ضرب حیدری

"مٹی کی محبّت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے"

کس سے داد رسی چاہے؟ کس سے فلاح کی امید رکھے؟ کس سے اپنے خون کا حساب مانگے؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹاۓ اس امید سے کہ فریاد رسی کی جائے گی؟ آخر کوئی بھی تو نہیں، نہ ریاست نہ حکومت، نہ آئین نہ قانون، نہ قاضی نہ عدلیہ، نہ انصاف نہ حقوق، غرض کیا ہے جو پھیلتی ہوئى مایوسی کا سدباب کر سکے؟

کوئی حیرت نہیں کے ہر قسم کی آفتوں اور بلاؤں نے تمہیں نشانہ ستم بنا ڈالا ہے، زمینی و آسمانی و وبائی آفات کا نشانہ اگر تم ہی بنتے ہو تو تعجب کیسا؟ اندرونی و بیرونی خطرات کے ساۓ اگر تمھارے سروں پر ہی منڈلاتے ہے تو پریشانی کیسی؟ طاقت کے نشے میں بدمست اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا بے ضمیروں کی کم ظرفیوں کا یہی نتیجہ تو آنا تھا. مفاہمانہ سیاست کے نام پر منافقانہ سیاست کو کامیابی کی دلیل سمجھنے والے جلد اپنی تمام تر بد اعمالیوں کے ساتھ تاریخ میں یزید و شمر کے ہم پلہ کھڑے نظر آۓ گے. آخر یہ کیسے اسیر کی حکومت ہے جسے ایک مظلوم کی طویل اسیری نظر ہی نہیں آتی، یہ کیسی شہیدوں کے خون کو اپنا اثاثہ کہنے والی جماعت ہے جسے نہ تو شہیدوں کے اٹھتے جنازے نظر آتے ہیں اور نہ مسلسل بہتا ناحق خون، اگر کچھ سمجھ آتا ہے تو ایم.پی.او. یا ایسے بےبنیاد اور جھوٹے کیس جن کی صحت اور شواہد تک سے تفتیشی افسر لاعلم ہوتا ہے. ڈولتے اور لڑکھڑاتے اقتدار کو سہارا دینے والی چند بیساکھیوں کی قیمت اگر مظلوم کی اسیری ہی ٹھری تو مفاد پرستوں کا سودا برا نہیں، اعتراض تو تب کیا جاتا جب اخلاقیات کا وجود باقی ہوتا لیکن افسوس وہ تو کب کا ناپید ہو چکا، اور پھر عدلیہ کے فیصلوں کی دھجیاں اڑانے کی روایت بھی تو قائم رکھنی ہی تھی، اور قربان جاؤ ایسی عدلیہ پر جو اپنے خلاف اٹھتے قدموں کی آہٹ سن کر رات گئے ہنگامی اجلاس تو بلا سکتی ہے لیکن اپنے ہی ديۓ گئے فیصلے کے خلاف کيے گئے اقدامات پر معمول سے ہٹ کر کاروائى کرنے کو تیار نہیں.

عدلیہ اور انصاف کے ایوانوں پر اس کا ایمان غیر متزلزل ہے اور اسی ليۓ وہ مفاہمت کے نام پر منافقت کرنے کو تیار نہیں لیکن انصاف کے شہرت پسند ٹھیکیداروں کو ایسے معاملے میں کیونکر دلچسپی ہوگی جو اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت نہ بن سکے، جس پر طویل اور عالمانہ تبصرے اور تجزيے نہ کيے جائے، جسے بے معنی بحث و مباحثے کا حصّہ نہ بنایا جا سکے اور جس پر بے مقصد سیاسی ٹاک شوز منعقد نہ کيے جا سکے، اسی ليۓ ان کے پیش نظر تو بس وہی معاملات رہتے ہیں جو ان کی ذات کی تشہیر کر سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ایسے معاملات کو زندہ رکھا جائے جس سے نام نہاد صحافت کرنے والے کاروباری افراد کے مقاصد پورے ہوتے رہے. وزیراعظم کی ٹائی کی قیمت کو موضوع بحث بنانے والے، ان کے پروٹوکول میں شامل گاڑیوں کی شماریات پیش کرنے والے، ایوان صدر کے ملازموں کی تعداد اور ان کی تنخواہوں پر پریشان ہونے والے، قائد حزب اختلاف کے خاندان کے پاسپورٹ کے رنگ سوچ سوچ کے ہلکان ہونے والے اور ایک غیر ملکی شخص کی طویل ترین پریس کانفرنس پر سب کچھ اس کے حوالے کر دینے والا انتہائی آزاد میڈیا آخر کیونکر ایسے با اصول کی بات کرے گا جو اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتا، جو اپنے حق میں لکھوانے کے ليے لکھاریوں میں لفافے نہیں بانٹتا اور شہ سرخیوں میں جگہ پانے کے ليے کسی صحافی نما تاجر کی حمایت بھی نہیں کرتا اور اسی ليے وہ معتوب ٹھہرتا ہے اور زندان اس کا مقدّر.

ملک عزیز کے کرتا دھرتاؤں نے اس خطہ عرض کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک جیل، جس سے ٱسے وہ باہر آنے دینا نہیں چاہتے اور دوسرا کچھ نہیں سوائے مقتل کے جو اس کے وفاداروں اور پیاروں کے لہو سے رنگین ہے لیکن کب تک؟ ظلم تو آخر ظلم ہے جسے ایک دن مٹ ہی جانا ہے اور آزادی کی نوید سن کر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مہاجر پرچم اور عظیم مہاجر رہنما کی تصویریں اٹھاۓ ان گنت مہاجر نوجوانوں، بزرگوں، ماؤں، بہنوں کا قائد کے استقبال کے ليۓ جمع ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کے مہاجر جاگ رہا ہے اور تبدیلی کا وقت آ پہونچا ہے، بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ صفوں میں اتحاد برقرار رکھا جائے، قائد کے بتائے گئے اصولوں کی مکمل پاسداری کی جائے اور اپنے باحوصلہ و باہمّت قائد کو یہ یقین دلایا جائے کہ ہم اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہے اور آفاق احمد کی قوم ایک بار پھر اپنے عظیم رہبر کی سرپرستی میں یزید وقت سے ٹکرانے کو تیار ہے.
Zarb-e-Haidry
About the Author: Zarb-e-Haidry Read More Articles by Zarb-e-Haidry: 8 Articles with 5803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.