عشرت جہاں قتل کیس
ہائی کورٹ کی زیرنگرانی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے اب یہ تصدیق کردی
ہے کہ گجرات پولیس کا یہ دعوا جھوٹا ہے کہ خالصہ کالج ممبئی کی ذہین طالبہ
عشرت جہاں کی موت کسی مڈبھیڑ میں ہوئی تھی اوراس کا تعلق کسی دہشت گرد گروہ
سے تھا۔بہار کیڈر کے آئی پی ایس افسرآر آر ورما کی سربراہی میں تشکیل شدہ
اس ٹیم میں دو آئی پی ایس افسران موہن جھا اور ستیش ورما گجرات کیڈر کے ہی
تھے ۔ٹیم نے متفقہ رپورٹ میں یہ تصدیق کردی کہ 19سالہ عشرت اور اس کے ساتھ
تین دیگر افراد کو کرائم برانچ نے مختلف اوقات میں کہیں اورقتل کیا تھا
اوران کی لاشیں کوٹارپور واٹر ورکس کے پاس ایرپورٹ روڈ پرڈال کر یہ جھوٹا
دعوا کیا تھا کہ یہ سب دہشت گرد تھے اورنریندر مودی کے قتل کے ارادے سے
احمدآباد آئے تھے۔ سابق داخلہ سیکریٹری جی کے پلّئی کے اس بیان پر کہ ایس
آئی ٹی نے انکاﺅنٹر کو فرضی قراردیا ہے۔اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا عشرت اور
دیگر مقتولین کا’ حوجی‘ سے تعلق نہیں تھا اور یہ کہ عشرت بڑ ے ہوٹلوں میں
جاتی تھی۔ پلّئی کے اس بیان پر سخت رد عمل ہوا ہے، حتیٰ کہ گجرات ہائی کورٹ
نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے ۔ عشرت کا تعلق دہشت گرد گروہ سے ہونے کا کوئی
ثبوت نہیں ہے۔گجرات پولیس نے ایف آئی آر میں اعتراف کیا ہے اس کو جب گولی
ماری گئی تو پولیس کو اس کے نام اور پتہ کا علم نہیں تھا۔جس کا کچھ نام و
نشان پولیس کو معلوم نہیں تھا اس کا دہشت گرد ہونا کیسے معلوم ہوگیا؟ لگتا
ہے کہ سابق سینئر افسر نے ، جو ذہنی اعتبار سے سنگھ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے
معلوم دیتے ہیں،قتل کی اس گھناﺅنی واردات کو جواز عطا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پولیس عملے کی سفاکی اور لاقانونیت کو کس طرح اعلا
ترین سطح پر جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہرچند کہ ایس آئی ٹی کی پوری رپورٹ ابھی منظرعام پر نہیں آئی ہے البتہ اس
سے جوڈیشیل مجسٹریٹ ای پی تمانگ کی جانچ رپورٹ کی توثیق ہوگئی ہے جو انہوں
نے7 ستمبر2009 میں احمدآباد کی جوڈیشیل عدالت میں داخل کی تھی اور جس پر
بھاجپا نے ہنگامہ برپا کردیا تھا ۔ ایس آئی ٹی رپورٹ ملنے کے بعد جسٹس جینت
پٹیل اور جسٹس ابھیلاشا کماری پر مشتمل ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے
تعزیرات ہند کی دفعہ 302کے تحت تازہ ایف آئی درج کرنے حکم دیا ہے، چنانچہ
قانون کی نظر میں اب یہ واردات ’انکاﺅنٹر‘ کی نہیںرہ گئی۔ اب اس کی نوعیت
اغوا ، حبس بیجا، قتل کی سازش، اختیارات کے بیجا استعمال اورارادتاًقتل کے
سنگین جرم کی ہوگئی ہے،جس میں ملزم گجرات پولیس کے چار آئی پی ایس افسران
سمیت کم از کم 21 اہلکار ہیں۔یہ رپورٹیں اس اعتبار سے ادھوری ہیں کہ ان سے
صرف یہ طے ہوا ہے کہ انکاﺅنڑکی کہانی جھوٹی ہے۔چنانچہ عدالت نے بجاطور پر
