25اور26 نومبر کی درمیانی شب
مہمند ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر ز غلزئی سے پچاس کلومیٹر دور شمال مغرب کی جانب
پاکستانی فوج کے سرحدی جانثاروں کی چیک پوسٹوں پر نیٹو طیاروں کی اندھادھند
شیلنگ کے نتیجہ میں اٹھائیس فوجی جانبازوں کی المناک شہادت سے ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ شاعر اور لکھاری کا تخیل قریب قریب سچ ثابت ہو رہاہے اور حقیقی
معنوں میں عقابوں کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں آچکا ہے ۔ کاش ! اگر ہم نے
وقت سے سبق سیکھا ہوتا اور ڈرونز حملوں کے خلاف کوئی لائحہ عمل ترتیب دے
دیا ہوتا تو آج ہمیں یہ سیاہ ترین اور بد تر دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ افغانستان
میں تعینات ”ٹڈی دل“ ناٹو فورسزکا صلیبی لشکر صلاح الدین ایوبی کے روحانی
فرزندوں، افغان حریت پسندوں سے پٹ جانے کے بعد مسلسل ہمارے شہریوں اور
سرحدی محافظوںپر حملہ آور ہے اور آج ان کڑے لمحات میں قوم کو جس قدر بہادر
و بے باک لیڈر شپ کی کمی محسوس ہورہی ہے اس سے پیشتر اس طرح کی صورتحال کم
کم ہی پیش آئی ہوگی۔ ڈرونز حملوں اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر صلیبیوں
کی یلغار سے پوری قوم کے دل سی پارہ ہو چکے ہیں، پاکستانی فوج پراتحادیوں
کی لشکر کشی یا سرحدوں کی خلاف ورزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پیشتر بھی
اتحادی افواج اس طرح کی شرمناک حرکات کی مرتکب ہو چکی ہیں اور ہمیں ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا جا چکا ہے ۔مہمند ایجنسی سے لے کرساحل سمند رتک اتحادی
فوج کی اس تازہ دہشت گردی کے بعد پوری قوم کی رگوں میں غم اور غصہ کی لہر
دوڑ گئی ہے اورعوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آخر دنیا کی بہترین فوج اور
عسکری قوت کے حامل ملک پر ایسی کونسی افتاد اور زوال آن پڑا ہے کہ وہ
امریکہ جیسے ”ممولے “سے مسلسل پٹنے پر مجبور ہے اور بے بسی و لاچارگی کی
تصویر بنے ہوئے ہے۔ NATOفورسز کی پیش قدمی جا ری ہے مگر سیاسی قیادت کے
ساتھ ساتھ عسکری قیادت کی بھی نااہلی دیکھیے کہ وطن عزیز کے کسی بھی Base
اور فوجی اڈے سے ان صلیبیوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی نقل و حرکت دیکھنے میں
نہیں آرہی اور بہادری و جانفروشی کے جذبے سے عاری حکمران قوم کے ان
بہادرفوجی جوانوں کے جذبہ جہاد سے خطرناک نوعیت کا” کھلواڑ“ کر رہے ہیں اور
دھرتی کے ان متوالوں کا صبر بار بار آزمایا جا رہا ہے ۔ بحیثیت قوم کس قدر
تکلیف دہ ، معیوب ، شرمناک ، قبیح اور Shameful حرکت ہے کہ ایک غدار وطن
اور بزدل ”کمانڈو“ کی بزدلانہ اور ملک دشمن پالیسیوں کو ہم آج بھی جاری و
ساری رکھے ہوئے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں نہایت عبرت ناک انداز میں بھگتنا پڑ
رہا ہے اور اس کے کیے دھرے کا تاوان پوری قوم کو اداکرنا پڑ رہا ہے ۔ افسوس
! کہ پانچ ہزار فوجی جوانوں اور تیس ہزار سے زائد سویلین کی قیمتی جانیں
گنوا کر بھی ہم بے مزہ نہ ہوئے اور حکمران و مراعات یافتہ طبقہ امریکی
دوستی جو در اصل ”غلامی“ہے کی رٹ لگانے سے با ز نہیں آتا ،پینتیس ہزار بے
