پاکستان سمیت دنیا بھر میں موزوں
سیاسی لیڈر شپ کے لیے جہاں بہت سی خصوصیات گنوا دی جاتی ہیں وہاں اس بات کا
بھی شاذ و نادر تذکرہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی لیڈرشپ میں دو اہم اور بنیادی
خصوصیات ضرور ہونی چاہئے ۔ ان دو خصوصیات میں اول شرط لیڈرشپ کی اہلیت کا
ہونا ہے اوردوسرے نمبر پر لیڈر کا باکردار ہونا ضروری ہے ۔اگر ان دونوں
خصوصیات کی روشنی میں صف اول کے سیاست دانوں سے لے کر گلی محلے کی سیاست
کرنے والوں کو دیکھا جائے توہم انگلیوں پرچند ایک نام گن سکتے ہیں جو
مندرجہ بالا دونوں اوصاف پر پورے اترتے ہوں گے۔ اسی طرح اگر بیوروکریسی اور
افسر شاہی کی طرف لیڈرشپ کے لیے آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو ایک سے بڑھ کر ایک
کایاں شخص ملے گا جو امور حکومت چلانے اور عوام کے مسائل چٹکیوں میں حل
کرنے کاگربخوبی جانتا ہے مگر بات جب کردار کی آئے گی تو کرپشن کے گندے
چھینٹے ہر دوسرے بیوروکریٹ کے دامن تار تار پر چھپائے نہیں چھپیں گے ۔
سیاست دانوں اور بیوروکریسی سے یکسر مایوس ہو نے کے بعد اگر دیکھا جائے تو
لیڈر شپ کے لیے ایک تیسری آپشن بھی ہے ۔ یہ وہ لوگ بھی ہیں کہ جن کو ہم
رائے عامہ ہموار کرنے والے افراد کہہ سکتے ہیں جن میں علاقے کی بزرگ شخصیات،
قبائلی سردار،پٹواری،اساتذہ، وکیل، مساجد و امام بارگاہوں کے امام،بینکر،
لکھاری ، فلسفی ، صحافی ، شاعر ، ادیب، ناول نگار، اداکار ، فنکار، سماجی و
فلاحی کارکن، مذہبی شخصیات، ڈاکٹر اور دیگر غیر سیاسی موثر شخصیات آتی ہیں
۔ جب بات ان لوگوں کے کردار کی آتی ہے تو یہ لوگ انتہائی باکردار ہیں مگر
کسی نہ کسی طور لیڈر شپ کے اہل نہیں کہ ہر کسی کی اپنی مجبوریاں ہیں، اپنے
مسائل ہیں یا ان کو صحیح طور کام نہیں کرنے دیا جاتا اور شاید یہ لوگ
لیڈرشپ کرنے کے لیے بنائے ہی نہیں گئے۔ مشہور ضر ب المثل بھی شاید انہی
لوگوں کی حالت بیان کرتی ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے!!!
اب ایک چوتھی اور آخری آپشن بھی ہے جسے نئی پود ، نئی نسل یا نوجوان کہا
جاتا ہے کہ یہ لوگ سیاسی قیادت کرنے کے اہل بھی ہیں اور کردار کے بھی صاف۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور رہنما عمران خان نے بھی پہلی تینوں آپشنز
کو رد کرتے ہوئے تبدیلی کا نعرہ اسی نوجوان نسل سے پر امید ہوتے ہوئے لگایا
اور یہ نئی پود بھی عمران خان کی انگلی پکڑے ایک سمجھدار اور سلجھے ہوئے
بچے کی مانند سیاسی بھول بھلیوں میں داخل ہوگئی کہ نوجوانا ن پاکستان بھی
سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ (بیوروکریسی) کے ہاتھوں اس ملک کی درگت بنتے
دیکھ دیکھ کر اکتا چکے مگر موجودہ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا
اور ان کی جگہ لینا تقریباً ناممکن ہے ۔ یہ بات مجھ سے کہیں زیادہ پاکستان
تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان بخوبی جانتے ہیں کہ میرا کسی سیاسی جماعت
سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
اگر ہم بات پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اہلیت کی کریں تو یہ بات
یقینی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے آغاز سے ہی اس تحریک سے وابسطہ لوگ
پڑھے لکھے ، سلجھے ہوئے اور باکردار لوگ تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان
تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سیاست دانوں میں اکثر و بیشتر وہی چہرے
مہرے نظر آنے لگے جنہیں یا تو عوام رد کرچکے تھے یا جن کے اپنی سیاسی
جماعتوں سے اختلافات تھے۔ اسی طرح کی ایک سیاسی شخصیت اعجاز خان جازی کی
تھی جنہیں مسلم لیگ نون لیگ کی جانب سے حلقہ این اے ۵۵ کے لیے انتخابی ٹکٹ
نہیں دیا گیا تھا اور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کر کے 2010 ءکا
ضمنی الیکشن لڑا ۔ یاد رہے کہ اعجاز خان جازی کو پاکستان تحریک انصاف نے اس
لیے پارٹی میں شامل کیا کہ ان کو مخدوم جاوید جاوید ہاشمی نے پارٹی لیڈرشپ
کی طرف سے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ جیسے ہی حلقہ این اے ۵۵ کی سیٹ
چھوڑیں گے اور اس سیٹ پر ضمنی انتخابات ہوں گے تو پارٹی ٹکٹ کے حق دار
اعجاز خان جازی ہوں گے مگر آخری وقت میں پارٹی کی اعلی قیادت نے اعجاز خان
جازی کے بجائے پارٹی ٹکٹ حاجی پرویز خان کو دے دیا جو بعد میں جعلی ڈگری
کیس میں نا اہل ہوئے اور حلقہ این اے ۵۵ میں دوسری مرتبہ ضمنی انتخابات
ہوئے مگر اس دفعہ بھی پارٹی قیادت نے اعجاز خان جازی کے بجائے شکیل اعوان
کو پارٹی ٹکٹ دیا اور اسمبلی میں پہنچانے کے لیے پارٹی قیادت مری روڈ