مزید تفتیش کرانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ امید ہے کہ یکم دسمبر کو عدالت یہ
فیصلہ صادر کردیگی کی جانچ کس سے کرائی جائیگی؟ ملزمان پر مقدمہ چلانے
کےلئے مزید تفتیش طلب سوال کئی ہیں۔ مثلاًمقتولین کو پولیس نے کب کب اور
کہاںکہاں سے اٹھایا،کہاں کہاں چھپا یا اور کس کا خون کہاں لیجاکر کس طرح
کیا؟ کس نے حکم دیا اور کس نے ان پر گولی چلائی؟ ان لاشوں کو کس طرح اورکون
اٹھاکر وہاں لایا جہاں ان کا انکاﺅنٹر دکھایا گیا ہے؟ وہ کار کس کی تھی جو
اس جرم کی پردہ پوشی کےلئے استعمال ہوئی؟دومقتولین عشرت جہاں اور پرنیش
پلائی عرف جاوید شیخ کی شناخت تو آزاد زرائع سے ہوگئی، مگر دیگر دو افراد،
جن کو پاکستانی بتایا گیا، کون تھے؟ پولیس کے ہتھے کس طرح چڑھے؟ ان کے جو
نام وپتے ایف آئی آر میں لکھے گئے ان کی صداقت کیا ہے؟ یہ نام اور پتے ان
کے مرتے ہی کیسے معلوم ہوگئے؟یہ کیسا عجوبہ ہے کہ کشمیر سے کنیا کماری تک
جیسے ہی کسی ’درانداز‘ ’دہشت گرد‘ یا ’جرائم پیشہ‘ کو گولی ماردی جاتی ہے،
اس کا نام ، پتہ ، آنے جانے کے راستے اور کب ،کس سے کہاں کیاتربیت لی وغیرہ
ساری لائف ہسٹری چشم زدن میںپولیس کے علم میںآجاتی ہے؟ شاید لاشیں خودبولنے
لگتی ہیں۔ بہرحال بظاہر ان دو افراد کا عشرت اورجاوید سے کوئی تعلق نظر
نہیں آتا۔ان میں سے کسی کے دہشت گردی میں ملوّث ہونے کا بھی کوئی ثبوت
نہیں۔جانچ رپورٹوں سے یہ بھی طے ہوگیا ہے مقتولین کے پاس واردات کے وقت
اسلحہ تھا ہی نہیں، اس لئے ان کی طرف سے گولی چلنے کا کوئی سوال نہیں۔ایسی
صورت میں ان چار وں کا قتل کس لئے کیا گیا؟ یہ جرم کس کے کہنے پر انجام دیا
گیا اورکس کا کتنا کتنا ہاتھ تھا؟ سمجھا جاسکتا ہے کہ ماتحت عملہ مجبوراً
جرم میں شریک ہوتا ہے مگر افسر وں نے کس کی ہدایت پر فرضی انکاﺅنٹر کئے ؟
اب جبکہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے اکثر دہشت گرد حملے سنگھی دہشت
گردوںکے کرتوت تھے، نریندر مودی کی پولیس نے فرضی انکائنٹرس اور دہشت
گردانہ حملوں میں نشانہ اقلیتی فرقہ کو ہی کیوں بنایا؟ یہ سوال ان مولویوں
سے بھی پوچھا جاسکتا ہے جو مودی کےلئے ٹوپی اور کافہ لیکر گئے تھے۔کیا ان
کا مسلک ایسی بے حمیتی کی اجازت دیتا ہے؟ گجرات پولیس اور اس کی ایما پر
پریس نے ہمیشہ یہ دعوا کیا کہ نشانہ پرنریندر مودی تھے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
پولیس نے اجتماعی قتل کی یہ واردات انجام دیکر جو ایف آئی آر درج کرائی،اس
میں قاتلوں کو ہیرو اور بے قصور ماردئے گئے لوگوں کو دہشت گرد باور کرایا
گیا ہے۔ سیاہ کو سفید اور گورے کا کالا قراردینے کی اس روش کی بدولت ہی
عوام میں پولیس کا اعتبار اور وقار کم ہوا ہے۔مثلاًاس ایف آئی آرمیں جو
15جون 2004کو صبح 8 بجکر 45منٹ پر انسپکٹر پرمار نے درج کرائی ، یہ دعوا
کیا گیا ہے کہ انکاﺅنٹر صبح چار بجے کے بعد ہوا ، جب کہ مجسٹریٹ کی جانچ سے
پتہ چلتا ہے کہ جاوید کورات میں 9 اور 9.30 بجے کے درمیان اور باقی تین کو
رات 11اور 12بجے کے درمیان گولیاں ماری گئیں۔ ان کے قبضہ سے اسلحہ کی
