بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(2دسمبرعالمی یوم تنسیخ غلامی کے موقع پر خصوصی تحریر)
ایک طویل زمانے سے غلامی کے مہیب سائے انسان کے ساتھ لگے ہیں،انسانی تہذیب
عروج سے جانب زوال ہو ےا زوال سے عروج کی طرف گامزن ہو،غلامی ہمیشہ اسکے ہم
رکاب رہی ہے۔کیسی ہی تہذیب ہو اور کسی بھی نوعیت کا تمدن ہو طوق انسان کے
گلے کا زیور ،ہتھکڑےاں انسانی کلائیوں کی تقدیراور بیڑیاں بنی آدم کے قدموں
کامقدر رہے ہیں۔اگرچہ جانوروں کو بھی اسی طرح ہانکا جاتا ہے لیکن انکی نکیل
کسی اور نوع کے ہاتھ نے تھامی ہوتی ہے لیکن یہ منظر آسمان ہمیشہ سے دیکھتا
رہا ہے کہ انسان کے گلے میں بندھی رسی کا دوسرا سرا کسی انسان ہی کے ہاتھ
میں رہااور اسکی بولی لگانے والے انسان ہی تھے اور انسانی آقاؤں کی نسلوں
کے ساتھ انکے غلام بھی غلام ابن غلام ہی بنتے رہے۔
رومی تہذیب نے دنیا کی تاریخ میں ایک نام پیداکیا ہے ،آج تک اسکی باقےات پر
تحقیقات و تدریسات جاری ہیں لیکن غلامی کے میدان میں رومی تہذیب بھی ننگ
انسانیت ہے جب کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت روم میں غلاموں کو کئی
کئی دنوں کے بھوکے بھیڑیوں اوردیگر درندوں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور
پھر اس غلام کے چیرپھاڑ کا تماشا کرتے ہوئے شرابوں کے گلچھڑے اڑائے جاتے
اور نظارہ کرنے والے کہتے کہ آج تو بڑا ہی مزا آیا ہے۔اس سے بڑھ کر یہ کہ
غلاموں کے دو گروہوں کو چھریاں ،بھالے،تلواریں اور تیر و نیزے پکڑا کر ایک
سیٹی بجانے والا منہ میں انگلیاں ڈال کر سیٹی بجاتا اور انسانوں کے یہ دو
گروہ باہم دست و گریبان ہو جاتے ایک دوسرے کو چیرتے،پھاڑے،ہتھیاروں سے زخمی
کرتے ،لہولہان کرتے اور جب یہ اندوہناک خون آشام کھیل ختم ہوتا تو تو گویا
آقاؤں کی صفت تفریح کو آسودگی حاصل ہو چکتی۔غلاموں کی منڈیاں لگائی
جاتیں،انکی صحت اور فن کے حساب سے انکی قیمت متعین ہوتی،لونڈیوں کی قیمت
انکے حسن و جمال اور شباب و نسوانیت کے مطابق ہوتی اور ایک بار جو غلامی کی
گرداب میں آن پھنستاا پھر نسلوں تک اسکی خلاصی ممکن نہ تھی۔بازار میں بک
گئے تو دوسرا آقاگلے میں رسی ڈال کر چلتا بنا اور جب وہ راہی ملک عدم ہوا
تو اسکی اولاد نے اس انسانی متاع کو بطور وراثت بانٹ لیا۔غلاموں سے جو چاہا
کام لیا،جو چاہا سلوک کیا،جیسے چاہا ان پر تشدد کیا اس وقت کا کوئی قانون
آقاکو کسی ضابطے کا پابند نہ بناتا تھا۔غلام کی جان ،مال،عزت اور آبرو کچھ
بھی اسکااپنا نہ تھاحتی کہ اسکی اولاد اور اسکے ایمان کا مالک بھی اسکا آقا
ہی تھا جس کی مرضی کے بغیر وہ اپنے عقائد بھی تبدیل کرنے کا مجاز نہ تھا۔