راولپنڈی میں آن موجود ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف میں اعجاز خان جازی کو شا
مل کرنے سے تحریک انصاف کے عمومی تاثر پر برا اثر پڑا کہ اس پارٹی میں بھی
آزمائے ہوئے لوگوں کو ہی لایا جا رہا ہے اور اس پارٹی میں بھی اگرو ہی
پرانے اور کرپٹ سیاست دان آنے لگے تو یہ پارٹی اپنا تبدیلی کا وعدہ کبھی
پورا نہیں کر سکے گی ۔ یہاں میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ ان ضمنی
انتخابات کے دنوں میں مجھے ایک نجی چینل کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس
دوران میں نے پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت اور اس پارٹی کے ورکرز کے
نظریات اور کام کرنے کے اندازکو بہت باریک بینی سے دیکھا۔ پاکستان تحریک
انصاف نے2010 ءکے ضمنی انتخابات میں جہاں حکومت وقت پر دھاندلی کے الزامات
لگائے وہیں تحریک انصاف کی قیادت اپنے امیدوار اعجاز خان جازی کے الیکشن
جیتنے کے بارے میں غیر سنجیدہ تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پارٹی کے ترجمان زاہد
کاظمی، جو کہ ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں کہ درمیان یہ طے پایا تھا کہ
اگلے جنرل الیکشنز میں حلقہ این اے ۵۵ سے زاہد کاظمی ایم این اے کے لیے
الیکشن لڑیں گے اور اعجاز خان جازی کو اسی حلقے سے ایم پی کی سیٹ پر الیکشن
لڑوایا جائے گا۔ اعجاز خان جازی کی شکست کی دوسری اہم وجہ یہ بھی تھی کہ
پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ خود تو حکومتی
ایوانوں سے باہر ہوں اور ان کی پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر ان کی پارٹی کا
ایک رکن ایم این اے بن جائے۔
ان ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی قیادت صحافیوں پر جانب
داری کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو پارٹی کے جلسوں کی کوریج کے
عوض رشوت دینے کی پیشکش کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔ یہی نہیں پاکستان تحریک
انصاف کے سیاسی عمائدین الیکشن کی تشہیراتی مہم کے دوران ایک دوسرے پر سبقت
لینے کے لیے صحافیوں کے قریب رہنے اور ان کی خوب آؤ بھگت کرنے میں کوئی کسر
نہ اٹھا رکھتے اور پارٹی کی اعلی قیادت کے گن گاتے نہ تھکتے ۔
میرا مقصد کسی پر الزام تراشی کرنا یا کسی کو خدانخواستہ بد عنوان ثابت
کرنا نہیں بلکہ سچ سے ان تمام نوجوانوں کو مطلع کرنا ہے جو جوق در جوق
پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو کر اسے پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول
جماعت بنانے جا رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف بہر حال پاکستان میں موجود
تمام سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر ایک آپشن ضرور ہے مگر یہ پارٹی بھی باقی تمام
پارٹیوں کی طرح کا ڈھانچہ لے کر ہی سامنے آ رہی ہے اوریہ پارٹی ایک مقبول و
معروف جماعت بننے کے لیے بھی اسٹیبلشمنٹ کا اسی طرح سہارا لے رہی ہے کہ جس
طرح باقی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت اقتدار میں آتی ہیں یہی
وجہ ہے اس پارٹی میں ولید اقبال ایڈووکیٹ، ظفر اللہ تارڑ، منور تارڑ ، سابق
ممبر صوبائی اسمبلی خالد رندھاوا، جہانگیر ترین، سکندر بوسن، اویس لغاری،
اسحاق خاکوانی، غلام سرور، سردار جمال لغاری اور سردار طفیل سمیت 14رہنما
شامل ہوگئے ہیںیاد رہے کہ یہ تمام سیاست دان گزشتہ الیکشن میں اپنے حریفوں
سے بہت کم ووٹوں کے فرق سے شکست سے دوچار ہوئے تھے یا ان لوگوں کی پشت پر
بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ ہاتھ رہا ہے ۔
اگرچہ بہت سے نوجوان پاکستان تحریک انصاف سے دلی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ
تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے بلند بانگ دعووں کو من و عن مانتے ہیں اور
ایک بدلے ہوئے نظام کے خواب دیکھنے لگے ہیں میری ان سے درخواست ہے کہ وہ
اپنے خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں کہ اس بار بھی وہی چہرے ہیںاور وہی محرکات
ہیں کہ جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ذوالفقار علی بھٹو کے کھڑے کیے ہوئے”
کھمبوں “کو ملک و قوم کا لیڈر بنا دیا تھا ، نواز شریف کو دو تہائی کی
اکثریتی اسمبلی کا وزیر اعظم ، پاکستان میں جس شخص کا اپنا ذاتی مکان نہیں
تھا اسے وزیر اعظم کے منصب پر پہنچا دیا اور آنے والے دنوں میں پاکستان
تحریک انصاف، آل پارٹیز مسلم لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کو شریک اقتدار
کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ |