گزشتہ دنوں ن لیگ کے صدر میاں
نواز شریف بہاول پور گئے تو حسب ِروایت ان سے بہاولپور صوبہ بحالی کا سوال
بھی کیا گیاکیونکہ جو سیاست دان بھی بہاول پور کا رخ کرتا ہے اسے اس سوال
کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ میاں نوازشریف سے پوچھے جانے والے اس سوال کی
اہمیت اس لئے بھی زیادہ تھی کہ جنوبی پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن کے
علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے بہاول پور صوبہ کی بحالی کی حمایت کا اعلان
کررکھا ہے۔مسلم لیگ کے رہنما(قومی ہوں یا مقامی)بحالی صوبہ کے معاملے میں
خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے تھے، ان کی اس پر اسرار خاموشی کا فائدہ دیگر
جماعتوں نے خوب اٹھایا، اور صوبہ بحالی کی حمایت کرکے عوامی حمایت حاصل
کرنے کی کوشش کی ۔
جنوبی پنجاب میں اس وقت سب سے اہم اور ہارٹ ایشو صوبوں کے قیا م کا ہے ،
وفاقی حکومت اس ضمن میں جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان کرچکی
ہے ، کبھی وہ اس کا نام صوبہ جنوبی پنجاب رکھ دیتے ہیں اور کبھی سرائیکی
صوبہ کی حمایت کا بیان جاری ہوجاتا ہے، دوسری طرف بہاول پور والے اپنے صوبے
کے قیام کی نہیں بلکہ بحالی کی بات کرتے ہیں، دونوں ”صوبوں“ کے حامی ایک
دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں، غداری کا سرٹیفیکیٹ نہایت ارزاں
قیمت پر دستیاب ہے ، بلکہ اکثر اوقات مخالفین کو یہ مفت اور طلب کئے بغیر
ہی فراہم کردیا جاتا ہے ۔ جب سے وزیراعظم نے اپنی مقامی سیاست سے ذاتی مفاد
حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اس وقت سے صوبے کی سیاست نے زور پکڑلیا ہے۔
میاں نواز شریف نے صوبہ بحالی کی عجیب طریقے سے حمایت کی ، انہوں نے کہا کہ
”ہم بہاول پور ریاست کو بحال کریں گے،اور اس میں وزیر اعلیٰ بھی ہمارا ہوگا
“ ان کے اس بیان پر تبصرہ بازی جاری ہے، کچھ نشانہ بازی اور کسی حد تک تیر
اندازی بھی ہورہی ہے۔ ریاست کی بحالی کی نہ جانے ان کے ذہن میں کیا ترکیب
ہے، یا انہوں نے اس سلسلہ میں کیا منصوبہ بندی کررکھی ہے ، لیکن ہمارا خیال
یہ ہے کہ یہ بیان میاں صاحب نے طنزاًً دیا ہے، ورنہ ریاستوں کی بحالی کا یہ
کونسا زمانہ ہے، اب تو دنیا میں رہی سہی ریاستوں کے وجود بھی خطرے میں ہیں،
پاکستان میں قبل تقسیم سے پائی جانے والی ریاستوں کے والیوں نے انہیں بخوشی
پاکستا ن میں شامل کردیا تھا، اب نہ ان کی بحالی کا کسی کا مطالبہ ہے اور
نہ ہی اس کے کوئی امکانات ہیں۔
میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ بحال ہونے والی ریاست میں وزیر اعلیٰ
ہمارا ہی ہوگا، اے بندہ خدا! اگر ریاست بحال ہوگی تو وہاں جمہوریت کا کیا
کام ؟ وہاں تو وہی والیانِ ریاست واپس آئیں گے جن کی وہ ملکیت تھی، وہاں تو
نواب ہونگے ، عوام رعایا ہونگے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اب بدلے ہوئے زمانے کے
مطابق میاں صاحبان میں سے ہی کوئی ”نواب “ قرار پا جائے ، ریاست اور نوابی
کی کسی حد تک ریہرسل انہوں نے اپنی نئی اور خود ساختہ ریاست ’جاتی عمرا‘میں
کرلی ہے، اب وہ چاہیں تو بہاول پور ریاست بحال کرکے یہاں نوابی کا شوق پورا
فرمالیں، یہاں محلات ہیں، جوفی الحا ل تو پاک فوج کے مصرف میں ہیں ، چلیں
اس بہانے یہ محلات بھی واگزار ہوجائیں گے۔
مسلم لیگ ن کو جنوبی پنجاب میں صوبوں کی سیاست میں اس لئے کودنا پڑا کہ بات
ان کے ہاتھ سے نکلتی جارہی تھی، مگر ان کا یہ بیان کہ ریاست بہاول پور بحال
کریں گے ، کسی زہریلے مذاق سے کم نہیں، ریاستوں کے قیام اور بادشاہتوں کے
شوق رکھنے والے میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ بادشاہتوں کے انجام کو مد
نظر رکھیں، خود بہاول پور میں یہاں کے اعزازی نواب صلاح الدین عباسی اپنی
تمام تر مقبولیت اور احترام کے باوجود سابقہ دور میں دونوں دفعہ ناظم ضلع
کا الیکشن ہار گئے تھے ۔ بہر حال اگلے الیکشن میں کوئی پوزیشن حاصل کرنے کے
لئے ضروری ہے کہ میاں صاحب بہاول پور صوبہ کی بحالی کی حمایت کریں ورنہ وہ
یہاں سے عوامی حمایت کھو بیٹھیں گے۔ |