پاکستان کے اہم مسائل اور ان کا حل

اس وقت اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی تعداد 193ہے جس میں سے پاکستان بھی ایک ہے۔ پاکستان 14اگست 1947ءکو دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا۔آزادی کے 64سالوں میں بھی یہ ملک حقیقی معنوں میں آزادنہ ہو سکا اور آج اکیسویں صدی میں بھی بے شمار مسائل میں گھرا ہو اہے جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)کرپشن:
کرپشن اس وقت ملک کےلئے ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے خصوصاً سیاستدان اس میں زیادہ ملوث ہیں۔ اس وقت غیر قانونی طور پر 500ارب ڈالر (تقریباً 43000ارب روپے پاکستانی) کے اثاثہ جات مختلف غیر ملکی بنکوں مثلا سوئس بنکوں ، امریکہ ، برطانیہ ، ملائیشیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، سپین، اور متحدہ عرب امارات میں پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ2010 ءکے مطابق سالانہ تقریباً1000ارب روپے کی کرپشن پاکستان میں ہوتی ہے۔ اور پچھلے تین سالوں میں 3000 ار ب روپے کرپشن کی جاچکی ہے ۔ ملک میں تقریباً ہر معاملے میں کرپشن کا سہارا لیا جاتا ہے۔

مسئلہ کا حل:
اس وقت دنیا میں ورلڈ بنک، یواین ا سٹار اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سمیت30ادارے( اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت ) سوئس اور غیر ملکی بنکوں سے غیر قانونی رقوم کی واپسی کےلئے کام کر رہے ہیں۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ 500ارب ڈالرکی رقم ملک میں واپس لائے تاکہ ملک میں خوشحالی کا دور شروع ہو سکے۔اس مقصد کےلئے احتساب بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے جس طرح بھارت میں اناہزارے کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔ان پیسوں کی مدد سے پاکستان کے ذمے 60ارب ڈالر کا غیرملکی قرضہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔

(2)ٹیکس چوری:
ٹیکس نظام کو کسی ملک کےلئے پیسہ پیدا کرنے کا نظام(Revenue Generation System)کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جدید معیشت میں سرمایہ کے بغیر کوئی معاشی سرگرمی ممکن نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں 180ملین افراد میں سے صرف3ملین افراد (30لاکھ)کا نیشنل ٹیکس نمبر(NTN) بنا ہوا ہے اور اس میں سے بھی صرف 2.5ملین (25 لاکھ) افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ مالی سال 2010-11ءمیں ملک میں ٹیکس چوری تقریباً1900ارب روپے کی حد کو پہنچ گئی ہے۔

مسئلہ کا حل:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR)،سٹیٹ بنک آف پاکستان (SBP)اور حکومت پاکستان کو ایک جامع ٹیکس پالیسی بنانی چاہیئے۔ اور بلا واسطہ ٹیکسز (Direct Taxes) زیادہ لگانے چاہئیں۔اس وقت پاکستان میں تقریباً 70%ٹیکس ریونیو بالواسطہ ٹیکسز (Indirect Taxes)کے ذریعے وصول کیا جارہا ہے۔جس سے ملک میں افراط زر کی شرح بڑھ رہی ہے۔

(3)دہشت گردی:
دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی ملک ہے۔ دس سالوں میں اسے تقریباً70ارب ڈالر (تقریباً 6020ارب روپے پاکستانی )کا مالی نقصان اٹھاناپڑا،30ہزار معصوم لوگوں کی ہلاکت اور 5ہزار فوجی جو انوں کی شہادت کا جانی نقصان بھی دہشت گردی کی وجہ سے ہوا۔جبکہ امریکہ کی طرف سے صرف14ارب ڈالر دئیے گئے۔ہزاروںبم دھماکے و خودکش حملے، 700ڈرون حملے اسی عالمی لعنت کی وجہ سے ہوئے۔

مسئلہ کا حل:
حکومت پاکستان طالبان اور دیگر مسلح گروپوں سے مذکرات کر ے جس طرح امریکہ افغانستان میں کر رہا ہے۔ اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملک میں امن قائم کیا جا سکتا ہے ۔ جو معاشی ترقی کےلئے نہایت ضروری ہے۔

(4)توانائی بحران:
پچھلے دس سالوں میں ملک میں بجلی اور گیس کے شعبو ں میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت ملک میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً3000 سے 4000 میگا واٹ بجلی کا شارٹ فال ہے جبکہ 2 ار ب کیو بک فٹ گیس کی قلت ہے جس کی وجہ سے CNG Stations ہفتہ میں تین دن بند رکھنے پڑرہے ہیں جو بےروز گاری اور غربت کو جنم دے رہے ہیں۔ توانائی بحران کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تقریباً روزانہ 1ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

مسئلہ کا حل:
توانائی کے مسئلہ کو حل کرنے کےلئے اس وقت سب سے تیز ذریعہ کوئلہ ہے۔ اس مقصد کےلئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ ان کے مطابق ایک سال کے اندر اندر پاکستان تھر کول پروجیکٹ سے اتنی بجلی بنا سکتا ہے کہ جس سے پورے پاکستان میں ایک سیکنڈ کی بھی لوڈ شیڈنگ نہ ہو۔تھر کول پروجیکٹ سے روزانہ کی بنیاد پر 50000میگا واٹ بجلی آئندہ 500سالوں تک پیداکی جاسکتی ہے۔کوئلے کا یہ ذخیرہ پورے براعظم ایشیاءکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ توانائی بحران کی وجہ سے 2010ءمیں تقریباً 150ارب روپے ملائیشیا، دبئی،سنگاپور اور بنگلہ دیش منتقل ہو چکے ہیں اور مزید 20%سے 30%ٹیکسٹائل صنعتیں فیصل آباد (Manchester of Pakistan)سے
بنگلہ دیش منتقل ہو رہی ہیں۔ لہذا حکومت کو توانائی بحرا ن جنگی بنےادوں پر حل کرنا چاہئیے ۔

(5)ذرائع کا کم استعمال:
اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو تقریباً 60000ارب ڈالر کے ذرائع عطا کیے ہیں۔ جن میں سے تھر میں موجود کوئلہ 185ارب ٹن (تقریباً30000ارب ڈالر مالیت) کے ساتھ سرفہرست ہے۔ باقی ذرائع میں بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور چاندی کے ذخائر جن کی مالیت تقریباً4000ارب ڈالر ہے ( بمطا بق ڈاکٹر ثمر مبارک مند) اس کے علاوہ گیس، لوہا، نمک اور دیگر معدنیات بھی اپنی اپنی جگہ پر قابل قدرہیں۔ انسانی وسائل کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی تقریباً55%آبادی کی عمر 20سال سے 40سال کے درمیان ہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے ملک میں و سائل کو بھر پور طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے ملک میں بدامنی اور انتشار کی فضا قائم ہے۔

مسئلہ کا حل:
پاکستان میں ہر سال کرپشن ، ٹیکس چوری، دفاعی بجٹ، بجٹ خسارہ ، سود کی ادائیگی اور دیگر مسائل کی وجہ تقریباً6000ارب روپے ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل پر قابو پا کر یہ خطیر رقم تھر کول پروجیکٹ ریکوڈک پروجیکٹ ، سماجی ترقی اور دیگر کارباری سہولتیں فراہم کرنے کےلئے خرچ کی جائے توکوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں بھی ترقی کا دور شروع ہو سکے۔

(6)غیر موافق پالیسیاں:
پاکستان میںتقریباً 80%پالیسیاں ملکی مفاد کے خلاف ہیں۔ کاروبار ی پالیسیاں بھی کاروبار کے خلاف ہیں۔ پاکستانی حکومتوں نے موٹر سائیکل اور دیگر گاڑیوں کی بھر مار کر دی ہے جس کی وجہ سے دس سالوں میں ملک میں فیول کی طلب تقریباً 100%بڑھ گئی ہے ۔پاکستان میں سود کی پالیسیا ں بھی ملکی مفاد کے خلاف ہیں۔ اس وقت SBPکی شرح سود تقریباً 13%ہے جو پوری دنیامیں ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں تعلیم اور صحت کا بجٹ بھی دنیا میں تقریباًسب سے کم ہے جو بجٹ کاصرف 2%ہے۔

