فرق غزہ اور مصر میں امن و امان کی صورتِ حال کا

ڈاکٹر صلاح سلطان
ترجمہ: ابوالاعلی سید سبحانی

میں نے یکے بعد دیگرے قاہرہ اور غزہ کی دو راتیں دیکھیں، لیکن دونوں میں مشرق ومغرب کا فاصلہ محسوس کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ فاصلہ دراصل عوام کی منتخب کردہ حکومت اورعوام پر مسلط حکومت کے درمیان پایا جانے والا فاصلہ ہے۔

قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ 20 نومبر 2011ء کو میں قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر گیا، میں نے دیکھا کہ وہاں معمول کے مطابق لاوڈ اسپیکر کی آوازکے بجائے ایمبولینس گاڑیوں نے ہنگامہ برپا کررکھا ہے، تحریر اسکوائر میں تیزی سے فراٹے بھرتی ایمبولینس گاڑیاں ان مصری عوام کو حکومت کی جانب سے خوف دلارہی تھیں جو ابھی تک فوج کے قہر کا نشانہ نہیں بنے ہیں۔

میں جب وہاں موجیں مارتے انسانی مجمع میں داخل ہوا، تو وہاں لوگ کہہ رہے تھے کہ "یہاں نہ آؤ کہ اس جگہ کوئی مامون نہیں ہے۔۔ موت کا بازار گرم ہے۔۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخموں سے چور چور ہیں"، میں نے ان سے کہا: ایک شریف النفس انسان کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ جب اسے میدان کارزار سے آواز سنائی دیتی ہے تو اس آواز پر لبیک کہتا ہے، میرے لیے اسکوائر کے ہسپتال جاکر زخمیوں کی عیادت کرنا ضروری ہے۔ عربوں کا کہنا ہے کہ: سننے والا دیکھنے والے کے مثل نہیں ہوسکتا"۔ میں ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ ایمبولینس گاڑیاں نوجوانوں کو اٹھائے لارہی ہیں، ان کے خوبصورت چہرے پاکیزہ خون سے لت پت ہیں، ان کے جسم بھی بری طرح خون آلود ہیں، ایسا لگتا تھا کہ وہ صہیونیوں کے ساتھ معرکہ آرائی میں مشغول تھے۔ جب میں بوجھل قدموں سے ہسپتال کے اندرداخل ہوا تومیں نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے کراہنے اور چیخنے کی دردناک آوازیں سنیں، معلوم ہوا کہ فلاں کا دم گھٹا جارہا ہے، فلاں زہریلی گیسوں کے زخموں کے سبب تڑپ رہا ہے، مصر میں صرف آنسو گیسوں کا استعمال نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ طرح طرح کی خطرناک زہریلی گیسوں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک زخمی لڑکی مجھ سے کہہ رہی تھی کہ: "میں بھی فوج کے قہر کا نشانہ بن چکی ہوں، میرے جسم پر پندرہ خطرناک زخم موجود ہیں"۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں بدکار ہوتی، یا چوری اور راتوں کے کاروبار میں مصروف رہنے والی ہوتی تو یہ مجھے ذرا بھی ہاتھ نہ لگاتے، مجھے صہیونی نہیں،مصری فوجیوں نے اپنے قہر کا نشانہ بنایا ہے، وہ اس قدر زخموں سے چور تھی کہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکی!!

میں نے نوجوانوں کو دیکھا کہ ان کی گردنوں میں، ان کے سینوں میں اور ان کی رانوں میں کئی کئی گولیاں لگی ہیں، اور ڈاکٹروں کی ایک تعداد جن کو میں تحریر اسکوائر کے فرشتے کہوں گا، وہ بہت ہی ہمت اور حوصلہ کے ساتھ ان زخمیوں کے علاج میں لگے ہوئے ہیں، وہ یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمام ہی زخمیوں کو بچالیا جائے۔ تحریر اسکوائر پر"موقعة الجمل" کو نہیں بھلایا جاسکتا، ﴿حسنی مبارک کی معزولی کے لئے جاری احتجاج کے دوران حکومتی غنڈوں نے2 فروری 2011 کو احتجاجیوں پر اچانک اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر حملہ کیا تھا ۔ مترجم﴾، پر 20 نومبر کی سنگینی نے اُسے بھی پیچھے چھوڑ دیا، جس کے نتیجہ میں کم از کم چالیس لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، اوردوہزار زخمی ہوئے، ان زخمیوں میں سے بھی بعض اپنے بے شمار گہرے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ رہے ہیں۔ تحریر اسکوائر پر عجیب وغریب افراتفری کا ماحول تھا، ہر جانب آہ وبکا، چہروں پر خاموشی، دل خوفزدہ ، تمام لوگ حیران تھے، ان کے سامنے ایک اہم سوال تھا۔ یہ سب خون خرابہ کس مصلحت کے تحت کیا جارہا ہے؟کون ہے اس کے پیچھے؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا ہم پھر پچھلے دور کی جانب پلٹ رہے ہیں، جہاں "حسنی" کی جگہ "حسین" نے لے رکھی ہے؟!