لونڈیوں کی حالت اس سے بھی بدتر تھی،جوانی میں انکی کمائی کھائی جاتی۔انکی
نسوانیت کو نوچا جاتا، انسانی درندے انکو بھنبھوڑتے،جھنجھوڑتے اور اور
حیوانی تسکین کا سامان کرتے اور اسکے عوض ملنے والی اسکی اولاد کو
اسکاآقااپنی ملکیت میں شامل کر کے تو منڈی میں اسکا بھاؤ لگا کراس لونڈی کو
مامتاتک سے محروم کر دیتا،گویا یہ انسانوں کی منڈیاں نہیں بلکہ انسانیت کی
منڈیاں تھیں اور خریدو فروخت کرنے والے انسانوں کے بھیس میں درندوں سے
چارقدم آگے نکلے ہوئے وحشت و بربریت سے عبارت مکروہ کردار تھے کہ
جنہیںتاریخ نے بادل نخواستہ اپنے صفحات میں محفوظ کیا ہے۔یہ عجائبات تاریخ
میں سے ہے کہ جب کبھی کسی قوم کے پاس غلاموں کی تعداد کسی وجہ سے کم پڑ
جاتی تو وہ غلاموں کی تلاش میں دوسری اقوام پر دھاوا بول دیتی۔بغیر کسی وجہ
کہ یہ چڑھائی لازمی طور پر کسی کمزور قوم پر کی جاتی اور پھر انکے قبائل کو
رسیوں میں باندھ کرہانکتے پکارتے ہوئے ان آزاد لوگوں کو غلامی کے اندھیر
غار میں صدیوں تک دھکیل دیا جاتا۔انکی تقسیم اس طر ح عمل میں آتی کہ
خوبصورت عورتیں اور صحت مند نوجوانوں کو فاتحین کے سرداران آپس میں بانٹ
لیتے اور بچا کھچا مال لشکریوں کے حصے میں آتا۔گویا جس طرح ایک درندہ کسی
جانور کا شکار کر کے تو بہترین گوشت کھا لیتا ہے اور باقی ماندہ جنگل کے
کمزور جانور وں کے حصے میں آجاتا ہے۔
غلامی کا یہ عمل اس قدر وسعت پزیر تھا دورقدیم میں غلامی کو ایک معاشی ستون
کی اہمیت حاصل ہوچکی تھی۔جس قوم کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے اسکی فصلیں
اتنی ہی سرسبزوشاداب اور انکا رقبہ اتنا ہی زیادہ وسیع ہوتا۔صحت مند غلاموں
کی حامل قوموں کا مال دوردراز کی منڈیوں میں بکتا اور وہ خوب خوب منافع
کماتی تھیں۔صنعت کے میدان میں بھی آج قدیم تاریخی عمارات جن کا تعلق مشرق
سے ہے یا مغرب سے سب کی سب غلاموں کے ہاتھوں سے تعمیر شدہ ہیں اور اسی طرح
دفاع کا شعبہ بھی مضبوط غلاموں کا مرہون منت تھا،بڑی اور طاقتور فوج تعداد
میں زیادہ اور جسم میں مضبوط غلاموں پر منحصر تھی اور ظاہر ہے دنیا تو طاقت
کی زبان سمجھتی ہے زیادہ غلاموں والے دنیا کے اقتدارواختیار اورخزانوں کے
مالک بنتے۔
یہ صورتحال اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری وساری تھی کہ جب طلوع اسلام کا وقت
آن پہنچا۔رحمة اللعالمین ﷺ نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آقاؤں کے لیے
قوانین جاری کیے اور انہیں نافذ کیا۔محسن انسانیت نے پسند فرمایا کہ کثرت
سے غلاموں کو آزاد کیا جائے۔چنانچہ شریعت نے ہر غلطی کے ازالے کے لیے جسے
اصطلاح میں ”کفارہ“کہا جاتا ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی قانون سازی کی
