مایاوتی اور اندرا گاندھی میں کیا ہے قدر مشترک؟

مایاوتی اور اندرا گاندھی میں اگر قدر مشترک تلاش کی جائے تو دیگر متعدد اقدار مثلا صنف نازک ہونے‘ سیاست میں مدتوں اقتدار پر قائم رہنے کے علاوہ دونوں اپنے دور کے بڑے لیڈروں کے میدان چھوڑنے کی وجہ سے اعلی عہدے تک پہنچیں۔اگرکانشی رام پر فالج نہ گرتا تو مایا کویوپی کی وزارت اعلیٰ کہاں نصیب ہوتی اور لال بہادر شاستری اگر فوت نہ ہوتے تو اندرا کا وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا سفر اس قدر مختصر مدت میں کیسے طے ہوتا؟بہرکیف ہندوستان کے سیاسی افق پر اندرا گاندھی عظیم لیڈرشمار کی جاتی تھیں جس کی سب سے بڑی وجہ تھی کہ وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی تھیں‘ الہ آباد میں پیدا ہوئیں اندرا نے سوئزرلینڈ ، سمر ویل کالج آکسفورڈ اور بعد میں وشوا بھارتی شانتی نکتین میں تعلیم حاصل کی جہاں رابندر ناتھ ٹیگور نے انھیں ’پریہ درشنی‘کے لقب سے نوازاجس کا اردو میں مطلب سمجھیں تو دیکھنے میں پیاری کہا جاسکتا ہے۔انھوں نے محض گیارہ برس کی عمر میں سیاست میں حصہ لینا شروع کردیاتھا۔ انگلستان میں قیام کے دوران میں اور بعد ازاں ہندوستان واپس آکر بھی طلبا کی تحریکوں میں سرگرم حصہ لیتی رہیں۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں تیرہ ماہ کیلئے جیل بھیج دی گئیں۔ 1942میں ان کی فیروز گاندھی سے شادی ہوئی۔ اسی زمانے میں ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک چلی جس میں حصہ لینے پر وہ اوران کے خاوند قید ہوگئے۔ 1947میں آل انڈیا کانگرس ورکنگ کمیٹی کی ممبر منتخب ہوئیں۔ بعد میں کانگرس کے شعبہ خواتین کی صدر ، مرکزی انتخابی کمیٹی اور مرکز پارلیمانی بورڈ کی ممبر بنیں۔ فروری 1959کے دوران وہ انڈین نیشنل کانگرس کی صدر منتخب کی گئیں۔ 66-1964میں وزیر اطلاعات و نشریات ہوئیں۔ 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 1967کے انتخابات میں کانگرس کی فتح کے بعد پھروزیراعظم بنیں۔ 1971 کے انتخابات کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب کی گئیں۔مارچ 1977کے پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی کانگرس آئی نے بظاہر جنتا پارٹی سے شکست کھائی جبکہ اصل میں ایمر جنسی کے دوران مسلمانوں پر کی گئی زیادتیوں کو اس کی وجہ مانا جاتا ہے۔ بلڈوزر کے ذریعے ترکمان گیٹ پر پھاٹک تیلیان جیسی قدیم بستی کو نہ صرف نیست و نابود کردیا گیا تھا بلکہ جبری نس بندی نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ وہ خود بھی جنتا امیدوار راج نارائن سے ہار گئیں جبکہ جنتا پارٹی میں مرارجی دیسائی جیسے سینئر لیڈر شامل تھے جن سے ماضی میں ان کا کانٹے کا اختلاف رہا تھا۔شاستری کے مرنے کے بعدجب اندرا وزیر اعظم بنی تھیں تومرارجی دیسائی نے ان کے ذریعے پیش نائب وزیر اعظم کے عہدے کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ 1978میں مہاراشٹر کے ایک حلقے چک مگلور سے جیت کر آئیں۔اس ضمنی انتخاب میںوہ لوک سبھا کی رکن چن لی گئیں لیکن دسمبر 1978میں لوک سبھا نے ، دوران حکومت اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں ان کی رکنیت منسوخ کر دی گئی اورقید کی سزا دی۔ تقریباً ایک ہفتے بعد رہا کر دی گئیں۔