’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ مقامی
طور پر ہندو مسلم اتحاد کو زک پہنچانے کیلئے ایک زرین اصول تھا جسے انگریز
اپنے مقصد کیلئے استعمال کر تا رہا تھاحتٰی کہ پاکستان بن گیا لیکن
تفریق‘پھوٹ یا تقسیم خواہ علامتی ہو یا حقیقی‘ یہ ہمیشہ ایک المناک اور
افسوسناک عمل ہی ہوتا ہے۔ تقسیم چاہے خاندان کی ہو یا پھر قوم کی ہو
‘معاشرہ اسے آسانی سے قبول نہیں کرتالیکن ریاستوں میں تقسیم کی دیوار کھڑی
کر کے نئی ریاست بنانے کا مطالبہ کرنے کی لہر سی چل پڑی ہے۔ تقسیم کی ان
بڑھتی ہوئی علاقائی خواہشات کا تعلق بنیادی طور پر تفریق پر مبنی سیاست سے
ہے۔ تفریق چاہے لسانی ہو یا علاقائی بنیاد پر‘ ایک علیحدہ ریاست کی
تمناتفریق کے بڑھتے ہوئے رجحان سے بھی وابستہ ہے۔ حالانکہ تفریق کے اس
ابھرتے ہوئے وبال کے پیچھے ان علاقوں میں ترقی کا فقدان یا مسلسل پسماندگی
کی صورت حال کارفرما رہی ہے۔ ریاست کی ترقی میں آیاہواعدم توازن ان حالات
میں تفریق کو مزیدہوا دیتا ہے۔ یہاں ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ آج
ریاست کی تقسیم کو مذکورہ علاقے کی ترقی کا ذریعہ اور ادھورے رہ گئے خوابوں
سے وابستہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اتر پردیش میں ریاستی تقسیم کی بات کبھی زمین سے اٹھی آوازیا عوام الناس کا
مطالبہ نہیں رہا ہے جس طرح وہ اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ میں رہایا پھر آج
تلنگانہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اتر پردیش میں اس مطالبے کی قیادت ان
علاقوں کے مقامی لوگوں ، بڑے کسان ، دانشور اور ان علاقوں میں مختلف متحرک
پارٹیوں کا لیڈرطبقہ کرتا رہا ہے۔ اس مطالبے کی اصلیت ان طبقوں کو اقتدار
دلوانا ہے جودولت ، طاقت اور اثرورسوخ میں حصہ داری کا خواب دیکھ رہے ہیں
یعنی اقتدار کی مختلف سطح قائم کرکے ان بلندیوں کے ذریعے طاقتور فورم یعنی
دولت ، طاقت اور اثرکو حاصل کرنے کے فراق میں سرگرداں رہے ہیں۔
لیکن ریاستی اقتدار جب کسی مطالبہ کے حق میں آ جاتا ہے تو بادل نخواستہ اسے
تائیداور حمایت مل ہی جاتی ہے اور ایسے مطالبہ کو بتدریج عوام الناس کا
مطالبہ بننے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ اس طرح وقت گذرنے کیساتھ ساتھ عوامی
تحریک میں تبدیل ہو جانے کے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ پھریہ وائرس اوپر سے
چل کر نیچے تک پھیل جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ اگر وہ وقت انتخابات کا ہو تو
پھر کیا کہنے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی مشتہری مشینری ، میڈیا اور تشہیر
ٹیکنالوجی اسے زمین تک پہنچا ہی دی گی۔
آزادی کی لڑائی کے وقت سے ہی اتر پردیش اپنے مرکزی قومی کردار کی وجہ سے
علاقائی سے زیادہ قومیت کی علامت تصور کیا جاتا رہا ہے۔ یہی ایک ایسی ریاست
ہے جہاں مراٹھی ، بنگالی ، پنجابی اور آج کی زبان میں بہاری جیسی کوئی
تفریق نہیں تیار ہوئی۔ اس نے اپنی تفریق کی چاہت ہمیشہ قومی تفریق سے
وابستہ ہو کر پوری کی ہے۔ اب ایک نئی صورت حال یہ پیدا ہو گئی ہے کہ اسی
اتر پردیش کو خود اتر پردیش ہی کئی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز کر رہا
ہے۔اس تحریک کے پس پشت وہ ’سیاست‘ بھی کار فرماہے جو کئی طرح کی تازہ تفریق
سے بھری پڑی ہے اور جسے میڈیا سوشل انجینئرنگ کی خوبصورت اصطلاح سے پکارتا
ہے۔ کچھ بھی ہو لیکن یہ جن اب بوتل سے باہرنکل ہی نہیں آیا ہے بلکہ سر پہ
