عظیم روسو نے کہا ۔ ۔۔۔ ”انسان
آزاد پیدا ہواہے لیکن جہاں دیکھو وہ پا بہ زنجیر ہے “ ۔۔۔۔ روسو کا یہی
جملہ انقلابِ فرانس کی بنیاد بنا اور روسو اور ماہلی کے بہت بعد جاہل ، اجڈ
، گنوار اور بدبو دار جسموں والے کسانوں نے ، جنہیں سیاست کی سرے سے کوئی
شُد بُد نہ تھی ، فرانس میں انقلاب برپا کر دیا اور وڈیروں ، نوابوں اور
جاگیر داروں کے سروں کی فصل تو کاٹی ہی گئی لیکن انقلابی ڈانٹون کے حکم پر
اُن سرمایہ داروں کے سر پرست فرانسیسی شاہ لوئی کی کھوپڑی سے فرانس کی
گلیوں میں فُٹ بال کھیلا گیا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ انقلابِ فرانس سے
پہلے یہی وڈیرے اور جاگیر دار پورے فرانس میں جگہ جگہ جلسے کرتے ہوئے
ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر غریبوں کی ہمداردی میں ٹسوے بہاتے اور راتوں کو اپنے
خلوت کدوں میں عیاشی کرتے ہوئے انہی بد بو دار کسانوں کی بیوقوفی پر قہقہے
لگاتے۔لیکن انتہائی احمق تو وہ خود تھے جو اپنے مستقبل سے مکمل طور پر بے
خبر تھے۔
آج پورے پاکستان میں جگہ جگہ جلسے ہو رہے ہیں ، جلوس نکل رہے ہیں ، ریلیاں
ہو رہی ہیں اور غریبوں کی ہمدردی میں ٹسوے بہا کر ”کرسی“ کے حصول کی تگ و
دو جاری ہے ۔تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے آج کے وڈیروں کے الفاظ بھی وہی ہیں
جو فرانس کے وڈیروں کے تھے ۔وہی اداکاری ، وہی ٹسوے اور وہی خلوت کدے ۔یہ
خوش ہیں کہ یہاں ”روسو “ جیسے نظریات نہیں اس لئے انقلاب کا تصّور محال است
و جنوں۔ کتنے احمق ہیں یہ لیڈر جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ روسو سے کہیں
عظیم حضرتِ اقبال تو بہت پہلے یہ کہہ چُکے ہیں کہ :-
اُٹھو میری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمراءکے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یاد رکھیئے کہ انقلاب ہمیشہ نظریات سے آتے ہیں ، وہ نظریات خواہ روسو کے
ہوں ، کارل مارکس کے ، خمینی کے یا اقبال کے ۔روسو ، مارکس اور خمینی کا
انقلاب آ چُکا البتہ اقبال کا باقی ہے اور تحقیق کہ اس کا آنا طے ہے ، آج
آئے یا کل ۔احمق ہیں ساڑھے تین سو اور ساڑھے تین ہزار کنالوں پر مشتمل
گھروں میں بسنے والے وہ ارب پتی جو خوش ہیں کہ عوام ”رج کے“ بیوقوف بن رہے
ہیں اور انہوں نے اپنی ”واریاں“ باندھ رکھی ہیں۔عوام کبھی نہیں کہا کرتے کہ
” ہُن جان دیو ، ساڈی واری آن دیو “
وہ تو آتے ہیں ، چھا جاتے ہیں اور سروں کی فصل کاٹ کر ”فُٹ بال“ کھیلتے ہیں
کیونکہ انہیں تو عادت ہوتی ہے فصل کاٹنے کی ، وہ فصل خواہ کھیت کی ہو یا
سروں کی۔
کل میرے چوبیس (24) بیٹے شہید ہو گئے ۔ آج اُن کے جسدِ خاکی گھروں میں
پہنچنے سے پہلے شاہ محمود قریشی گھوٹکی میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر مُلکی
سلامتی کے لئے ٹسوے بہا رہے تھے ۔ساتھ بیٹھے عمران خاں مُسکرا رہے تھے کہ
”لوٹوں” کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ۔یہ وہی شاہ محمود ہیں جو آمر ضیاءالحق
کی مجلسِ شوریٰ (جِسے میں ہمیشہ شیطان کی مجلسِ شوریٰ کہتی ہوں) کے رکن ،
پھر نواز لیگ سے ہوتے ہوئے پی۔پی۔پی اور اب تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے
۔۔۔۔۔ کل ایک لوٹا مجھے کہہ رہا تھا کہ کیا تمہیں اللہ نے اشرف ا لمخلوقات
اس لئے بنایا تھا کہ تم جھوٹ اور نا انصافی کا دامن تھام لو ۔؟ آخر مجھ میں
اور تمہارے سیاست دانوں میں کون سی قدر مشترک ہے جو تم لوگ اُنہیں مُجھ سے
تشبہہ دے کر میری توہین کرتے ہو۔ میں ایک باتھ روم میں پڑا پڑا جان ہار
دیتا ہوں جب کہ یہ بندر کی طرح ڈال ڈال پھُدکتے پھرتے ہیں ۔۔۔۔ میں گند صاف
کرتا ہوں ، یہ گند پھیلاتے ہیں ۔۔۔ میں اپنے گھر (باتھ روم) سے عشق کرتا
ہوں ، یہ جگہ جگہ مُنہ مارتے پھرتے ہیں ۔۔۔ میں بے لوث خدمت کرتا ہوں ، یہ
ذاتی لالچ کے بغیر اپنے باپ کے بھی نہیں بنتے ۔۔۔ میری خدمت رحمت ، ان کی
زحمت ۔میرے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اس لئے میں نے راہِ فرار
اختیار کی لیکن یہ طے کر لیا کہ آئندہ سیاست دانوں کو ”لوٹے“ کہہ کر بے
زبان لوٹوں کی ہر گز توہین نہیں کروں گی اور اگر کبھی موقع مِلا تو آئین
میں 340 ویں ترمیم کروا کر سیاست دانوں کو لوٹا کہہ کر لوٹوں کی توہین کرنے
والوں پر آئین کے آرٹیکل چھ(6) کے مطابق کارروائی کرنے کی سفارش کروں گی
۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو تشبیہہ کس سے دوں ۔؟گھوڑا ، کتا وفادار ،
گدھا خدمت گزار ، اُلّو فلاسفر ، لُومڑ چالاک اور شیر جی دار ۔لیکن ان میں
ایسی کوئی بھی خوبی دور دور تک نظر نہیں آتی کہ یہ ملک و قوم کے وفادار ہیں
نہیں ، خدمت کی انہیں عادت ، نہ سوچنے کی فرصت ، چالاکی کا یہ عالم کہ
کم ہوں گے اس بساط پر ان جیسے بد قمار
جو چال بھی چلے یہ ، نہایت بُری چلے
رہی جی داری کی بات تو یہ جوتے کھاتے رہتے ہیں اور ”ہُن مار کے ویکھ“ کی
تکرار کرتے رہتے ہیں ۔ایٹم بم شبِ برات پر پھلجھڑیوں کی جگہ چلانے کے لئے
رکھ چھوڑے ہیں۔غوری ، غزنوی اور حتف میزائل فاصلے ماپنے کے لئے ، F-16
رفتار جانچنے ، توپیں سلامی دینے اور جوان شہید کروانے کے لئے کہ انہیں
مُنہ توڑ جواب دینے کا سرے سے آرڈر ہی نہیں ۔ ربِّ کعبہ کی قسم اگر شوقِ
شہادت سے سرشار میرے دیس کے ان کڑیل بیٹوں کو ایک اشارہ مل جائے تو یہ جرات
و شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کر دیں اور ”نیٹو افواج“ کو وہ سبق سکھائیں
کہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں ۔تسلیم کہ جنگ بد ترین حل ہے لیکن
اگر مرنا ہی ٹھہر گیا تو پھر طارق بن زیاد کی طرح ”سفینہ“ جلا کر ہی لڑا ،
مرا جا سکتا ہے کہ آئینِ جواں مردی یہی ہے ۔
میرے وطن کے 24 تازہ شہیدوں ! ہم تمہاری روحوں سے شرمندہ ہیں کہ ہم بے بس
ہیں ۔ہم کچھ کر بھی تو نہیں سکتے سوائے بُزدل حکمرانوں کو اپنی ”چوڑیاں“
بھیجنے کے لیکن تحقیق کہ فرق پھر بھی نہیں پڑے گا کہ یہ اپنی بے حمیتّی کی
تمام حدیں پار کر چُکے ہیں ۔ |