مسئلہ کا حل:
ملکی مفاد کے مطابق پالیسیاں بنانے کےلئے قانون سازی کی جائے اس میں PASSCO,HEC,SECP,TCP,IDBP,ZTBL,SMEDA,FBR,SBP اور دیگر اداروں کے قابل افراد کو ملا کر ایک بورڈ بنایا جائے جو ملکی مسائل مثلاً کاروبار ، تعلیم، صحت اور دیگر معاملات کو دیکھ سکے اور اپنی رائے دے سکے ۔اس بورڈ میں سیاسی افراد کو 1%بھی نمائندگی نہ دی جائے۔

(7)قومی اداروں کی بد حالی:
قو می اداروں مثلاً پاکستان ریلوے، پاکستان ا سٹیل، پاکستان پوسٹ، واپڈا، پی آئی اے وغیرہ میں سالانہ تقریباً500 ارب روپے کی کرپشن و خسارہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی سٹا ک مارکیٹس(KSE, LSE, ISE) مالی بد حالی کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ان سب مسائل میں ملکی سیاست کا کردار زیادہ اہم ہے۔ سیاسی افراد کی بھرتیوں کی وجہ سے یہ ادارے اپنی بدحالی کو پہنچ گئے ہیں۔ ملکی حوالے سے خاص طور پر واپڈا کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس ادارے میں ہر سال تقریباً90ارب روپے کے ”فری
بجلی یونٹس“اپنے ملازمین کو دیئے جاتے ہیں۔

مسئلہ کا حل:
ملکی اداروں کو ٹھیک کرنے کےلئے سیاسی دباﺅ کے بغیر قابل اور ایماندار افراد کو بھر تی کیا جائے۔ خسارے کی تحقیقات کےلئےNAB اورFIAکی خدمات حاصل کی جائیں جس طرح بھارت میں CBI کے ذریعے کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہےں تاکہ مستقبل میں ان مسائل پر قابو پایا جاسکے ۔

(8)کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی کمی:
اکیسویں صدی میں دنیا کا ہر ملک کمپیوٹر کے استعمال میں مہارت حاصل کر رہا ہے اور اپنے نظام ِمعیشت کو بہتر سے بہتر بنا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا نظامِ معیشت تقریباً 80%کمپیوٹر پر انحصار کرتا ہے یہی ان کی ترقی کی ضمانت ہے۔ پاکستان میں ابھی بھی تقریباً40%نظامِ معیشت کمپیوٹر ائزڈ ہے کمپیوٹرائزڈ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال تقریباً500ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ تا ہے۔

مسئلہ کا حل:
ملک میں سوفٹ وئیر ہاو سز اور آئی ٹی لیبارٹریز بنا کرتمام نظام کوجدید تقاضوں کے مطابق کیا جا ئے۔ حکومت کو اس مقصد کےلئے ورلڈ بنک، یونیسکو، مائیکرو سوفٹ اور جاپان کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔

حاصل بحث:
پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کےلئے اوپر بیان کردہ تمام تجاویز صرف اس وقت عملی شکل حاصل کر سکتی ہیں جب ہمیں ایک اکنامک مینجر ملے۔ جیسا کہ ملائیشیا کو ڈاکٹر مہاتیر محمد ، سنگا پور کو لی کوان یو، ترکی کو طیب اردوان ، بنگلہ دیش کو ڈاکٹر محمد یونس(نوبل انعام یافتہ)اور ایران کو احمدی نژاد کی صورت میں ملا۔ مزید یہ کہ ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہیے تاکہ حکومتی اراکین کی تعداد مختصر مگر قابل ہو ۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین۔
muhammed usman
About the Author: muhammed usmanCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.