چڑھ کر بول رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی جیسے وی پی سنگھ کے ذریعہ منڈل کمیشن کے
اعلان کے بعد ہوا تھا۔ اس فیصلے نے سیاسی جماعتوں کوشکوک میںمبتلا تو کر ہی
دیا ہے۔ اب تمام سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر اپنا موقف تلاش کرنا ہی نہیں
پڑے گا بلکہ ببانگ دہل بتانا بھی پڑے گا جس سے 2قسم کے طبقے بنتے چلے جائیں
گے۔ریاست کی تقسیم نہ چاہنے والے تو سماج وادی پارٹی کے حق میںسمجھے جائیں
گے کیونکہ سماج وادی پارٹی نے شروع سے ہی اس کے خلاف اپنا موقف رکھا ہے۔
کشمکش کی حالت سے توکانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں
دوچار ہیں جو ایک طرف تو ریاست کی تقسیم کی باتیں کرتی رہی ہیں لیکن دوسری
طرف اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے سے بھی گریز کرتی رہی ہیں۔ ریاست کی تقسیم
کے تازہ ’کارڈ‘ نے اتر پردیش کی وزیر اعلٰی کماری مایاوتی کو سیاست کے کھیل
میں تمام سیاسی قائدین سے ایک قدم آگے کھڑا کر دیا ہے۔
ابھی یہ توکہنا مشکل ہے کہ اتر پردیش کی تقسیم کب ہوگی کیونکہ اس کیلئے ایک
پوری آئینی سفرہے جس سے اسے بہرکیف گزرناہی ہوگا۔ یاد کیجئے کہ اتراکھنڈ کے
بارے میں اتر پردیش اسمبلی میں کئی مرتبہ قراردادیں منظور ہوئیں لیکن پھر
بھی اسے بننے میں کئی دہائیاں لگ گئی تھیں۔ پھر تقسیم کا یہ سوال اتر پردیش
سے زیادہ کسی بھی طرح مرکزی حکومت کا سردرد ہی بنے گا کیونکہ اس کے سامنے
پہلے سے ہی آندھر پردیش سے الگ تلنگانہ جیسے کئی حل طلب سوال الجھے اور
گتھے ہوئے کھڑے ہیں۔
اتر پردیش کی تقسیم کے اس مسئلے کا انتخابی فائدہ کسی بھی سیاسی جماعت کو
اسی صورت میں ہوگا جب یہ امید راجہ بدیلا ، امر سنگھ اور اجیت سنگھ کی
خواہشات کی قید سے آزادہو کر عوام کی امید میں تبدیل ہو جائے۔ ہو سکتا ہے
کہ آئندہ انتخابات کی سیاست ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے‘فی الحال تو
ایسا نظر نہیں آتا جبکہ تجربہ بتاتا ہے کہ ملک میں گزشتہ دنوں جو چھوٹی
ریاست بنی ہیں ‘ وہ کامیاب بھی رہی ہیں اور ناکام بھی۔ ایک طرف اترا کھنڈ
ہے جو مسلسل اس نئی صورت حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو دوسری طرف جھارکھنڈ
ہے جو مسلسل سیاسی اور انتظامی بدعنوانی اور پسماندگی کے راستے پر چل رہا
ہے۔یہ خیال ہی غلط ہے کہ چھوٹی ریاست بننے سے ترقی ہوتی ہے جبکہ بڑی ریاست
میں ترقی نہیں ہوتی ہے۔ بہار سے الگ ہونے کے بعد آج جھارکھنڈ اور بھی قابل
رحم حالت ہے۔ چھوٹی ریاست بننے پر ہی جھارکھنڈ میں ایک وزیر اعلٰی کروڑوں
روپے کا گھپلا کر گیا۔ وہاں غربت میں اضافہ ہوا ہے ، بے روزگاری بڑھی ہے ،
بجلی کا ایک بھی نیا پلانٹ نہیں لگا۔ آزادی کے وقت ملک کی جتنی آبادی تھی ،
آج اس سے زیادہ غریبوں کی تعداد ہے۔ فی کس آمدنی عام لوگوں کی نہیں بلکہ
صنعتی گھرانوں کی آمدنی بڑھنے سے بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ایسے میں اگر
پشچمانچل ، پوروانچل ، اودھ پردیش ، بندےل کھنڈنئی ریاستیں بن بھی جاتی ہیں
تو یہ کتنی کامیاب ہوسکیں گی‘ ابھی یہ کہنا مشکل ہے۔ ان چاروں علاقوں کی
اپنی طاقت ہے اور اپنی کمزوریاںبھی ہیں۔ کہیں کسی ریاست میں زراعت اچھی ہے
تو کہیں معدنی املاک کا ذخیرہ ہے‘ کہیں سیاحت کی صنعت میں مزید امکانات
روشن ہوئے ہیں تو کہیں ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کہیں تعلیم کے لئے بنیادی
ڈھانچہ بہتر ہے تو کہیں خراب۔ اب تک یہ چاروں مل کر اپنی کمزوریوں اور
