مہذب اقوام کا منفی طرز عمل اور ہمارا کردار

ان مہذب اقوام کے معیار ات کا پیمانہ مختلف کیوں ہوتا ہے اپنی دفعہ تم اور ہماری دفعہ تو نئی پالیسی ہوتی ہے ۔ حقوق کے چیمپئین خطہ عرب بشمول پاکستان و افغانستان کے لوگوں میں ا نسانی حقوق کی کھلے عام پامالی پر مجرنانہ خاموشی اختیار کر کے اس کا تعلق زبردستی دھشت گردی سے جوڑ کر قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ انہیں شرم آنی چاہئیے کہ ان بیگناہوں کی حالت زار تو دیکھیں جو ا ن اقوام کی دھشت گردی کے نتیجے میں زندگی بھر کے لئے معذ ور کر دئیے گئے ہیں ۔

ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے نوئین ٹاور کی تباہی میں حصہ لیا (جو خود ایک بہت بڑا جھوٹا بہتان ہے ) جس کے ثبوت آج تک پیش نہیں کر سکا ، اسی طرح صدام کے پاس جراثیمی ہتھیار کی موجودگی کی غلط اطلاع پر تصدیق نہ ہونے کے باوجود برا ہ راست کاروائیاں کر کے لاکھوں شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا ، اور بڑی ڈھٹائی سے اپنی غلطی تسلیم کر لیتا ہے ۔ لیکن اس غلط اطلاع کے نتیجہ میں عراقی عوام ان عالمی طاقتوں پر حملے کرنے میں حق بجانب نہ ہونگے ۔ اسی طرح افغانستان کا قتل عام کرنے میں بھی ایسے ہی غلط لزامات عائد کر کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔

اطلاع غلط ہونے پر لوگوں کو قتل عام کرنے کا حق کس بنیاد پر ہوتا ہے اور پھر اسے غلطی بھی تسلیم کر کے شرمندگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور بس کیا اتنا ہی کافی ہے اور آسان ہے کہ اس مضروب قوم کے زخموں کا مداوا ہو سکے ۔ کیا ایسی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کرنے والی غلطیوں کی قیمت یہ عالمی طاقتیں چکانے کو تیار ہیں ۔ جو اسلامی فلسفے کے مطابق ہوں یہ ان مضروب ہونی والی اقوام کا حق ہے کہ ویسا ہی طرز عمل اختیار کریں جو ا ن بدمعاش قوتوں نے ان کے خلاف اپنایا ہے ۔ مہذب اقوام کا یہ طرز عمل کسی طور پر بھی جائز نہیں کہ صرف ایک غلط اطلاع پرپوری قوم کو خاک و خون میں نہلانا کہ ان کی نسلیں متاثر ہو جائیں اور افرادی قوت کی کمی کا شکار کر دی جائیں۔

چنگیز خان کاطرز حکمرانی اسی بنیاد پر قائم تھا کہ کسی قوم کو زیر کرنا ہو تو ان کی نسلوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے اور جو قوم زیر نہ ہو سکے تو دھوکے سے دوستی کی آڑ لے کر اسے عبرت ناک قتل و غارت کا نشان بنا دیا جائے آج یہ عالمی طاقتیں اسی طرز عمل کو اپنا کر وہی رویہ اپنا کر اقوام کو زیر کر کے اپنا مطیع و فرما بردار بنانے کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں ۔ لیکن اس چنگیزی دھشتگردی کا رویہ مہذب انداز میں دھشت گردی کو فروغ دے کر ان صلیبی اقوام نے اپنا کر اس تسلسل کو قائم رکھا ہوا ہے ۔ اس کا بنیادی مقصد کسی بھی ہیلے اور بہانے سے قتل عام کا فروغ ہے جسے نسلوں کی تباہی بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اور اقوام عالم کو اپنا مطیع و فرمابردار بنا کر ان کے وسلائل کو اپنے قبضہ میں لینا ہے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہ کردار چنگیز خان کے کردار سے مختلف نہیں پاکستان کو دوستی کی آڑ میں تباہ و برباد کر دیا جائے یہی اس کا ایجنڈا ہے ہم اس کی دوستی ہی دوستی میں اپنی گردنوں کو پیش کرتے آ رہے ہیں، لیکن کیوں اور کس بنیاد پرہماری قومی غیرت اور عسکری قیدت کہاں سو گئی ہے کہ حملہ آور آپکی سرحدوں کے اندر آپکی فوج کا قتل عام کر کے بڑی آسانی سے کوئی نقصان اٹھائے بنا ہی نکل جاتے ہیں اور ہم بے خبر ہی رہتے ہیں۔