میں وہاں لوگوں کو حوصلہ دے رہا تھا، میں نے ان سے کہا کہ کوئی ذاتی فیصلہ کے تحت میدان نہیں چھوڑے گا، اور نہ ہی حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے، اس واقعہ کے ان تمام ہی ملزموں کا محاکمہ ضروری ہے، جنہوں نے ہتھیار کا استعمال کیا، یا امن پسند عوام کے گوشت نوچنے کے لیے انسانی بھیڑئیے چھوڑدئیے۔

صبح میں قاہرہ سے واپس ہورہا تھا،تو رب سے دعائیں کررہا تھا کہ اے رب! ہمارے مصر کو داخلی اور خارجی تمام سازشوں سے محفوظ رکھ۔ باوجود اس کے کہ میں تھک کر چور ہوچکا تھا، نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ لگاتار زخمیوں کی آہ وفغاں میرے دماغ میں گونج رہی تھی۔ ان تمام نوجوانوں کی تصویریں میری آنکھوں میں گھوم رہی تھیں جو گولی یا گیس کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے تھے۔ فجر کی اذان کی آواز کانوں میں آئی تو امیدیں جاگ اٹھیں کہ مصر اللہ کے حفظ وامان میں ہے اور اللہ اس کو دشمنون کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ اب میں اپنے اگلے وطن فلسطین کے لیے رخت سفر باندھ چکا تھا، اس غزہ کے لیے جو عزت اور سربلندی کی ایک علامت بن گیا ہے۔ رابطہ علماءاہل السنة کی جانب سے ہم لوگوں نے غزہ کی حصار بندی کو توڑنے کے لیے مہم پر نکلے یورپی قافلہ کو ملاقات کے لیے وقت دے رکھا تھا، اس یورپی قافلہ میں یورپ، جنوبی امریکہ، پاکستان، لیبیا، تیونس اور مغرب وغیرہ چالیس ممالک سے ممبران پارلیمنٹ اورسوشل ورکرس موجود تھے۔

فجر بعد ہم قاہرہ سے نکلے، غزہ پہنچنے پر وہاں کے لوگوں سے مصافحہ اور معانقہ کرنے سے پہلے وہاں کی سرزمین پر رب کائنات کے حضور سجدہ میں گرپڑے۔ یہاں میں نے دیکھا کہ مصری فوج کے برخلاف غزہ کی فوج کی آنکھوں سے محبت ٹپک رہی تھی، جبکہ مصری فوج آگ بگولا نظر آتی تھی۔ غزہ میں دیکھا کہ ہر طرف نورانیت ہی نورانیت ہے، جبکہ مصر میں دیکھا تھا کہ آتشیں ہتھیار استعمال کیے جارہے تھے، جو جسموں کو جلاکر خاکستر کردیتے ہیں۔

غزہ آکر دیکھا کہ لوگ امن وامان کے ساتھ ہیں، جبکہ محض پندرہ گھنٹے قبل میں نے خوف اورخطرات سے بھرا ماحول دیکھا تھا۔ مصر میں دیکھا تھا کہ نوجوان حیران وپریشان ہیں، جبکہ غزہ کے اندر داخل ہوا تو وہاں علماءکرام سے ملاقاتیں ہوئیں، اساتذہ، خطباءاور مبلغین سے گفتگو ہوئی، وہ سب محبت اور دلنوازی کا پیکر تھے،ایسالگتا تھا کہ کندھوں پر بٹھا لیں گے۔ جبکہ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ تحریر اسکوائر پر زہریلی گیسوں سے میرا دم گھٹا جارہا تھا، میں ان تمام امور کا مشاہدہ کرتا رہا، میرے لیے بہت ہی سعادت کی بات تھی کہ میں اس عظیم قائد اور مثالی رہنما سے ملوں جو انتخابات کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برطرف حکومت کا وزیرِ اعظم ہے۔ وہ ہمارے قائد "اسماعیل ہانیہ" ہیں، بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ جو عوامی انتخابات کے ذریعہ آتا ہے اسے برطرف کر دیا جاتا ہے اور جو عوام پرمسلط ہوجاتا ہے، خلق خدا پر اس کے تسلط کا اعتراف کرلیا جاتا ہے۔

اسماعیل ہانیہ سے ملاقات کے بعد ان کی مسکراہٹ، نورانیت، گرمجوشی، اور ان کی گہری نیز پراعتماد گفتگو سن کر غزہ میں موجود امن وامان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسماعیل ہانیہ ہمیں ساتھ لے کر اپنی گاڑی سے غزہ کے گشت پر نکلے، وہ خود گاڑی چلا رہے تھے، اوربہت ہی اعتماد کے ساتھ کہے جارہے تھے کہ بھائی صلاح سلطان، مکمل امن وامان۔۔ رات ودن تم بالکل اطمینان کے ساتھ جہاں چاہو، وہاں جاؤ جرائم کا تناسب بہت ہی معمولی ہے، بلکہ شاذونادر ہی کوئی واقعہ سننے کو ملتا ہے۔ میں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا : "یہی اصل فرق ہے عوام کی منتخب کردہ حکومت اور عوام پر مسلط حکومت کے درمیان۔ وہاں سے نکلتے وقت میں نے کہا: آہ،غزہ اور مصر کے درمیان کتنی رکاوٹیں اور دیواریں حائل ہیں، جومصر واپسی پر مجھ سے یہ امن وامان چھین لے گا۔ فرمان الہی ہے: جولوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے نہیں وابستہ کیا تو وہی ہدایت پانے والے ہیں۔ (الانعام؛ 82)
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 32135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.