۔چنانچہ حکم دیا کہ قسم توڑنے پر غلام آزاد کرو،بیوی کے ساتھ ظہار کیا ہے
تو غلام آزاد کرو ،روزہ توڑ دیا ہے تو غلام آزد کرو اور قرآن نے اﷲ تعالٰی
کی محبت میں غلاموں کی آزادی کادرس دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت عثمان
بن عفان ؒجب محسن انسانیت ﷺ کو اپنے گھر بلاتے توقدم مبارک گنا کرتے
تھے،استفسار پر عرض کرتے کہ اتنے غلام آزدکروں گا۔گویا ایک مقابلہ شروع ہو
گیا کہ کون زیادہ غلاموں کو آزاد کر کے تو اﷲ تعالٰی اور اسکے رسول ﷺ کا
قرب حاصل کرتا ہے۔آقاسے اولادوالی لونڈی کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی اور
ایسی لونڈی کے وراثت میں اجراکو بھی قانوناََممنوع قرار دے دیا گیا،چنانچہ
محسن نسوانیت ﷺ کے حکم کے مطابق اولاد والی لونڈی آقا کے مرنے کے بعد خود
بخود سے آزاد ہوجاتی ہے۔تاریخ انسانی میں سب سے پہلے یہ قانون جاری کیا کہ
جو غلام اپنے آقا کو اپنی قیمت ادا کر دے وہ آزاد تصور ہو گاایسے غلام
”مکاتب“کانام دیا گیا۔خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس قانون
کو نہ صرف یہ کہ بزورریاست جاری کیا بلکہ بیت المال سے ایسے غلاموں کی مالی
اعانت بھی کی تاکہ وہ اپنے آقا کو ایک معقول رقم دے کر آزادی حاصل کر
سکیں۔غلاموں کے حقوق مقرر کیے ،انکے قیام و طعام اور نان نفقہ کی ذمہ
داریوں کا تعین کیا۔جو غلام گلیوں میں بھیک مانگتاہوااور کسمپرسی کی حالت
میں ملتا حضرت عمرؒ اسکے آقا کو بلوا کر اسکی سرزنش کرتے اور حکم دیتے کہ
اسکے حقوق ادا کرو یا پھر اسے آزاد کرو۔لوگ حیران ہوتے تھے کہ حضرت علی کرم
اﷲ وجہ نے اور انکے غلام نے ایک قسم کا لباس زیب تن کیا ہوتا،حضرت جس تھان
سے اپنے لیے کپڑا کٹواتے غلام کے لیے بھی اسی تھان سے کپڑا خریدتے
تھے۔اسلامی تاریخ میں ایک طویل فہرست ہے ان غلاموں کی جنہوں نے علم وادب
اورسیاست میں نام پیدا کیا۔
یہ اسلامی نظام کے انسانی اثرات تھے کہ ہندوستان میں غلاموں کے ایک
خاندان”خاندان غلاماں“ اور مصر میں اسی طرح کے ”خاندان مملوک“نے حکومت کی
۔گویا ماضی میں اپنے بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم غلاموں کے طبقے میں
اسلامی تعلیمات نے اس قدر اعتماد پیدا کیا کہ وہ مسند اقتدار تک آن
پہنچے۔خاندان غلاماں ہندوستان میں ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اسکا بیٹا یا
کوئی اور رشتہ دار تخت نشین نہ ہوتا بلکہ عمائدین سلطنت مل بیٹھتے اور کسی
اہل اور قابل تر فرد کو یہ باگ سونپی جاتی۔خاندان غلاماں کے بادشاہوں کے
تاریخ ساز واقعات آج تک زبان زدعام و خاص ہیں۔اسلام پوری دنیا میں
