اعجاز منصور کا ”میمورنڈم“

مملکت خداداد پاکستان میں آئے روز کوئی نہ کوئی ایشو، قضیہ سر اٹھائے رہتا ہے اور صورتحال کا الجھاﺅ ، پیچیدگی ہمیشہ غریب عوام کے لیے ہی ”تشنج “کا باعث بنتی ہے ،ستم ظریفی دیکھیے کہ اس ملک کے اصل مالک اور وارث ”عوام“ کو کبھی بھی، کسی بھی اہم ایشوپر حقائق اور اصلیت سے آگا ہ نہیں کیا جا تا، ریاست میں ایسی بے ربطگی اور بے ترتیبی چھائی ہے کہ الاما ن الامان ، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہمیں نت نئے کرائسس اور سکینڈلز سے ہی فرصت نہیں ، پہلے ایشو کو دبانے کے لیے ایک نیا قضیہ کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ اس وقت دنیا بھر میں دس اکتوبر2011 کو لندن کے ایک مغربی اخبار فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے اعجاز منصور کے مضمون کا بہت چر چا ہے جس کے نتیجے میں اس ”میمو سکینڈل “نے موجودہ سیاسی و ملکی صورتحال میںخاصی اہمیت اختیار کر لی ہے اور جگہ جگہ اس پر تبصرے ، تذکرے جاری ہیں ۔ اعجاز منصور نے اپنے مضمون میں لکھا کہ اس نے صدر پاکستان کی جانب سے ایک خط امریکی فوج کے سربراہ مائیک مولن کو پہنچایا تھا ، مذکورہ خط کا لب لباب بہت ہی خطرناک نوعیت کا ہے ، لکھا گیا کہ ”پاکستانی فوج کی جانب سے جمہوری حکومت کو خطرات لاحق ہیں لہذا فوج کو اقتدار پر شب خون مارنے سے باز رکھنے کے لیے امریکہ مدد کرے“ امریکہ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت ،آئی ایس آئی سربراہ کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے اور ایک نئی” سیکیورٹی ٹیم“ بنائی جائے ۔اعجاز منصور نے کہاکہ انہیں یہ” میمو“ ترتیب دینے کے لیے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہااور یہ خط مائیک مولن تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی مجھے ہی سونپی گئی ۔ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین اعجاز منصور کے متعلق ایک معاصر کا کہنا ہے کہ وہ ایک کٹر اور متعصب قسم کا قادیانی ہے جو دنیا بھر میں اور بالخصوص پاکستان میں ”احمدیوں“ کے مفادات کے تحفظ کے لیے سر گرم عمل ہے اور اس کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی ہر گزنہیں ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ وہ پاکستان کی مسلح افواج ، خفیہ ایجنسیوں اور بالخصوص آئی ایس آئی کے خلاف بھی وقتا فوقتا زہر اگلتا رہتا ہے اور اپنے تئیں پاکستان کو” فوجی تسلط “سے آزادی دلانے کی جدوجہد کر رہا ہے ۔حکومتی اور عسکری اداروں میں اس وقت کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وزیر اعظم گیلانی نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں حسین حقانی سے استعفی طلب کیا اور یوں فوری طور پر تو حسین حقانی ہی اس ”میمو سکینڈل “کی زد میں آگئے ہیں تاہم تبصرہ نگاروں کے مطابق ابھی کئی طرح کے کردار نشانے پر ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ صدر زرداری بھی اس کی گرفت میں آجائیں ،حقانی کے استعفی کے بعد بیان جاری کیا گیا کہ استعفے کا مقصد اس سکینڈل کی شفاف تحقیقات کو آگے بڑھانا ہے ، خبروں کے مطابق حسین حقانی ایک ملزم کی حیثیت سے پیش ہوئے اور اپنی گفتگو کو چاروں بڑوں(صدر زرداری ، وزیراعظم گیلانی ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ جنرل پاشا) کے سامنے جاری نہ رکھ پائے ،حسین حقانی نے یہ بھی کہا کہ بحران میرا پیدہ کردہ نہیں اس کا ہے جو ”مناکو “میں رہتا ہے ، ان کااشارہ اعجاز منصور کی طرف تھا ۔ حسین حقانی کے استعفی کے بعد اعجاز منصور نے کہا کہ وہ تحقیقات میں مزید تعاون کریں گے اور اس کے لیے پاکستان بھی آنے کے لیے تیار ہوں گے ۔

اعجاز منصورکا ”میمورنڈم“ یا پھر” میمو گیٹ سکینڈل“ کی بروقت ، تفصیلی اور شفاف ترین تحقیقات وقت کا تقاضا ہیں کیونکہ اس میں پاکستان کے طاقتور اور اس کے تحفظ کے ضامن اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ،اس سکینڈل کے کلیدی کرداروں کو بے نقاب کر کے قوم کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ آخروہ کون سے بھیانک مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے یہ سازش تیار کی گئی اور اس وقت جب کہ وطن عزیز نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے اس سازش کا انکشاف کس کے حق میں ہے اور کس کے مخالف ؟آخر کون اس خط یا میمو کا ماسٹرمائنڈ ہے اور کون ہے جو پردے میں رہ کر وطن عزیز کی مسلح افواج کو کمزور کر کے اورمغربی طاقتوں کے آگے گروی رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ، کم ازکم اس بات میں تو اب کوئی ابہام یا شک وشبے کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ اعجاز منصور نامی شخص اکیلا ہی اس میدان کا کھلاڑی نہیں بلکہ اس سازش کے پس پردہ ایک منظم اور طاقت ور لابی سرگرم عمل ہے ،ایسا لگ رہا ہے کہ اعجاز منصور تو محض ایک مہرہ ہے جسے استعمال کیاگیا ہے ۔حکومت کو اس مسئلے کو بلاوجہ طول نہیں دینا چاہیے، ہم سمجھتے ہیں کہ” میمو معاملے “میں محض سفیر کااستعفی ہی کافی نہیںضروری ہے کہ معاملے کی حساسیت اور نزاکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام کردار وں کو کٹہرے میں لایا جائے اور یہ آپشن اعجاز منصورکی مرضی تک محدود نہ رکھا جائے کہ وہ ملک میں آئیں یا نہ آئیں بلکہ اس شخص کو ملک میں لا کر اسے تفتیش کا لازمی حصہ بنایا جائے ۔ اس مبینہ ”سازش“ یا” سکینڈل “کی چھان بین کے معاملے میں ملکی اور قومی وقار کو بہر حال اہمیت دی جائے اور ہر قدم انتہائی احتیاط اور فہم و فراست و تدبر سے اٹھایا جائے تاکہ اس حساس موقع پر دشمن اپنے مفادات حاصل نہ کرپائے ، دشمن کی چالوں اور ریشہ دوانیوں سے قدرے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ جیسے ” بازاری دوست “ اور دیگر دشمن ممالک کی پاکستان کے خلاف سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور یہ اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 37000 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.