برآمدگی کی کہانی بھی فرضی نکلی کیونکہ نہ تو اس کا کوئی ذکر ایف آئی آر
میں ہے اور نہ فورینسک رپورٹ میں اور نہ موقع واردات پر تیار کئے گئے رقعہ
میں۔
ایف آئی آر میںدعوا کیا گیا ہے کہ پولیس کمشنر کے آرکوشک کو ’خفیہ ذرائع‘
سے اطلاع ملی تھی کہ دو پاکستانی فدائین ذیشان جوہر عرف جانباز اور امجدعلی
اکبر علی رعنا عرف سلیم عرف چندوکشمیر سے احمد آباد کےلئے روانہ ہوئے ہیں،
ان کے پاکستانی پتے بھی درج ہیں اور یہ کہ جاوید عرف پرنیش پلائی ان کا
مقامی معاون ہے، ان کا ارادہ خود کش حملہ کرکے وزیر اعلا کو قتل کرنا تھا
جس کےلئے انہوں نے احمدآباد، وزیراعلا کے گاندھی نگر کے دفتر اور ان کے آنے
جانے کے راستوں کا جائزہ بھی لیا تھا۔کوشک نے جائنٹ کمشنر پی پی پانڈے ،
ایڈیشنل کمشنر ڈی جی ونزارا اور ایک اے سی پی جی ایل سنگھل کو طلب کرکے یہ
”دھماکہ خیز“ اور” چونکادینے “والی خفیہ اطلاع دی اور ان کو اس پر کاروائی
کی ہدایت دی۔ایف آئی آر میں آگے دعوا کیا گیا ہے کہ پانڈے کو 14جون کو صبح
11 بجے ذاتی زرائع سے یہ متعین اطلاع ملی کہ دونوں ’پاکستانی‘ اور جاوید
ایک نیلی انڈیکا میں ممبئی سے پونا کےلئے روانہ ہو چکے ہیں اور یہ کار صبح
میں کسی وقت احمدآباد پہنچے گی۔ چنانچہ ونزارا نے اپنی راست نگرانی میں کار
کو روکنے کےلئے احمدآباد کی ناکہ بندی کا حکم دیا۔ چھ پولیس ٹیمیں شہر میں
داخل ہونے کے راستوں پرلگادی گئیں ،جنہوں نے رات ڈیڑھ بجے اپنی پوزیشن لے
لی۔صبح چار بجے نارول چوراہے پر اے سی پی نریندرامین کی ٹیم نے کار کو آتے
دیکھا۔کار نرودا کی طرف مڑ گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ناکہ بندی کے باجود
کار کو کسی ناکے پر روکنے کی کوشش کا کوئی ذکر نہیں۔ کہا گیا ہے کار کا
پیچھا کرتے ہوئے امین نے اندرا چوک پر سنگھل کو اس کے بارے میںمطلع کیا ۔
آگے کہا گیا ہے کار ایرپورٹ روڈ پر مڑ گئی تو امین نے سنگھل اور دیگر ٹیموں
کو مطلع کیا کہ کار بھاگ سکتی ہے۔ سبھی ٹیموں نے ایرپورٹ روڈ پہنچ کر
جھاڑیوں کے پیچھے پوزیشن لے لی۔امین کار کا پیچھا کرتے رہے۔ کوٹارپور واٹر
ورکس موڑ کے پاس انڈیکا کی رفتار کم ہوئی، امین کے حکم پر کمانڈو موہن
بھائی نے گولی چلائی، جس سے انڈیکا کا پچھلا ٹایر پھٹ گیا اور کارکچھ دور
گھسٹ کر ڈوائڈر کے پاس رک گئی۔
اس کے بعد ایف آئی آر میں دعوا کیا گیا ہے کہ پچھلے دروازے سے ایک ’دہشت
گرد‘ اے کے 56 رائفل کے ساتھ نیچے اترا اور پولیس پر گولی چلادی۔ پولیس
عملے نے کار کے پیچھے چھپ کر اے کے 47سے جوا بی فائرنگ کی ۔اس کاروائی میں
کسی پولیس اہلکار کے تو خراش تک نہیںآئی، مگر انڈیکا میں سوار چاروںمسافر
ڈھیر کردئے گئے۔ ان میں سے ایک کی لاش زمین پر پڑی ملی ، ایک کی ڈرائیور کی
سیٹ پر، ایک کی پچھلی سیٹ پر اور لڑکی کی ڈرائیور کی برابر والی سیٹ پر۔“
247صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں جوڈیشیل مجسٹریٹ ایس پی تمانگ نے پولیس