پہنچا،کسی نے قبول کیا اور کسی نے نہ کیا۔پوری دنیا میں قرآن و حدیث کی
عربی گئی لیکن عربی غلامی نے کسی جگہ اپنا مقام نہ پایا۔مفتوح اقوام اگرچہ
آقاؤں کا بھیس پسند کرتی ہیں لیکن دورفاروقی میں جب اہل ایران نے عربی زبان
اور عربی لباس کو رواج دینا شروع کیا تو حضرت عمر ؒنے سختی سے منع کر
دیا۔چنانچہ اسلامی تعلیمات پوری دنیا اور اس کرہ ارض کے ہر خطے اور سمندر
کے ہر جزیرے میں پہنچیں لیکن عربی تہذیب و تمدن کو کہیں جگہ نہ ملی سوائے
جزیرة العرب کے۔آج بھی تعلیمات اسلامیہ کے ماہرین اپنا مقامی لباس زیب تن
کرتے ہیں اور علاقائی ومعاشرتی شعائرکے تحت زندگی گزارتے ہیں۔
مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزار سال تک اس دنیا میں مشرق سے مغرب تک حکومت
کی اس دوران غلامی کی زنجیریں کٹتی چلی گئیں اور اگر کہیں کٹ نہ سکیں تو اس
قدر ڈھیلی پڑ گئیں کہ آقا اور غلام ایک ہی صف میں نظر آنے لگے گویا آقا اور
غلام کے معنی ہی بدل گئے۔ان ایک ہزار سالوں میں بڑی قوموں نے چھوٹی قوموں
پر خواہ وہ غیر مذہب سے ہی متعلق تھیں اپنا ناجائز تسلط نہیں جمایا،انہیں
اپنا غلام نہیں بنایا،اپنی تہذیب و ثقافت ان پر مسلط نہیں کی،انہیں اپنا
تعلیمی و تکنیکی محتاج نہیں کیا،انہیں اپنے حق دفاع سے محروم نہیں کیا۔ان
ایک ہزار سالوں میں کوئی جنگ عظیم نہیں ہوئی،باپ کے مرنے کے بعد پرامن
انتقال اقتدارہوتا اور اگلا بادشاہ تخت نشین ہو جاتا،کبھی انقلاب آئے بھی
تو دو خاندانوں کے درمیان چند سوانسانوں کی قربانی سے راستہ صاف ہو گیا،اس
دور کی تاریخ لاکھوں شہریوں کی قتل سے آنے والے کسی انقلاب سے خالی ہے۔ایک
ہزار سالہ دور میں مقتدر مسلمان اقوام نے محکوم اقوام کے محروم طبقات کو
حقوق کے نام باہم نہیں لڑایا،کمرشل ازم کے نام پر نوخیزبچیوں کی مسکراہٹ کو
اپنے کاروبار کی وسعت کاذریعہ نہیں بنایا،عورتوں کے حقوق کے نام پر انکی
شرم انگیزآزادی سے آلودہ معاشرہ اس دورانیے میں کہیں نظر نہیں آتااور نہ ہی
جانوروں،پرندوں،چوپاؤں اور درختوں تک کی افزائش نسل کرنے والا انسان اس
پورے دور میں کہیں اپنی ہی نسل سے بیزار نظر آتا ہے۔
کم و بیش گزشتہ تین سو سالوں سے مسلمانوں کے رو بہ زوال ہونے سے مغربی
تہذیب نے دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں۔آج تین صدیوں کے بعد دنیا میں
دیکھنے سے یہ واضع طور پر محسوس ہوتا ہے کہ گویا زمانہ قدیم کی غلامی ایک
بار پھر اپنے نئے رنگ و روپ کے ساتھ آن موجود ہوئی ہے ۔فرق صرف ایک ہے ماضی
کے غلام احساس غلامی سے عاری نہ تھے اور اپنے آپ کو غلام سمجھتے تھے لیکن
آج اس یورپی تہذیب کے غلام اس قدر غلامی میں ڈوب چکے ہیں کہ گویا غلامی کو
