پاکستانیت کی مہک

جب آشاؤں اور امیدوں کے سارے دیپ بجھ جائیں ، محرومیوں کی گھور گھٹائیں نا مرادیوں کے آنگن میں خیمہ زن ہو جائیں ، خزائیں صحنِ چمن میں پورے استقلال سے یوں ڈیرے ڈال لیں ، کہ بُلبُل اپنے گُل کے لئے نغمہ خوانی سے گریزاں ہو جائے ، پپیہا ”پی کہاں“ کی رٹ چھوڑ دے اورکوئل کی ” کو کو“ بند ہو جائے اور جب آزادی کے گیت گانے والے رخصت ہو جائیں، سازوں کے تار ٹوٹ جائیں ، جھرنے خاموش ہو جائیں اور آبشاروں کے لب خشک ہو جائیں تو جان لیجئے کہ ” اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے“۔میرے آقا کا تو حکمرانوں کے لئے یہ فرمان ہے کہ ” تُم میں سے ہر کوئی چرواہا ہے جس سے روزِ قیامت حساب لیا جائے گا “ لیکن یہ چرواہے کہاں سے آئے ہیں جو بے دھڑک اور بے دریغ اپنی ہی بھیڑوں کو ادھیڑ رہے ہیں؟عجب قحط ا لرجال ہے ۔۔۔۔عجب قحط ا لرجال کہ آنکھ کہیں ٹھہرتی ہی نہیں ، نگاہوں میں کوئی جچتا ہی نہیں ۔لیکن کہیں تو رکنا ، کہیں تو ٹھہرنا ہو گا ، اپنی بقا کی خاطر ، اپنے وطن کی خاطر۔

سوال مگر دامن گیر ہے کہ کہاں؟ کیا PPP کے در پہ کہ جس نے ان ساڑھے تین سالوں میں ساڑھے تین صدیوں کی کرپشن کر ڈالی؟ جس کا فنِ حاکمیت ہر اُس خائن اور بد دیانت کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے جسے اس فن میں مہارتِ تامہ ہو ۔جو اپنے ہی وطن پر کی گئی جارحیت کو اپنی عظیم فتح قرار دیتے اور واشنگٹن پوسٹ میں احساسِ تفاخر سے لبریز مضمون لکھتے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ تین سال تک قوم کو دھوکا دیتے رہے کہ پرویز مشرف نے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع کی طرف توجہ نہیں دی ۔اس لئے جتنی دیر تک کرایے کے بجلی گھر نہ منگوائے جائیں ، مطلوبہ مقدار میں بجلی پیدا نہیں کی جا سکتی لیکن جب پوری قوم ڈنڈے لے کر سڑکوں پر نکل آئی تو محض چند گھنٹوں میں فالتو بجلی بھی پیدا ہونے لگی ۔ واقفانِ حال چیخ رہے تھے کہ ”رینٹل پاور“ منصوبہ سوئس بنکوںمیں اپنے اکاؤنٹس بڑھانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔۔ان کا حرف حرف سچ ثابت ہوا۔حیرت ہوتی ہے کہ جناب گیلانی نے کمال ڈھٹائی سے یہ کیسے کہہ دیا کہ ہم بجلی کا بحران ختم کر رہے ہیں۔اب نواز لیگ کے پاس سڑکوں پہ آنے کا کیا جواز باقی رہے گا۔PPP کو تو چھوڑئیے کہ اس کی کرپشن کی داستانیں لکھ لکھ کر لکھاری تھک اور سن سن کر کان پک گئے ہیں۔تو پھر کیا ق لیگ کی طرف رجوع کریں جس کا ماضی تو داغدار تھا ہی لیکن حال تو اس سے بھی سوا ہے؟چوہدری برادران نے اپنے وارث کو بچانے کی خاطر اپنے آپ کو ان پستیوں میں گرا لیا ہے جس کا تصّور بھی ممکن نہیں۔ حسن نثار اور نذیر ناجی صاحب نے تو مداحی ، مداہنت اور کاسہ لیسی کی حد کر دی۔ناجی صاحب تو خیر اپنی پرانی ڈگر پرہی چل رہے ہیں کہ اسی فن کی بدولت وہ سموسے پکوڑے بیچتے بیچتے اس مقام تک آ پہنچے لیکن اپنے آپ کو افلاطون سمجھنے والے حسن نثار کے لکھے اور کہے پر کیا اس مداحی کے بعد بھی کوئی ذی ہوش اعتبار کر سکتا ہے ۔؟ کیا وہ”حقیقت“ سے آشنا نہیں؟ کیا چوہدری برادران کا عشق، جنوں کی ساری حدیں پار کر گیا جو بد زبانی کو بے باکی سمجھنے والے حسن نثار نے اپنے قلم کو اتنا آلودہ کر لیا؟۔قوم تو چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کی روح سے سراپا سوال ہے کہ انہوں نے ورات میں قوم کو کیا تحفہ بخشااور حسن نثار سمجھتے ہیں کہ مونس الٰہی نے نانا کی لاج رکھ لی۔ ناجی صاحب نے ظفر قریشی کی شہرت خراب کرنے میں اپنی بھرپور توانائیاں صرف کی ہیں لیکن چاند پہ تھوکا اپنے ہی منہ پر پڑتا ہے۔یہ وہی ظفر قریشی ہیں جن پر چیف جسٹس آف پاکستان نے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا اور قوم کو چیف جسٹس کے کہے پر اعتماد ہے ، قلم فروشوں پر نہیں۔وہ اگر وقتی طور پر غلیظ سیاست کا شکار ہو بھی گئے تو کچھ فرق نہیں پڑتاکہ خلقِ خُدا نے اپنے دل کی کتاب میں مونس الٰہی کے کارناموں کو محفوظ کر لیا ہے۔حسن نثار کہتے ہیں کہ ہماری سیاست کو یہ دلیر ، پر اعتماد نوجوان سیاست دان مبارک ۔ جی ہاں با لکل بجا کہا کیوں کہ ہماری سیاست اب گیلانیوں اور زرداریوں کے سپرد ہے اور واقعی چوہدری اس میں با لکل فٹ بیٹھتے ہیں ۔حسن نثار اور نذیر ناجی نے بار بار شہید نانا (چو ہدری ظہور الٰہی ) کا ذکر کیا ہے۔ذرا ظہور الٰہی پیلس جا کر یہ تو پوچھ لیجئے کہ ”نانا“ کو شہید کس نے کروایا تھا؟اور آج کل یہ دلیر ، پر اعتماد مونس الٰہی کس کا ساتھی ہے؟۔ لگے ہاتھوں نذیر ناجی اگر اپنے مربی و ممدوح جناب زرداری سے بھی پتہ کر لیں کہ ”قاتل لیگ“ کون ہے تو بہتوں کا بھلا ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ظفر قریشی کی ریٹائر منٹ کے بعد مونس الٰہی ”پاکستانی ریمنڈ ڈیوس“ بن چکا تھاجس کی رہائی طے تھی لیکن قوم کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ وہ ظفر قریشی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے بے خبر ہو۔ظفر قریشی نے سپیشل پراسیکیوٹر طلب کیا ، جو نہ مل سکا۔سپریم کورٹ کے وکیل چوہدری طاہر کو یہ ذمہ داری دینے کی استدعا کی لیکن بے کار۔اُس نے ڈی۔جی ایف آئی اے کو گیارہ خط لکھے لیکن کسی ایک کا جواب نہ آیا ۔آفس کے دروازے اس پر بند کئے گئے اور آخر کار اُس نے یہ کہا کہ اگر سپیشل پراسیکیوٹر فراہم نہ کرنے کی بنا پر مونس الٰہی بری ہو گئے تو اس کی تمام تر ذمہ داری سیکرٹری داخلہ اور ڈی۔جی۔ایف۔آئی،اے پر ہو گی۔ پھر وہی ہوا جو ہونا طے تھا کہ اس سے پہلے نیب نے گزشتہ دو سالوں میں NRO کیسزمیں کسے سز ا دلوائی ہے جو مونس الٰہی کو ملتی؟۔

