جب سے میں نے یہ سنا ہے کہ سوئس
بینکوں میں پاکستان کا 500 (پانچ سو) ارب اور بھارت کا محض 15 (پندرہ)ارب
ڈالر پڑا ہے ۔ میرا رواں رواں خوشی سے کانپ رہا ہے کہ ہمارے ازلی و ابدی
دشمن بھارت کے سارے چور لُٹیرے ، ڈان اور بھتہ خور مل کر بھی ہماری گردِ پا
کو نہیں پہنچ سکے۔اور وہ جو بچپن سے ہندو بنیئے کا ”چمڑی جائے پر دمڑی نہ
جائے“ کا شور سُن سُن کر ہمارے کان پک گئے تھے ، وہ بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو
گیاکہ ہمارے مدبّروں نے کھربوں ”نُکرے“ لگا لئے اور کسی کو کانوں کان خبر
بھی نہیں ہونے دی۔بچت کے ایسے لازوال کارنامے سر انجام دینے والے محبّانِ
ملک و ملّت کو میرا سلام۔۔۔ ۔ قومی بچت کا یہ 500 ارب ڈالر جس کا ذکر کیا
ہے یہ تو صرف سوئس بینکوں میں پڑا ہے ۔ اگر امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی ،
فرانس ، اور دبئی میں پڑی ”بچت“ بھی شمار کر لی جائے تو بات اربوں سے نکل
کر کھربوں ڈالر تک پہنچ جائے گی جسے سُن کر شاید چوہدریوں کا چوہدری اوباما
بھی شرم سے ڈوب مرے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی معشیت کو نہتے بوریا نشیں
افغانیوں نے محض دس سالوں میں ”کھائے ہوئے بھُس“ کی مانند کر ڈالا اور اب
145 ٹریلین ڈالر کی مقروض امریکی قوم بڑی بوڑھی عورتوں کی طرح افغانیوں کو
محض ”کوسنے“ دینے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ان گورے کالے امریکی بزرجمہروں
کو پہلے ہی سوچ لینا چاہیے تھا کہ ان جھونپڑیوں میں بسنے والے افغانیوں کے
پاس کھونے کے لئے ہے ہی کیا سوائے منہ میں رکھنے والے ”بیڑے“ کے۔اگر انہیں
بر وقت عقل آ جاتی تو آج دُنیا اوباما اینڈ کمپنی کو یہ نہ کہتی پھرتی کہ
اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں
جب کہ دوسری جانب یہی امریکی جنگ ہم بھی دس سالوں سے ہی لڑ رہے ہیں لیکن
احمقانہ نہیں بلکہ بہ اندازِ حکیمانہ کہ ہم نے اس جنگ میں 80 بلین بھی
جھونک دیئے اور یہ سوچتے ہوئے کہ پتہ نہیں یہ جنگ اور کتنے عشروں تک چلے گی
، ہم نے اپنا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں دینے کی خاطر اپنے کھربوں ڈالر
بیرونی دنیا میں بھی پھیلادیئے کہ جب اور جہاں جی چاہے گا جا بسیں گے
کیونکہ ۔۔۔۔ ”ہر مُلک ، ملکِ ما است کہ ملکِ خُدائے ما است“ ۔۔۔۔ اب ما شا
اللہ ہماری آمدہ نسلوں کے راہبروں کا مستقبل محفوظ ہے ۔ جب چاہیں گے وطن کی
خدمت کرنے پہنچ جائیں گے اور قوم دیدہ و دل فرشِ راہ کئے محبّت کے پھولوں
اور عقیدت کی کلیوں سے ان کا سواگت کرے گی ۔اُمیدِ واثق یہی ہے کہ اگر
ہمارے با تدبیر راہبرانِ قوم نے اسی رفتار سے ”بچت مہم“ جاری رکھی تو دس
پندرہ سالوں بعد ہم پوری صدی کا ”ٹیکس فری“ بجٹ پیش کرنے کے قابل ہو جائیں
گے اور یہ بے وقوف امریکی ، جو ہمارے کشکول میں ایک سکہ تک ڈالنے کو تیار
نہیں ، ہمارے ہاں نوکریوں کی بھیک مانگتے پھریں گے ۔لیکن یہ طے ہے کہ ”قومی
ترقی“ کے اس سنہرے دور کے حصول کے لئے اس کی راہ کی دو رکاوٹیں بہر حال دور
کرنا ہوں گی ۔ایک تو بے باک میڈیا جو نت نئی کہانیاں سُنا سُنا کر اس ترقی
کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر رہا ہے اور دوسری اعلیٰ عدلیہ جو از
خود نوٹس پہ نوٹس لئے چلی جا رہی ہے ۔ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لئے بزرگ
مدبّر پرویز مشرف کی مفت خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں جن کا قول ہے کہ
۔۔۔۔
”ہم انہیں وہاں سے ہٹ (HIT) کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا“
ان سب کو میرا سلام کہ ان میں سے کسی نے بھی ملک کو اجاڑنے میں کسر نہیں
چھوڑ ی جو سب نہلے پہ دہلا ہی نہیں بلکہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔۔۔ |