غلامی ہی نہیں سمجھتے۔”گلوبل ویلج“ دراصل گلوبل غلامی کا دوسرا نام ہے۔یورپ
نے پوری دنیا سے اسکا لباس چھین لیا ہے،پوری دنیا سے اسکی مقامی زبان چھین
لی ہے،پوری دنیا سے انکا مقامی تمدن اور علاقائی تہذیب چھین لی ہے۔آج ٹیلی
ویژن چینل کے کیمرے ڈھونڈتے اور تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ کہیں کوئی پرانی
تہذیب کے آثار ملیں اور اسے وہ قیمتی اثاثہ بنا کر تو پوری دنیا کو دکھائیں
گوےا ایک تہذیبی و ثقافتی غلامی ہے جس کے مظاہر پوری دنیا میں نظر آتے
ہیں۔اہل مغرب صرف اسی انسان کو مہذب مانتے ہیں جو انکا لباس پہنے اور انکی
زبان میں بات کرے،ٹوپی،پگڑی،لاچہ کھلی سلوارقمیص ےاکوئی علاقائی و مقامی
لباس انکے لیے غیر مہذب لوگوں کا لباس ہے۔
تعلیمی غلامی اس یورپ کا ایک اور شاخسانہ ہے،آج آزاد ممالک زیرعتاب ہیں کہ
صرف ایسا نصاب پڑھایا جائے جو نوجوان کومغرب کا ذہنی غلام بنائے،ایسا نصاب
تعلیم جو علاقائی،مقامی یا مذہبی بیداری کا سبب بنے انکے لیے ناقابل قبول
ہے۔ماضی کے حکمران آہنی یلغار سے دوسری اقوام میں سے اپنے غلام تلاش کرتی
تھیں آج تعلیمی اور تدریسی یلغار سے غلام تیار کیے جاتے ہیں۔آفرین ہے کہ
قرآن و حدیث پوری دنیا میں گئے لیکن عربی تہذیب نہیں پہنچی لیکن مقام فکر
ہے کہ انگریزی تعلیم نے معیار تعلیم تو کتنا دیا ؟؟یہ نوشتہ دیوار ہے
جوچاہے پڑھ لے لیکن غلامی کے شعائربدرجہ اتم منتقل کئے۔آج منہ ٹیڑھا کر کے
انگریزی بولنا اورانگریزی لباس پہننا ہی گویا پڑھے لکھے ہو نے کی علامت
ہے۔ماضی میں جس طرح معاشی نظام کاایک بہت بڑاعنصر غلامی تھی،آج بھی بڑے بڑے
عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے مغرب نے پوری دنیا کو اپنا معاشی غلام بنا
رکھا ہے،دنیاکی کوئی قوم سود سے آزاد نہیں ہے اورقرضوں کے بوجھ تلے دبی
ہوئی سسکتی انسانیت مجبور ہے کہ اس معاشی غلامی کے طوق اپنی اور اپنی نسلوں
کی گردنوں میں ڈالتی چلی جائے کہ اس کے سوا بالکل ماضی کی مانند کوئی راستہ
ہی نہیں ہے۔ماضی میں صرف افراد کو ہتھیا کر اپنی منڈی لے جاکر فروخت کردیتے
تھے آج کامغرب دیگرممالک کے جنگلات،انکی فصلیں اور بیمہ نام پر انکی
زندگےاں تک اپنے نام کر کے انہیں انکی ملکیت سے محروم کر چکا ہے۔
ماضی میں جس طرح غلاموں کو حق دفاع حاصل نہیں تھا آج کا مغرب بھی چھوٹی
قوموں کو انکے اس پیدائشی حق سے محروم کرتا چلا جا رہاہے۔خود ایٹم بم
برسانے والے دوسروں سے کہتے ہیں ہیں تم چونکہ اسکاغلط استعمال کرو گے اس
لیے اسے ترک کر دو،خود دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھنے والے دوسروں سے کہتے
ہیں کہ اپنی فوج کی تعداد کم کرو،خود دنیا کا تباہ کن ترین اسلحہ رکھنے