نیٹو صلیبیوں کے صلیبی ممالک کے مفادات کے تحفظ کا ایک مشترکہ ادارہ ہے جسے تمام صلیبی ریاستیں ایک عظیم قوت بنانے کی جدوجہد کرتی ہیں اور وہ دنیا کی جدید ترین صلاحیتوں سے لیس ایک دھشتناک قوت بھی ہے ۔ جوکسی بھی ریاست پر راست کاروائی کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور وہ بلا تفریق نہتے شہریوں پر میزائلوں بموں ، اور جدید ہتھیاروں سے مسلسل دھشتناک بمباری کر کے جانی و مالی نقصانات سے دوچار کر دیا جاتا ہے ۔ جو بدمعاشی کی بنیاد پر دھونس اور دھمکیوں سے اقوام کو زیر کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں دوسری جانب یہی مہذب اقوام رہی سہی کسرپابندیاں عائد کر کے معاشی قتل عا م اجناس کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کر کے غذائی قلت کا شکار کردیتی ہیں ۔ مہنگائی کے عذاب سے گزارہ جاتا ہے اشیا لوگوں کی دسترس سے دور ہو جاتی ہیں۔ پھر اوپر سے ان عالمی طاقتوں کی دھشتگرد کاروائیاں غلطی سے حملے کر کے اس ریاست کے لئے مکمل موت کا پیغام لے کر آتی ہے ۔ جس کا بنیادی مقصد اس ریاست کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ ہم جو چاہیں کر گزرتے ہیں اب آپ احتجاج کریں یا پتلے جلائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کام تو کیا جا چکا ہم معافی بھی نہیں مانگیں گے آپ سے جو ہو سکے کر لیں ۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ان حملہ آور فورسز کو فوری رد عمل کے طور پر جوابی کاروائی کر کے بھاگنے پر مجبور کر دیا جاتا نہ کہ ہماری فورسز عالم سکوت میں امریکیوں کی آمد ہی سے بے فکر ہو کر چین کی بانسریاں بجا رہی ہیں اور امریکیوں اور ناٹو کی فضائی افواج ہماری سرحدوں کے اندر کھلے عام کاروائیاں کر کے انہی فورسز کو موت کی آغوش میں پہنچا رہی ہوں ۔ یہ بات مہذب اقوام کے منفی کردار کا تعین کرتی ہے جو کوئی خاص مقصد سے اس ملک کی فوج کو خصوصی طور پر نشانہ بنا رہی ہیں۔ ہم جوابی کاروائی سے بھی محروم کر دئے گئے اس کا مقصد تو صرف ان عالمی بدمعاشوں کی من مانی کاروائیوں پرنیم رضا مندی لگتا ہے یا ہم اپنی حفاظت سے بالکل غافل ہو کر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو ہر کاروائی کرنے کا کھلا اجازت نامہ دے کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں جو غداری کے زمرے میں بھی آتا ہے ۔

لیکن ایسا کب تک ہوتا رہے گا ایسی منظم دھشت گردی جو ان عالمی طاقتوں نے قوت و طاقت کے باعث اپنائی ہوئی ہے اسے اس دھشتگردی کی قیمت بھی ویسے ہی چکانی ہو گی جیسے انہوں نے کی ہوئی ہے۔ اس کے لئے اولین شرط تو یہ ہے کہ اپنے ملک سے غیر ملکی مہروں کو تلاش کر کے اپنی صفوں سے باہر نکال دیں۔ جو اقتدار کی ہوس میں اپنی ہی عسکری صلاحیت کے خلاف عالمی تعاون چاہتے ہیں اور میمو بھجوا کر مدد طلب کرتے ہیں اس کا صرف ایک مقصد کہ فوج کو بے دست و پا کر کے اپنے اقتدار کو طوالت بخشی جائے اس کوشش میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جو کسی طور بھی ملک کے لئے موزوں نہیں ہے اگر تبدیلی کی کوشش ملک کے اندر ہی سے ہو تو اس کے بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں نا کہ غیر ملکی مدد سے مقاصد کا حصول ملکی بقا کے لئے ایک خطرناک کوشش ہے ۔ پاکستانی فوج پر حملے اسی کوشش کا ایک حصہ لگتا ہے ۔ ایسی کوششوں میں مدد فراہم کرنے والے ملک و قوم کے غدار ہیں ان سے نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔ حالات عالمی قوتوں کے منفی کردار کی بدولت خطرناک رخ اختیار کر چکے ہیں جو ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔ فوج کوبھی اپنی ڈیوٹی بڑی جانفشانی سے سرانجا م دینے کی ضرورت ہے جو اپنے لوگوں پر دو گھنٹے سے زائد حملہآوروں کے خلاف فوری مدد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جب کہ ملک حالت جنگ میں ہے صرف امریکی دوستی پر اکتفا نہ کریں خود بھی فوری ردعمل ظاہر کر کے اپنے ملک اور عسکری قوت کی جان کا موثر دفاع کریں اس صورت حال پر بس صرف یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو !
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75370 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More