قوتوں کو متوازن کرتے تھے لیکن تقسیم کے بعد یہ تمام الگ الگ طور پر اپنی
خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ گزر بسر کرنے کے لئے مجبور ہوں گے۔ مالی طور پر
بھی یہ کتنے خودکفیل ہو سکیں گے ، نئے ریاست میں بڑھتے ہوئے انتظامی
اخراجات اور ترقی میں کتنا خود کفیل ہو سکے گا ‘اس کے بارے میں بھی کچھ کہا
نہیں جا سکتا۔حالانکہ چھوٹی ریاستیں انتظامی نقطہ نظر سے قابو کرنے میں
آسان مانی جاتی ہیں۔ ان چاروں مجوزہ ریاستوں کی جغرافیائی ، سماجی اور
ثقافتی حالات ایک ہونے کی وجہ سے ان کے ترقی کی پالیسی بنانے میں سہولت
ہوگی اور یہ اپنی خوبیوں کو ٹھیک سے تشہیر کرکے سرمایہ کاری بھی اپنی طرف
متوجہ کر سکتی ہیں لیکن ان سب کے لئے ضروری ہے کہ ایک بے غرض اور ترقی کے
لئے پر عزم سیاسی قوت ارادی ہو لیکن ان کی عدم موجودگی یا فقدان تشویش کی
چیز ہے۔دوسری افسوسناک بات یہ ہے کہ مجوزہ ریاست اپنے وجود میں آنے کے بعد
جن سیاسی عناصر کی قیادت میں رہیں گی ‘یہ وہی عناصر ہیں جو آج بھی اس کی
حمایت یا مخالفت میں رہ کر اترپردیش کا نظم و نسق چلا رہے ہیں۔ ایسے میں
خدشات کے کانٹوں سے بھری اور امکانات کی پھلجھڑیوں کے درمیان یہ ڈگر دیکھئے
کہاں لے کر جاتی ہے!
اتر پردیش کو4 ریاستوں میں تقسیم کرنے والی تجویز پر لوک سبھا میں سی پی
ایم کے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر باسودیو آچاریہ کی مانیں تومایاوتی کا یہ
قدم انتخابی سیاست کا حصہ ہے۔ اگر وہ اس ایشو پرمتشدد تھیں تو ساڑھے چار
سال تک خاموش کیوں رہیں؟ انہوں نے اس سنگین مسئلے پر کبھی بات تک نہیں
کروائی ، کوئی مطالعہ بھی نہیں کروایا۔ یہاں تک کہ انہوں نے کبھی سنجیدہ
بیان بھی نہیں دیا۔ اب اسمبلی انتخابات سامنے ہے تو اچانک ہی کابینہ سے اتر
پردیش کی تقسیم کی تجویز کومنظور کروا دیا‘ یہ صرف سیاسی فائدے کے لئے ہے۔
اس سے اتر پردیش اور ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ قدم درست نہیں ہے۔ سی
پی ایم میں اگرچہ ابھی اتر پردیش کی تقسیم کے مسئلے پر بات نہیں ہوئی ہے
لیکن سی پی ایم چھوٹے صوبوں کی تشکیل کے حق میں نہیں ہیں۔اتر پردیش کو
چھوٹے ریاستوں میں بانٹ دینے سے پورے ملک میں یہ مطالبہ اٹھے گی۔ چھوٹے
صوبوں کا مطالبہ اتنی زیادہ ہونے لگے گی کہ پھر اس کا کوئی اختتام نہیں
ہوگا۔ ہمیں پھر ہر ریاست کو توڑنا پڑے گا۔ پھر چھوٹے ریاست ترقی کی ضمانت
بھی نہیں ہیں۔ اگر نئی ریاست بنانی ہی ہیں تو اس کے لئے ریاست دوبارہ تشکیل
دئے جانے کیلئے کمیشن قائم کیا جانا چاہئے۔ آزادی کے بعد ایسا کیا گیا تھا۔
یہ کسی بھی حالت میں نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی لیڈر اپنے سیاسی فائدے کے
لئے اس طرح کی تجویز منظور کرا دے۔اس تقسیم سے مرکز میں یوپی کی دھمک ختم
ہو جائے گی۔ ابھی تک یہی کہا جاتا ہے کہ مرکز میں راج کرنا ہے تو اتر پردیش
میں راج حاصل کرنا ہوگا لیکن چھوٹی سی ریاست بن جانے سے اس کا یہ رتبہ ختم
ہو جائے گا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش یا آندھرا پردیش سب سے بڑی ریاستیں ہو
جائیں گی۔جب کہ ہماچل پردیش ، ہریانہ اور پنجاب نے تقسیم کے بعد ہی ترقی
کی۔ آج اتراکھنڈ بھی ہر معاملے میں اتر پردیش سے بہت آگے نکل گیا ہے۔مرکزی
حکومت بھی اپنے سیاسی فائدے کو دیکھ کر ہی کام کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کی اس
معاملے میں کوئی طویل المدتی پالیسی بھی نہیں ہے ، وہ فوری پالیسی پر ہی
چلتی ہے۔ |