سوچوں پر تو کسی کی پابندی نہیں
ہوتی ۔ وہ تو آزاد پنچھی کی طرح بنا پنکھ کہیں بھی پہنچ جاتی ہیں ۔اُن پر
کوئی پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا ۔اسی لئے میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے وطنِ
عزیز کے وزراءکرام جو پاکستانی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، کاش کہ میں اُن
کی تعداد ہی نصف کر سکتی تا کہ ان کی بچی ہوئی تنخواہ اور دیگر اخراجات سے
ان مجبور وبے کس عوام کی روزی روٹی کا ہی بندو بست ہو جاتا جو بھوکوں مر
رہے ہیں ۔ان والدین کی کچھ تو مدد کر سکتی جو اپنی اولاد کو بھوکا مرتے
دیکھ کر خود کُشی پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔یہ سینکڑوں کی تعداد میں اراکینِ
اسمبلی کیا تیر مار رہے ہیں سوائے اس کے کہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے
ہیں ۔۔۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔کیا ہمارے سربراہانِ مملکت چھوٹے گھروں
میں نہیں رہ سکتے ؟جب کہ بیشمار پاکستانیوں کو فُٹ پاتھ پر چیتھڑے پہن کر
ٹھٹھرتی ہوئی یخ بستہ راتیں گزارنا پڑتی ہیں ۔کڑکتی دھوپ میں کسی سڑک کا
کنارہ اُن کا گوشہءعافیت ہوتا ہے ۔دودھ پیتے بچے بھوک سے بلک بلک کر جان دے
دیتے ہیں ۔دوائی نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس دارِ فانی سے کوچ کر جاتے
ہیں ۔ دوسری طرف ایک چھینک آنے پرہمارے کرتا دھرتا قومی لیڈر علاج کروانے
کے لئے بیرونِ ملک پہنچ جاتے ہیں شائدوہ پاکستانی ڈاکٹرز کو ڈاکٹر ہی نہیں
سمجھتے ۔کاش کہ ہمارے سربراہانِ مملکت نے اپنے عیش و عشرت کے علاوہ اپنی اس
مجبور و بے بس عوام کے بارے میں بھی کچھ سوچا ہوتا جن کی نگاہیں ہر لمحہ ان
کی مدد کی متلاشی ہیں ۔۔۔ کاش ایسا ہوتا ۔۔۔۔کاش۔۔۔ |