گنا ہ لوگوں کا خون بہہ چکنے کے باوجود بھی ہمیں اپنے کیے پر کوئی ندامت ،
کوئی پیشیمانی نہیں ۔ کاش ! اگر غیرت ، حمیت ، لاج ، شرم اور ندامت نامی
چیز کہیں سے دستیا ب ہوتی اور کسی دکان پر بکتی تو یہ قوم اس ”زیور“سے اپنے
حکمرانوں کو ضرورآراستہ کرتی ۔ امریکہ بہادر نے نائن الیون سانحے کا
”تاوان“ ہم سے طلب کیا اور دوستی کی پینگیں ہمارے ازلی دشمن انڈیا کے ساتھ
بڑھائیں اور پاک افغان سرحد کے قریب قریب تمام علاقوں میں اس ہندوبنیے کو
کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ کھل کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سعی کرے
اور وقتا فوقتا پاکستان پر ضرب کاری لگاتا رہے ،انڈیا کی جانب سے متعدد بار
پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ اور اپنے مقاصد میںناکامی پر اب اس
نے اپنی تمام تر توجہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کی جانب مبذول کر دی ہے اور
اب وہ اتحادی افوج کے ساتھ مل کر پاکستانی افواج اور اس خطہ کے باسیوں کو
ناقابل بھاری نقصان پہنچانے کے درپے ہے ۔ امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل کے
شیطانی اتحاد ثلاثہ نے مختلف حربوں اور طور طریقوں سے پاکستان کی سرحدوں
اور سرحدوں علاقوں میں اپنی کارساتانیاں تقریبا ایک دہائی سے شروع کر رکھی
ہیں اور اب ان کی سرگرمیوں میں قدرے تیزی آگئی ہے ۔ بھارت کو پسندیدہ ترین
ملک یا Most Favourite Nationقرارد دینے ،امن کی آشا کے راگ الاپنے اور
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنا ”فرنٹ لائن اتحادی“ ڈکلیئر کر وا دینے
سے اگر ہم سمجھتے ہیںکہ ہمیں ان کی شرانگیزیوں ، حشر سامانیوں اور فتنہ
سازیوں سے نجات مل جائے گی تو یہ یقینا ہماری بہت بڑی بھول ہے ۔ناتو افواج
کے اس انتہائی اقدام کے نتیجہ میں پاکستانی فوج کے اٹھائیس شہداءکی روحیں
پوری ملت اور بے ضمیر حکمرانوں سے یہ سوال کر تی ہیں کہ کیا اب بھی وہ وقت
نہیں آیا کہ ہم اس امریکی جنگ سے خود کو الگ کر لیں ؟۔ آخراب نہیں تو کب
۔۔۔۔ہم اپنی قومی خود مختاری ،داخلی سلامتی کے لیے راہ متعین کریں گے ۔۔۔۔؟
بادل نخواستہ اگر اب بھی ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو پاکستان کی سالمیت
کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی اور ان حملوں کا جواب دینے ، امریکی دباﺅ سے
نکلنے کے لیے کوئی کاری تدبیر اختیار نہیں کی جاتی ، حکمران ”کور نگاہی“ کو
ترک کر کے حکمت و بصیرت اور دانش و بینش کا راستہ اختیار نہیں کر تے تو یہ
تباہی و بربادی جس کا شکار اس ملک کے غریب عوام ہو رہے ہیں اور سرحدی
محافظوں کولحد میں اتار ا جا رہا ہے کل ان کی جگہ حکمران اور مراعات یافتہ
طبقہ بھی لے سکتا ہے ، اس سے پیشتر کہ عوام کے ہاتھ زرداروں کے گر یبان تک
جا پہنچیں حکمرانوں ، سیاستدانوں ، مذہبی و سماجی لیڈروں کو ایک دوسر ے کی
پگڑیاں اچھالنے اور دشنام طرازیوں کے حصار سے نکل کر ملک و ملت کے وسیع تر
مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے، وگرنہ بقول احسان دانش وہ داستان جو مصائب میں
دفن ہے اب تک
زبان خلق پہ جب آگئی تو کیا ہوگا؟ |