والے دوسروں سے کہتے ہیں کہ تمہیں اسکا حق حاصل نہیں ہے،کیمیائی ہتھیاروں
کے موجددوسری قوموں پر اس لیے چڑھ دوڑتے ہیں کہ شاید ان کے پاس ایسے ہتھیار
موجود ہوں اور کیا آسمان نے ایسا وقت بھی کبھی دیکھا ہو گا کہ ہزاروں میل
دور دوسرے ملکوں میں شہروں کو ادھیڑنے والے اور دریاؤں میں پانی کی بجائے
انسانی خون بہانے والے امن پسند ہیں اور اپنے ہی ملک ،قوم،علاقہ اور ایمان
کا دفاع کرنے والے دہشت گرد ہیں۔
ماضی کی غلامی اس لحاظ سے شاید بہتر تھی غداروں کی پرورش تو نہ کرتی تھی،آج
کا مغرب قوموں میں سے چن چن کر غدار تلاش کرتا ہے انہیں دھونس،دھاندلی اور
لالچ سے استعمال کرتا ہے اور پھر ٹشو پیپر کی مانندانہیں کوڑے کے ڈھیر میں
پھینک دیتا ہے۔ماضی کی غلامی نے جنسیت کی خاطر عورت کو اسکی مامتا سے محروم
کیا تھاآج کا مغرب اس سے ہزار گنا زیادہ ننگ مامتا ہے۔انسانیت کا راگ
الاپتی اس تہذیب نے انسان پر انسان کے بچے کو بوجھ بنا دیا ہے،عورت کو
آزادی اورحقوق کے نام پر اسکی ذمہ داریوں میں تخفیف تو نہیں کی البتہ اسکے
ذمہ مردوں والے کام لگا کر اسکا فطری جوہر خاص اسکی نسوانیت سے اسے محروم
کر دیا ہے۔ہیرے موتیوں جیسی نوخیزخوبصورت اور زمانے کی فریب کاریوں سے
نابلد بچیاں فیکٹری پروڈکٹس اٹھائے گھرگھربیچتی ہیں یا ساراسارادن دفتر میں
گزارنے کے باوجود بغل میں فائلوں کا ڈھیردبائے اسٹاپ پرشام کے وقت میں
گھرجانے کے لیے ویگن کا انتظار کرتی ہیں۔زندگی کے جس بہترین وقت پر ان کی
اگلی نسل ،انکے شوہراورانکے خاندان کا حق تھا اس مغرب نے کمال چابکدستی سے
دوہری تلوار کے ذریعے عورت،مامتا،نسل اور خاندان سب کو سود کی ادائیگی کا
ایندھن بناکر تومعیارزندگی کی بڑھوتری کے دہکتے تنور میں جھونک دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو فرد کی حد تک محدود کر کے اسکے اختتام کی
جانب گامزن کر دیا تھااور یہ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورکانتیجہ تھا کہ
انسانیت مجبور ہوئی کہ جینوا ایکارڈ کے ذریعے انسانوں کی خریدوفروخت پر
پابندی لگائی جائے لیکن ننگ انسانیت تہذیب نو نے جمہوریت کے نام پر افراد
کو آزادی کا جھانسہ دے کر تو پوری کی پوری اقوام کو اپنا غلام بنالیا
ہے،انکی فکر،انکے مادی و انسانی وسائل اور انکا عقیدہ و ایمان بھی اب اس
نئے فریب آزادی میں لپٹے ہوئے دور غلامی سے محفوظ نہیں۔اس نیلی چھت کے نیچے
اور اس زمین کے سینے پر صرف ایک دستاویزہی انسانوں کو انکے حقیقی حقوق عطا
کر سکتی ہے اور وہ خاتم النبیین،رحمةاللعالین محسن انسانیت ،داورمحشر،امام
الانبیاﷺ کا خطبہ حجة الوداع ہے۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف |