یہ حقیقت ہماری سیاسی تاریخ کا
حصہ ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی میدان گرم ہوتا ہے انتخابات قریب آتے ہیں
تو ہر سمت سے سیاسی قائدین کے عوامی خدمت کے دعوے شروع ہو جاتے ہیں۔عوام کے
ساتھ رابطہ کر کے بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں۔عوامی تقدیر کے بدلنے کی جھوٹی
نویدیں سنائی جاتی ہیں۔وفا نبھانے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ مگر یہ
تمام وعدے اور یقین دہانیاں وقت کی گرد کے نیچے دب جاتی ہیں۔اور عوام کے
حصے میں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
ایک طویل عرصے سے عوام مذکورہ صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔بے بس عوام ہر
نئے موڑ پر،اک نئے قاتل کے ہاتھوں نیا زخم کھا کر ،نئے ارمانوں کا خون
کرواتی ہے مگر آج تک ہی ستم ظریفی ماند نہیں پڑرہی۔قوم ہر بہروپییے کے نئے
روپ سے دھوکہ کھا کر اس کے قدموں میں اپنی چاہتیں ،محبتیں اور عقیدتیں
نچھاور کرتی رہی ہے۔ قوم کسی قائد اعظم ثانی کے انتظار میں تڑپ رہی ہے۔ اسی
لیے میں نے عرض کیا ہے کہ
منتظر ہے سر زمیں کسی گوہر نایاب کی
قائد اعظم ،سرسید ،بن قاسم و اقبال کی
مگر مدتیں بیت جانے کے باوجود کوئی ایسا مرد مومن ابھر کر ایوانوں تک رسائی
حاصل نہیں کر سکا۔جو قوم کے مفادات کا محافظ ہو،جس کے گفتار و کردار میں
یکسانیت پائی جاتی ہو، جس کا مقصد حصول اقتدار نہ ہو، بلکہ عوامی خدمت کا
موقع حاصل کرنا ہو۔جس کے دل میں عوام کا درد بسیرا کرتا ہو،جس کی نگاہیں
دارالحکومت کی چمکتی سڑکوں سے چکا چوند ہو کر غریب عوام کی اندھیری
جھونپڑیوں کو دیکھنے سے قاصر نہ ہوجائیں۔جو خود کو سیر ہو کر بھوک سے بلکتی
انسانیت کو فراموش نہ کر بیٹھے۔جو رقص و سرود کی مجالس میں کھو کر بے بس
انسانوں کی چیخوں اور سسکیوں کو بھلانہ دے۔ جو بسنت کی بہاروں کی رونق میں
مسرور ہو کر اجڑے گھرانوں کے دکھ فراموش نہ کر دے۔جو ایوانوں کی رونقوں میں
محو ہو کر شہر خموشاں کی ویران تنہائیوں سے بے بہرہ نہ ہو جائے۔ جو اپنی
ملی ثقافتی اقدار سے محبت کرنے والا ہو اور اپنے نظریہ حیات کو بھی ٹوٹ کر
چاہنے والا ہو۔ جو اپنی دینی اور قومی اقدار کا محافظ ہو ۔ جو عالمی حالات
پر گہری نظر بھی رکھتا ہواور عالمی سطح پر اپنے ملی اور مذہبی نظریات کے
تحفظ کی جنگ جراتمندی سے لڑنے کی سکت بھی رکھتا ہو اور جس کے کردار میں
قائد اعظم جیسی جرات دکھائی دیتی ہو ۔ جس کا مکا شہید ملت کی طرح صرف اور
صرف دشمن کے خلاف ہی فضاوں میں لہرائے۔
کئی دہائیوں پہ محیط ہماری تاریخ میں مذکورہ بالا دعوے اور بصیرت تو
انتہائی جوش اور تپاک سے سنائی دیتے رہے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں
ہو پایا۔گفتار اور کردار میں اسی فرق نے عوام کو مایوسیوں کی دلدل میں
دھکیل دیا ہے۔عوامی دلوں میں حب الوطنی کے جذبات شدید طور پر مجروح ہو چکے
ہیں۔ اسی نامیدی کی فضانے خود عوام کے اندر علاقائی تعصب کو جنم دیا ہے اسی
تعصب کی بنیاد پر بعض ملک دشمن عناصر اغیار کے ہاتھوں میں کھیل کر وطن عزیز
کے شرق و غرب میں شورش کی صورتحال پیدا کرنے کی منحوس سوچ اپنے دل و دماغ
میں بسانے کی جسارت کر نے لگے ہیں ۔ استعماری قوتیں ہمارے پیارے دیس کے
خلاف سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہو چکی ہیں مگر ہماری سیاسی قیادت کی
آپس کی چپقلش نے قوم کی توجہ ان خطرات کی طرف ہونے ہی نہیں دی ۔ یہی وجہ ہے
کہ ہم دشمن کی گھات سے بے خبر ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے خلاف صف آرا ہو
چکے ہیں ۔ اپنے دین سے دوری اور ملی اقدار سے بیگانگی کا رجحان بھی ایک
خطرے کی گھنٹی ہے۔
یقینا اب قوم کے لیے حب الوطنی کے نعرے یا اسلام پسندی کے دعوے کو ئی اہمیت
نہیں رکھتے کیو نکہ قوم کو لوٹنے والے ان سب بھیسوں میں آکر ملت سے اقتدار
کی بھیک مانگ چکے ہیں ۔مذہب پسندی کے نعروں سمیت معاشی، معاشرتی اور
نظریاتی حفاظت کے تمام مقدس نعروں کو حصول اقتدار کی جنگ میں بری طرح پامال
کیا جا چکا ہے اس لیے دوبارہ عوام کو اسی دھوکے میں رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔
دوسری طرف قحط الرجال کی صورتحال بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، تاہم کسی
بھی معاشرے میں اچھے اور مخلص لوگوں کی کمی نھیں ہوا کرتی ۔مسئلہ فقط ایسے
لوگوں کو سامنے لانے کا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ملک میں معقول حد تک
ایسے لوگ موجود ہیں جو خالص قومی خدمت کے جذبے سے سر شار ہو کر سامنے آتا
چاہتے ہیں یا آ سکتے ہیں مگر ان کی شرافت یا معاشی مسائل آڑے آ جاتے ہیں۔یا
پھر پارٹی بازی کا بندھن توڑنا مشکل نظر آ تا ہے۔
علاوہ ازیں ہم سیاست کو دین سے جدا سمجھ بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے بعض مخلص
دینی قوتیں بھی اپنے سیاسی کر دار کو معیوب تصور کرتی ہیں۔ اس طرح حقیقی
دیندار قیادت اپنی مذہبی ساکھ کو متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر سامنے نہیں
آتی۔ یہی وجوہات مخلص قیادت کے خلا کا باعث بنی ہے۔یہ حقائق ہماری قومی سوچ
کے فروغ کا تقاضا کرتے ہیں۔
اسی صورتحال میں ملک کے میڈیا سمیت باشعور لوگوں پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے
کہ وہ افرادملت کے قلوب و اذہان میں سیاسی شعور پیدا کریں ۔ تا کہ زیادہ سے
زیادہ مخلص اور محب وطن لوگ سیاسی میدان میں اتر کر مخلص قیادت کے فقدا ن
کو ختم کر سکیں تا کہ ملک کے جمہوری ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کرپٹ
لوگوں کو مسترد کر کے صالح قیادت کو منتخب کر سکے ،کیونکہ اب یہ پوری قوم
مشترکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھمائے
جو ملک کے خادم بننے کا جذبہ رکھتے ہوں اور جو اپنے قائدین کے نظریات اور
جذبات کے امین ہوں۔
وطن عزیز کو اکثر مفاد پرست لوگوں سے ہی پالا پڑا ہے مگر اب مزید امتحانوں
سے گزرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ قوم کے بہت سے ارمانوں کو ذبح کیا جا چکا
ہے۔کئی پاکیزہ سپنوں کے شفاف آبگینوں کو ریزہ ریزہ کیا جا چکا ہے۔ کئی ظلمت
کش امیدوں کے چراغ گل ہو چکے ہیں ، اب کی بار اس دھرتی کا گوشہ گوشہ وفاوں
کی تشنگی کا اظہار کر رہا ہے۔
اس تشنگی کو بجھانے کے لیے اب ہم میں سے ہی صاحب استطاعت ، باہمت اور محب
وطن لوگوں کو سامنے ا ٓ کر سماج دشمن اور اپنے نفس کے اسیر دھوکہ باز لوگوں
کا راستہ روکنا پڑے گا ۔
اب منتخب کنندگان عوام کو بھی بیدار مغزی کا مظاہرہ کر نا پڑے گا تاکہ اب
کی بار مفاد پرست لوگ ملک کے ایوانوں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔
آئیے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس پاک سر زمین کی صداوں پر غور
کریں جو ہر لمحہ ہمارے ضمائر کو جھنجھوڑ رہی ہیں ۔ جس کو ایسے لوگوں کا
انتظارہے۔ جو اپنی ذاتیات کی نفی کر کے اپنے دیس کے تحفظ کا فریضہ انجام دے
سکتے ہوں ۔ جو وفاﺅں کے تقدس سے آگاہ ہوں۔ مری اس پاک سر زمیں کی ایسی ہی
پکار کی گونج کسی شاعر ٓکے ان کلمات میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
ہستی کو محبت میں فنا کون کرے گا ؟
یہ فرض زمانے میں ادا کون کرے گا؟
ہاتھوں کی لکیروں کو ذرہ دیکھ نجومی
یہ دیکھ مرے ساتھ وفا کون کرے گا؟ |