ایم۔کیو۔ایم پر قوم تکیہ نہیں کر سکتی کہ وہ بیچاری تو خود ”بے قائد“ ہے ۔ ایم۔ایم۔اے کوسرحد حکومت دے کر دیکھ چکے اور اے۔این۔پی تو قیامِ پاکستان سے ہی آزمودہ ہے۔رہی عمران خاں کی بات تو ان کا حال بھی ماضی کی طرح کچھ قابلِ ستائش نہیں کہ وہ سبھی سیاسی پارٹیوں کے راندہ و در ماندہ لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں حالانکہ ان کا دعویٰ کچھ اور تھا ۔ان کے مدح خواں ہا رون ا لرشید ( جن کے قلم کی کاٹ سے کوئی بھی محفوظ نہیں) نے میاں اظہر کے تحریکِ انصاف میں شامل ہوتے ہی ان کی قصیدہ گوئی شروع کر دی۔غا لباََ یہ وہی میاں اظہر ہیں جو پرویز مشرف کی تخلیق کردہ ق لیگ کے پہلے صدر تھے ۔کیا ہارون الرشید صاحب یہ بتلانے کی زحمت کریں گے کہ چوہدری برادران کیا دودھ کے دُھلے تھے جن کے ساتھ الحاق کرکے عمران خاں نے لاہور میں نواز لیگ کے خلاف انتخابی میدان سجایا ؟ اور جس اُمید وار کو وہ سامنے لائے اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ انہوںنے 23 اکتوبر کے کالم میں فرمایا ہے” فرید پراچہ نے ساری زندگی جماعت اسلامی کے ساتھ بتا دی لیکن کس چیز کے لئے؟“ عرض ہے کہ فرید پراچہ تو ساری زندگی جماعت میں گزار کر ”پیوستہ رہ شجر سے ، امیدِ بہار رکھ“ کی عملی تصویر بن گئے لیکن ہارون صاحب تو اس عمر تک پہنچنے کے باوجود محض اِدھر اُدھر لڑھکنیاں ہی کھا رہے ہیں یہی حال ان کے ممدوح عمران خاں کا ہے جنہوں نے پرویز مشرف کے جلسوں میں جھنڈے اٹھانے سے لے کر آج تک ہر سیاسی پارٹی کے در پر کم از کم ایک بار ضرور دستک دی ہے۔ آج جس نواز لیگ کے خلاف وہ زہر اُگل رہے ہیں کیا ان کے ساتھ لانگ مارچ کرتے ہوئے انہیں نہیں علم تھا کہ میاں برادران کے اثاثے بیرونی ممالک میں بھی ہیں؟ ۔

حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہارون ا لرشید یہ دعویٰ کس برتے پر کر رہے ہیں کہ عمران خاں 30/40 سیٹیں لے اُڑیں گے ۔کیا پنجاب کی 70% دیہی آبادی میں کوئی کپتان کوجانتا بھی ہے؟۔کیا سندھ کی دیہی اور شہری آبادی میں عمران خاں کا کوئی اثر و رسوخ ہے ؟۔کیا خیبر پختونخواہ میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بھر پور نمائیندگی کے با وجود بھی عمران خاں تنہا پرواز کرکے کسی سیٹ کی توقع رکھتے ہیں ؟۔ بلوچستان میں تو شاید تحریکِ انصاف کا سرے سے وجود ہی نہیں البتہ پنجاب کے بڑے شہروں میں تحریک کا بڑا شور ہے لیکن اس شور میں بھی زیادہ تر حصّہ الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔یہ بجا کہ وہ نواز لیگ کے لئے پنجاب کے بڑے شہروں کی حد تک نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن کوئی سیٹ حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔سوال مگر یہ ہے کہ اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟۔یہ طے ہے کہPPP کا جیالا مرتے دم تک جماعت نہیں چھوڑتا کہ اس کے پاس کوئی متبادل سرے سے موجود ہی نہیں ۔وہ زیادہ سے زیادہ اپنی ناراضگی کا اظہار یوں کرتا ہے کہ ووٹ ڈالنے نکلتا ہی نہیںجب کہ ”دائیں جانب“ کے ووٹروں کے پاس ہمیشہ متبادل موجود ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہم ”پاکستان اسلامک فرنٹ“ کی صورت میں کر چکے ہیں۔موجودہ حالات میں نواز لیگ ، جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف ہی دائیں بازو کی جماعتیں ہیں جن کا انتخابی الحاق نہ ہونے کی صورت میں فائدہ صرف PPP کو ہی پہنچ سکتا ہے ۔اب یہ سوچنا تحریکِ انصاف کا کام ہے کہ اس کا یہ سارا ہنگامہ کس کو بر سرِ اقتدار لانے کے لئے ہے ۔تحریکِ انصاف کو یا پی۔پی۔پی کو؟۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مجھے تو عمران خاں کے روپ میں پاکستانی سیاست کا دوسرا اصغر خاں نظرآرہا ہے ۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ”کل جُگ “ہے، ”ست جُگ“ نہیں۔ اس قحط ا لرجال میں قائدِ اعظم ، اقبال اور لیاقت علی خاں کی تلاش محض حماقت ہے ۔اس لئے ”موجودہ قیادت “ میں سے ہی نسبتاََ بہتر پہ ٹھہرنا ہو گا ۔میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ اپنی تمام تر شخصی اور سیاسی خامیوں کے باوجود میاں برادران میں اب بھی ”پاکستانیت “ کی مہک موجود ہے ۔بس یہی ایک مثبت پہلوہے جو سب پر بھاری بھی ہے۔گزشتہ دنوں پی۔پی۔پی کے شرجیل میمن صاحب ایک معروف چینل کے ٹاک شو میں بدنامِ زمانہ اور شرمناک NRO کی حمایت میں اپنی بھر پور توانایاں صرف کرتے ہوئے میاں برادران کے ملک سے بھاگ جانے کا ذکر کر رہے تھے ۔ بصد ادب گزارش ہے کہ یہ الزام تو اور بھی بہت سے لوگوں کے سر آتا ہے ۔میاں برادران نے توانتہائی نامساعد حالات میں سعودی شاہ کے اصرار اور بڑے میاں صاحب کے حکم پر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ میاں شہباز شریف تو آخری لمحے تک ملک چھوڑنے کو تیار نہیں تھے اور میاں نواز شریف نے بھی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے سے صاف انکار کر دیا پھر میاں نواز شریف کے اس جملے کی کاٹ کو بھی مدِّ نظر رکھنا ہو گا جو انہوں نے بظاہر ہنستے ،بباطن روتے ہوئے کہا تھا کہ ”لوگ کہتے تھے قدم بڑھاؤ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی نہ تھا“۔ لیکن بے نظیر شہید تو نواز شریف کے دور میں خود ملک سے باہر گئیں اور پھر این۔آر۔او کی چھتری کے بغیر واپس نہ آئیں۔ان کی خود ساختہ جلا وطنی کا زمانہ تو شریف برادران سے کہیں زیادہ ہے ۔پرویز مشرف نے پوری قطعیت سے یہ کہا تھا کہ وہ آصف زرداری کو کسی صورت میں رہا نہیں کریں گے مگر پھر ڈیل بھی ہوئی ، زرداری رہا بھی ہوئے اور ملک سے باہربھیج بھی دئیے گئے ۔ایم۔کیو۔ایم کس منہ سے میاں برادران کو بھگوڑا کہہ سکتی ہے جبکہ ان کے قائد 1992 ءمیں رات کے اندھیرے میں فرار ہوئے اور ابھی تک اتنے خوف زدہ ہیں کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔اے۔این۔پی کے بھگوڑوں کی افغانستان بھاگنے کی طویل تاریخ ہے ۔ کسی نے خود ملک چھوڑا اور کسی سے چھڑوایا گیاتو پھر طعن و تشنیع کے لئے صرف میاں برادران ہی کیوں؟
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642515 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More