1977اندرا جب 1977 میں انتخابات ہاریں تو انہوں نے اپنے پیچھے جو وراثت چھوڑی تھی ، وہ اپنے آپ میں ان کی قیادت کی صلاحیت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے جبکہ 1977 تک ہندوستان اناج کے شعبے میں پوری طرح سے خودکفیل ہو گیا تھا۔ ملک اوپر تکنیکی دور میں داخل ہو گیا تھا۔ پہلا پوکھرن تجربہ بھی انہی کے دور میں ہوا تھا۔ کئی سیٹلائٹ تیار کئے گئے تھے۔ تکنیکی ترقی نئی اونچائیو ںپر پہنچ گیا تھا۔ وہ ملک کو تکنیکی دنیا میں بہت آگے لے جانا چاہتی تھیں۔بنگلہ دیش کے مکتی جنگ میں ان کی فیصلہ کن کردار کی وجہ سے ایک نئے ملک کا طلوع ہوا۔ حال ہی میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے مدعو کر جنگ کو بنگلہ دیش کے سب سے اعلی اعزاز سے نوازا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج بھی بنگلہ دیش کے لوگ انہیں بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں انتخابی شکست کے بعد 1980 میں اپنی واپسی کے ساتھ اندرا گاندھی نے ثابت کر دیا کہ ملک کے لئے ان کا قیادت کتنی بیش قیمتی ہے۔جنوری 1980میں لوک سبھا کے عبوری انتخابات میں کانگرس آئی کی جیت ہوئی اور اندراگاندھی نے مرکز میں وزارت بنائی۔ سکھوں کے خلاف انھوں نے فوجی آپریشن کا آغاز کیا اور گولڈن ٹمپل پر فوجی حملے کے بعد سکھوں میں ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔ آسام کے مسئلے سے بھی وہ روبرو ہوئیںلیکن انہوں نے تمام حالات کا ڈٹ کر سامنا کیا اور کبھی بھی ملک کی یکجہتی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ 1984میں سکھ محافظوں نے گولی مار ان کو قتل کردیا۔ نئی دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ میں 31اکتوبر 1984 کو قتل کر دیا گیا جبکہ وہ میڈیا کو انٹرویو دینے لان میں آرہ تھیں۔اس قتل میں 4 آدمی ملوث تھے۔ حفاظتی دستے کے بیانت سنگھ اور ستونت سنگھ۔ان دونوں نے وزیر اعظم پر گولیاں چلائیں۔ بیانت سنگھ کو حفاظتی دستے نے اسی وقت گولی مارکرہلاک کر دیااور ستونت سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔دوسرے 2 اشخاص کبیر سنگھ اور بلیر سنگھ جن کو قتل کی سازش کرنے اور اس کا منصوبہ بنانے کا مجرم قرار دیا گیا۔ان تینوں پر مقدمہ چلا۔ دہلی کے اڈیشنل جج مہیش چندرنے22جنوری1986? کو اپنا فیصلہ سنایا جس میں ستونت سنگھ، بلیر سنگھ اور کبیر سنگھ کو موت کی سزا دی گئی۔اس کے بعد مقدمہ ہائی کورٹ میں لایا گیا۔دہلی ہائی کورٹ نے3دسمبر 1986 کو ان کی موت کی سزا کی توثیق کر دی۔ اس کے بعد ملزمان اس مقدمے کو سپریم کورٹ لے گئے،جہاں3اگست1988کو مسٹر جسٹس جی ایل اوزا، مسٹر جسٹس سیٹی، مسٹر جسٹس بی سی رائے پر مشتمل ایک ڈیویڑنل بینچ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ستونت سنگھ اور کبیر سنگھ کی سزائے موت بحال رکھی مگر بلیر سنگھ کو مکمل طور پر بری کر دیا گیا۔بلیر سنگھ کے خلاف قتل میں ملوث ہونے کی براہ راست کوئی ٹھوس شہادت نہ مل سکی، مثلاً استغاثہ کی جانب سے ایک بات یہ کہی گئی تھی کہ مسز اندرا گاندھی کا قتل اس لئے ہوا کہ آپریشن بلیواسٹار کی وجہ سے سکھ ان سے ناراض ہوگئے تھے بلکہ خود بلیر سنگھ کی زبان سے انتقام کی بات سنی گئی تھی۔اس دلیل کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس اوزا نے لکھا اگر بلیو اسٹار آپریشن پر غصّہ یا احتجاج کے اظہار کو ملز م کے خلاف شہادت یا قرینہ کے طور پر استعمال کیا جائے تو سکھ فرقے کے تمام افراد جو بلیو اسٹار آپریشن پر برہم ہو گئے تھے ان سب کو قتل کی سازش میں شریک کرنا پڑے گا۔جسٹس اوزا نے مزید کہا کہ بلیر سنگھ کو چھوڑنے کی غلطی کرنا اس کو سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔

میڈیا میں شائع خبروں پر یقین کریں تومقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیوہ جیکولین کینیڈی کے مطابق اندرا گاندھی جارحانہ مزاج اور انتہائی ناپسندیدہ شخصیت کی حامل خاتون تھیں۔ یہ انکشاف جیکولین کینیڈی کے انٹرویوز پر مشتمل ایک نئی کتاب میں کیاگیا جسے امریکہ میں شائع کیا جا رہا ہے۔ 47 سال قبل کئے گئے ان انٹرویوز میں آنجہانی جیکولین کینیڈی نے متعدد اہم شخصیات بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جیکولین کینیڈی نے اس وقت پاکستان میں تعینات امریکی سفیر والٹر میک کونافی کو انتہائی بے ڈھنگا انسان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں امریکی سفیر کے عہدہ کیلئے کسی طور موزوں نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی اس رائے سے فوری طور پر اپنے شوہر صدر جان ایف کینیڈی کو آگاہ کیا جنہوں نے اپنی اہلیہ کی تعریف کی لیکن اس کے باوجود والٹر میک کو نافی اس واقعہ کے مزید 4 سال بعد 1966تک پاکستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے تعینات رہے۔ جان ایف کینیڈی کے نام پیغام میں انہوں نے میک کو نافی کے متبادل کے طور پر کئی نام بھی تجویز کئے لیکن ان کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اپنی تجاویز پرعمل نہ ہونے پر بھی جیکولین کینیڈی نے دلچسپ تبصرہ کیا اور کہا کہ ان کی تجاویز صدر نے اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ڈین رسک کو دکھائیں لیکن قوت فیصلہ سے محروم اور بے حس ہونے کی وجہ سے وہ اس سلسلہ میں کچھ نہ کر سکے۔

اندرا گاندھی کے انتقال پرکانگریس کے حق میں ایسی فضاءبنی کے ان بیٹے راجیو گاندھی بعد میں ہندوستان کے وزیراعظم بنے جبکہ ان کی بہو سونیا گاندھی ان دنوں انڈین نیشنل کانگرس کی صدر ہیں۔ شروع میں سنجے گاندھی کو ان کا وارث سمجھاگیا تھا لیکن ایک ہوائی حادثے میں ان کی موت کے بعد ان کی والدہ نے راجیو گاندھی کو پائلٹ کی نوکری چھوڑ کر فروری 1981 میں سیاست میں داخلے کیلئے حوصلہ افزائی کی۔ راجیو گاندھی مئی 1991 میں ان کی بھی سیاسی قتل ، لبریشن ٹاگرس آف تمل ایلم کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہوئی۔ راجیو کی بیوہ سونیا گاندھی نے متحدہ ترقی پسند اتحاد کو 2004 کے لوک سبھا الیکشن میں ایک حیرت انتخابی فتح کی قیادت کی۔سونیا گاندھی نے وزیر اعظم بننے کے موقع کو رد کر دیا لیکن کانگریس کی سیاست پر ان کی لگام ہے ؛ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ، جو ماضی میں وزیر خزانہ رہے ، اب قوم کے وزیر اعظم ہیں۔ راجیو کی اولاد یںراہل گاندھی اور پرینکا گاندھی بھی سیاست میں داخل ہو چکے ہیں۔سنجے گاندھی کی بیوہ مینکا گاندھی اپنے شوہر سنجے کی موت کے بعد وزیر اعظم کے گھر سے باہر نکالی گئیںجبکہ سنجے کے بیٹے ، ورون گاندھی اہم حزب اختلاف بھارتیہ جنتا پارٹی پارٹی میں رکن کے طور پر میں سرگرم ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116004 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More