھ حکومت کو متنبہ بھی کیا ہے کہ
اگر عدلیہ کے حوالے سے تین نومبر جیسی صورتحال پیدا کی گئی تو سپریم کورٹ
بار ایسوسی ایشن اپنا وہی کردار ادا کرے گی جو تین نومبر کے بعد کیا
تھا۔“این آر او کیس نے کئی اٹارنی جنرل ، سیکریٹری قانون ہضم کئے ہیں ۔مگر
ایسے لگتا ہے کہ اب حکومت کو یہ خط سوئس حکام کو لکھنا پڑے گا کہ ”پاکستان
کے صدر مملکت کے خلاف بد عنوانی ، منی لانڈرنگ ، کمیشن کے جو کیس این آر او
کے ذریعے بند کر دئیے گئے تھے وہ دوبارہ کھول دئیے جائیں“۔اگر حکومت ایسا
نہیں کرتی تو توہین عدالت کی مرتکب ہوگی۔ممکن ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے
عدم تعاون پر عدالت عظمیٰ آئین کے آرٹیکل 190کا استعمال کرتے ہوئے براہ
راست متعلقہ حکام کو فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے ۔مگر ایک بات واضع ہے کہ
حکومت کو اب محض احترام نہیںفیصلے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
حکومت خطرناک بحرانوں کی زد میں ہے ،”میمو گیٹ“ سکینڈل پر اگر سپریم کورٹ
مسلم لیگ ن کی طرف سے دائرکی گئی درخواست قبول کرتے ہوئے بینچ بنا کر
باقاعدہ سماعت کا آغاز کرتی ہے تو بہت سارے راز منکشف ہوں گے۔ دوسری طرف
ذوالفقار مرزا اپنے ”دوست “صدر زرداری کے لئے مستقل مشکلات پیدا کرتے جا
رہے ہیں۔اگرچہ بعض لوگوں کا ابھی بھی یہ خیال ہے کہ ذوالفقار مرزا صدر
زرداری کی ایماءپرسارا کھیل کھیل رہے ہیں۔ مگر راقم نہ پہلے ایسا سمجھتا ہے
اور نہ اب۔دونوں دوستوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔پیپلز پارٹی سے
مستعفی ہونے والی ایک ہیوی ویٹ شخصیت شاہ محمود قریشی 27نومبر کو پنجاب اور
سندھ کے سنگم گھوٹکی میں ایک بڑا جلسہ عام کرنے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے
تاحال کسی کو یہ خبر نہیں ہونے دی کہ وہ مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف میں
شامل ہوں گے یا اپنا سیاسی دھڑا بنائیں گے۔تاہم انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے
کوہیں۔مگر یہ بات واضع ہے مخدوم صاحب کے مستقبل کا لائحہ عمل حکمران جماعت
کے لئے شدید مشکلات پیدا کرے گا۔صدر زرداری کو اب یہ مشورہ دینامحض احمقانہ
بات ہوگی کہ وہ قبضہ گروپ سے پیپلزپارٹی کو آزاد کر ا کے نظریاتی لوگوں کو
سامنے لائیں۔شاید اب یہ کوشش بھی زیادہ بارآور ثابت نہ ہو۔ وفاق کی علامت
جماعت پیپلزپارٹی کو تباہ برباد کرنے کا تمام تر الزام شریک چیئرمین آصف
زرداری صاحب کو جاتا ہے ۔کسی سے کیا گلہ شکوہ۔۔۔اپنے ہی ہاتھوں اپنی جماعت
کی بربادی کا خوب خوب انتظام کردیا ۔۔۔
برسراقتدار جماعت کی زندگی اس کے طرز حکمرانی سے جڑی ہوتی ہے مگر اقتدار کے
ایوانوں اور اس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر شیخ سعدیؒ کا یہ شعر مجھے
اکثر یاد آتا ہے۔
غربا میر وسگ وزیر موش رادیوان کنند
ایں چنیں ارکانِ دولت ملک را ویران کنند
بلی کی خصلت والا حکمراں، کتوں کی خصلت والے وزیر اور چوہوں کی خصوصیات
رکھنے والی کابینہ ہو تو یہ کابینہ ملک کو ویرانی کے سواءکچھ نہیں دے
سکتی۔کیونکہ ان سب کی جبلتیں اور خصلتیں ہی جدا جدا ہیں۔
مزید کالم پڑھنے کے لئے درج ذیل بلاگ کو وزٹ کیجئے
https://dairay.wordpress.com/ |