نیٹو ہیلی کاپٹروں کاپاک فوج پر
وحشیانہ حملہ اور 24 فوجیوں کی ہلاکت ایک بڑا سانحہ ہے جس نے اعلٰی حلقوں
کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق پاک فوج پر حملہ
امریکی ہیلی کاپٹر سے کیا گیا ۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے لیکن اس سے بھی اہم
اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاک فوج پر یہ حملہ کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ کیا
تھی؟ اور اس حملہ سے کیا مقاصد حاصل کیے گئے؟ یہ وہ سوال ہیں جن پر ہمارے
بڑے تجزیہ نگار اور صحافی فی الحال خاموش نظر آتے ہیں ۔ میں نے تجزیہ نگار
اور صحافیوں کی بات اس لیے کی ہے کہ اگر اس حملے سے کسی قسم کا فائدہ حاصل
کیا گیا ہے تو پھر اعلٰی قیادت خاموش ہی رہے گی ۔ بظاہر اس حملے کے بعد سخت
ایکشن لیا گیا اور نیٹو کی سپلائی فوری بند کر دی گئی امریکی سفیر کو دفتر
خارجہ بلایا گیا اور سخت احتجاج بھی کیا گیا لیکن یہ تو وہ باتیں ہیں جو اس
قسم کے حملے کے بعد ہونی ہی تھیں اور اگر یہ حملہ باقاعدہ منصوبہ تھا تو
پھر ان باتوں پر بھی پہلے ہی غور کر لیا گیا ہو گا ۔امریکہ یا نیٹو بغیر
کسی وجہ کے اتنی بڑی غلطی نہیں کر سکتے اور نہ ہی پاکستان کے 24 فوجی شہید
کر کے انہیں کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے پاکستان چند دنوں میں سو نئے فوجی
بھرتی کر سکتا ہے کیونکہ نہ تو پاکستان کے نوجوانوں کے اندرپاک فوج میں
شامل ہونے کا جذبہ کم ہوا ہے اور نہ ہی پاک فوج کو کبھی جوانوں کی کمی
محسوس ہوئی ہے بلکہ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ ہر سال پاک فوج میں بھرتی
ہونےکی خواہش رکھنے والے ہزاروں نوجوانوں کومنہ لٹکائے واپس گھر آنا پڑتا
ہے ۔ لہذا اس حملے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ پاک فوج کے چند جوانوں
کوشہید کرنا ہے بلکہ اس کے پس منظر میں کوئی اور بات چھپی ہے ۔ امریکہ اچھی
طرح جانتا ہے کہ نیٹو کی سپلائی چند روز میں بحال کر دی جائے گی اس کے
علاوہ جو ردعمل سامنے آیا وہ بھی ختم ہو جائے گا ۔اگر اس حملے کا کوئی براہ
راست فائدہ حکومت یا کسی اور اہم شخصیت کو پہنچا ہے تو پھر عین ممکن ہے کے
اس حملے کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہو لیکن یہ بات صا ف ظاہر ہے کہ اس
قسم کی اجازت یا منصوبہ ”ان ڈور “ ہو گا ۔ یہ سب امکانی باتیں ہیں لیکن میں
ایک مرتبہ پھر یہی کہوں گا کہ یہ حملہ بلا جواز نہیں ہو سکتا اور امریکہ
اپنے مفادات پر اپنے ہاتھوں ضرب نہیں لگا سکتا ۔دوسری طرف یہ بات بھی واضح
ہو چکی ہے کہ یہ حادثہ محض ایک غلطی نہیں تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر اس
حادثہ کے بعد ایسا کیا ہوا جس کا براہ راست فائدہ اٹھایا گیا ہو ، اس وقت
جو سب سے پہلی بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ میڈیا اور عوام کی توجہ اس حادثے
کے بعد ”میمو سازش“ سے ہٹ گئی اور وہ تمام سرخیاں اور اخبارات جو ایک دن
پہلے تک ” میمو سازش“ سے بھرے ہوئے تھے اب ان کی جگہ اس نیٹو حملے نے لے لی
ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد پھر میمو سازش پر بات ہو گی لیکن مجھے
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تب تک ہمارے میڈیا کے لیے میمو سازش ایک پرانی
خبر بن چکی ہو گی ۔ اس کا براہ راست فائدہ کسے پہنچے گا یہ بتانے کی ضرورت
نہیں ہے ۔ آپ پرانے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ”پرانی خبر“ کبھی بھی دوبارہ
پہلے جتنی شدت سے موضوع بحث نہیں بن سکی۔ اگر آپ واقعی پرانے اخبارات
دیکھنے بیٹھ گئے توآپ پر یہ انکشاف بھی ہو گا کہ ہر مرتبہ کسی اہم خبر کو
اسی طرح دبایا جاتا رہا ہے ۔ اگر آپ ان خبروں پر تھورا سا اور دھیان دیں گے
تو آ پ پر یہ انکشاف بھی ہو سکتا ہے کہ جن خبروں کو دبانے کے لیے کوئی اہم
اور بڑا ایشو سامنے لایا گیا وہ تمام خبریں ایسی تھیں جن سے حکومت کے خلاف
شدید ردعمل سامنے آ سکتا تھا ۔ اگر ان کو مکمل کہانی کی صورت دیکھیں تو ایک
”فارمولا کہانی“ بھی آپ کے سامنے آ سکتی ہے ۔ وہی فارمولا کہانی جس میں ہر
ایشو کے بعد چند تند و تیز بیانات سامنے آتے ہیں پھر ایک دم کوئی ایسا
سانحہ ہوتا ہے جو ” عوامی ترجمانوں “ کے بیانات کا رخ تبدیل کر دیتا ہے
اور”پرانی خبر “ فائلوں میں بند ہو جاتی ہے ۔ جناب وزیر آعظم یوسف رضا
گیلانی نے نیٹو کے حملے سے ایک دن قبل کہا تھا کہ میمو سکینڈل سے حکومت کو
کوئی خطرہ نہیں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دن مائیک مولن کے ترجمان نے
بتایا تھا کہ پاکستان نے میمو تحقیقات میں تعاون کی درخواست نہیں کی۔
بہرحال پاکستان ایک مرتبہ پھر اپنے 24 جوانوں کی قربانی دے چکا ہے ۔ یہ وہی
جوان ہیں جن کی ماﺅں نے انہیں قربان ہونے کے لیے بھیجا تھا ، ان کی جگہ
لینے والوں کو بھی ان کی مائیں قربان ہونے ہی بھیجیں گی ۔جوان قربان ہونے
ہی آتے ہیں لیکن پھر بھی یہ سوچنا ضروری ہے کہ ان جوانوں کی قربانی کا
فائدہ کس نے اٹھایا؟؟ |