کمشنر مسٹرکوشک کو ملنے والی ’ خفیہ جانکاری‘ سے لیکر گولیاںچلائے جانے تک
کی ساری کہانی کوفرضی ثابت کیا ہے ۔ ایس آئی ٹی نے بھی تمام شہادتوں کا
نوٹس لیا، حتیٰ کی تین بارمبینہ انکاﺅٹر کی جگہ جاکر انکاﺅنٹر کی کہانی کو
دوہرا کر اس کو جانچا پرکھا۔ مگر کسی بھی زاویہ سے گجرات پولیس کی بیان میں
مطلق سچائی نظر نہیں آئی۔ چنانچہ وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچی کی یہ کہانی من
گھڑنت ہے۔
مزید جانچ اور تازہ ایف آئی آر کے بعد ٹرائل کورٹ میں خاطی پولیس عملے کے
خلاف کیس چلے گا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ خطاکارقاتلوں کو جرم کی سزا ملے گی؟
ان میں کئی افسران سہراب الدین قتل معاملہ میں جیل میں ہیں ۔ ریاست کے سابق
وزیر داخلہ امت شاہ ضمانت پر باہر آگئے ہیں۔ اس لئے یہ سوال بھی اہم ہے کہ
کیا عشرت جہاں قتل کیس میں بھی کوئی سیاسی لیڈر ملوّث ہے؟ جانچ میں یہ بھی
پتہ چلے گا کہ قتل کی اس واردات کا منشاءکیا تھا؟ گجرات کے فرضی انکاﺅنٹرس
میں سنگھی سیاست کی بو آتی ہے جس کا مقصد پورے ملک میں فرقہ ورانہ منافرت
اور کشیدگی پھیلا کر سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ عوام کی جذباتی تائید حاصل
کرنے کےلئے کہا گیاکہ مقتولین کا تعلق غیر ملکی دہشت گرد گروہ سے تھا۔ اگر
واقعی پولیس کے پاس ایسی کوئی اطلاع تھی تو ان کومارنے کے بجائے ہرقیمت پر
گرفتارکیا جانا چاہئے تھا تاکہ ملک دشمن سرگرمیوںکی تفصیلات حاصل کی
جاسکیں۔ آخر کیوںانکی گھیرا بندی اس طرح نہیں کی جاسکتی کہ وہ خود سپردگی
پر مجبور ہوجائیں؟
ریاست کی ایما پر سیاسی مقاصد کےلئے قتل کی ان واردوتوں کے بعد جھوٹا
پروپگنڈا کرکے رائے عامہ کو اسطرح ورغلایا جاتا ہے کہ اسے قانون کی پامالی
سمجھنے کے بجائے وہ ماروا عدالت قتل کی وارداتوں کو جائز سمجھنے لگتے ہیں۔
یہ ایک سنگین معاملہ ہے اوراس سے قانون کی حکمرانی کے تئیں عوام کا اعتماد
اور احترام ختم ہوتا ہے۔یہ بات ملک کے مفاد میں ہوگی کہ پولیس کی ایسی فرضی
کاروائیوں، فرضی معاملات میںگرفتاریوں اور بلا ثبوت لوگوں کو جیلوں میں
ڈالے رکھنے کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے۔ قانون میں اصلاح کرکے اختیارات کے
بیجا استعمال کےلئے سرکاری عملے کوجوابدہ بنایا جائے۔فرضی معاملہ میں ملوّث
بے قصور کی جیل سے رہا ئی کافی نہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے اس کے ہر طرح
نقصان کی تلافی ہو۔اگرعدالت پر یہ واضح ہوجائے کہ جان بوجھ کرکسی کو
پھنسایا گیا ہے تو اس کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ بے قصور کو بری کرنے کے
ساتھ خاطی سرکاری عملے کی سزا کا حکم بھی سنادے۔ اس کو مثاوی مدت کےلئے جیل
بھیج دے، اسی سے بھرپور معاوضہ دلایاجائے۔ یہ مطالبہ کچھ انوکھا نہیں، کئی
ممالک میں ، جہاں انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے ، اس طرح کے قوانین
موجود ہیں۔(ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں) |