بلوچستان کا مقدمہ

تسلیم شد کہ اس وقت وطن عزیز کو گو نا گوں اور ہمہ جہت مسائل ، مشکلات اور چیلنجز کاسامنا ہے تاہم نہ جانے کیوں میرا قلم ابھی تک ڈرونز حملوں ، لاپتہ افراد اور بلوچستان میں جاری آزادی کی لہر کے صدمے سے باہر نہیں نکل پایا ۔ میں جب بھی قلم اٹھاتا ہوں اور کچھ لکھنے کی سعی کرتا ہوں تو یہ مندرجہ بالا تینوں ایشوز میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گویا میرے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہوتے ہیں ۔ آج ہی ایک خبر قومی اخبارات میں جلی حروف میں چھپی ہے کہ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جلیل ریکی جو گزشتہ اڑھائی سے لاپتہ تھے ان کی مسخ شدہ لاش بلوچستان کے کسی ویرانے سے ملی ہے اسی خبر کے نیچے چوکھٹے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کا بیان بھی اپنے اندر گہرا دکھ ، کرب اور کسمساہٹ لیے ہوئے ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے عافیہ پر ہونے والے ظلم پر کیوں خاموش ہیں ؟ اگر اوبامہ کی بیٹی قید میں ہوتی تو کیا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاتا؟ فوزیہ صدیقی کے مطابق تو ڈاکٹر عافیہ پر امریکی جیل کارزیل میں انسانیت سوز تشددکیا جا رہاہے اور اس کے لیے ہر دن ”قیامت “کادن ہوتا ہے ۔ مسلم امہ کی یہ بیٹی آج یقینا پھر کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہے اورتاریخ کے اس روشن کردار کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کی نظریں پاکستان کے حکمرانوں اور قوم پر آکر رک جاتی ہیں جس پرمسلسل بے حسی کی ایک دبیز تہہ چھائی ہوئی ہے اور یہ قوم اس درجہ بے حس ہو چکی ہے کہ بڑے سے بڑا حادثہ یا سانحہ عظیم بھی اس کے ضمیر کو بیدار کرنے میں ناکام رہتا ہے ،بقول پروفیسر عنایت علی
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

ہم اپنی اسلامی ، معاشرتی اور سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے ان سے چشم پوشی اور راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھنے لگے ہیں مگر یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے یا پھر شتر مرغ کا اپنی گردن ریت میں دھنسالینے سے بھلا خطرات اور افتاد کہاں ٹل سکتی ہیں ؟، خطرات اور نامساعد حالات سے محض مصمم ارادوں اور جذبوں سے ہی نبرد آزما ہو ا جا سکتا ہے اور مشکلات و حالات کی کٹھنائیوں سے خلاصی پائی جا سکتی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ اس دھرتی کے شہری کلیجہ چیر دینے والے مناظر کودیکھ کر زندہ رہنے پر مجبور ہیں اور ہر آنے والا دن ان کے لیے بری سے بری خبر لے کر آتا ہے ، یاس اور ناامیدی کے سائے ہیں کہ گہرے ہی ہوتے جارہے ہیں ۔تاریخ کے بد ترین آمر ، ننگ دین ، ننگ وطن پرویز مشرف کے سیاہ دور سے یوں تو ہمیں بے شمار مسائل ودیعت ہوئے ہیں تاہم لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک ایسا معاملہ جو جوں کا توں موجود ہے اور اب بالخصوص بلوچستان سے نوجوانوں کو اغوا ءکے بعد قتل کر کے ان کی سر بریدہ لاشیں صوبے کے طول و عرض میں پھینک کر دھرتی پر خوف اور ہراس کی بد ترین فضاءپیدا کی جار ہی ہے ، ان کٹی پھٹی لاشوں اور خون آلود چہروں کے پس منظر سے سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو بلوچ قوم پرستوں کو گھروں ، دفترو ں اور کالج و یونیورسٹیز سے اٹھا کر ان کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں ، پہلے تو عام تاثر یہی پایا جاتا تھا کہ یہ خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے اب اس سوچ کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ پاکستان کی نہیں درحقیقت پڑوسی ملک اور انڈیا ، اسرائیل کے خفیہ ہاتھوں کا کیا کیا دھرا ہے اور اس انتہائی اقدام سے یہ قوتیں بلوچوں کو مرکز سے دور کر کے ان میں بغاوت کی روح پھونک رہی ہیں ، حال ہی میں آئی جی ایف سی نے بھی کہا ہے کہ ہمیں خطے میں بیرونی مداخلت کے ٹھوس شواہد ملے ہیں مگر اس ایشوپر عالمی فورم پر بات اٹھانا موجودہ سیاسی حکومت کا کام ہے ، فوج یا سیکیورٹی فورسز کا کام مذاکرات کرنا نہیں Fight کرنا ہوتا ہے ،آئی جی ایف سی کے اس دعوے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ”اسلام آباد“ بلوچوں کے تلخ مسائل ، ان کے قتل عام ، لاپتہ بلوچوں کی بازیابی ایسے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور دارالحکومت کے پنج تارہ اور میریٹ ہوٹلوں میں عیش و طرب کے مزے لوٹنے والے ”عوامی نمائندوں“ کو کوہلو، خاران ، ڈیرہ بگٹی اور دشت کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ۔بلوچستان کی مخدوش اور شکستہ تر ہوتی صورتحال بلاشبہ موجودہ حکومت کی نااہلی اور ژولیدہ فکری کا مظہر ہے ۔ ریلوے ، واپڈا، پی آئی اے کو ایک منظم پلاننگ کے ساتھ تباہ کر کے موجودہ حکومت بلوچستان پر اسی نوعیت کا” کاری وار“ کر کے اس سے بھی ہمیشہ کے لیے ”نجات “حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہے کیونکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری اور بقول صحافی دوست منصور اصغر راجہ کے، نہ بلوچستان بچے گا نہ ہی اس کی ”سر دَردَی“ رہے گی ، اللہ اللہ خیر صلا۔٭٭٭٭٭
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 36987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.