تمام تر اختیارات کو اپنی ذات
میں مرتکز کر کے خدا بننے کا جنون تاریخ انسانی کے ہر دور اور ہر عہد میں
مسند اقتدار پر براجمان مطلق العنان بادشاہوں کے ذہنوں میں فتور برپا کرتا
رہا ہے۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر کے اپنی انا کو تسکین دینے کے
اس شیطانی عمل نے اس کرہء ارضی پر شاداب موسموں کی چاندنی بکھرنے کی بجائے
تاریخ کے اوراق پر جبر و استبداد کی ان گنت داستانیں رقم کی ہیں۔ یہ جنون
آج کی نام نہاد مہذب اور جمہوری دنیا میں ظلم، بربریت، درندگی اور وحشت کی
انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہ صرف زندہ ہے بلکہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ متحرک
بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر روشن خیالی، سائنسی اور فنی ارتقاء کے
باوجود انسانی معاشرے حیوانی معاشروں کے قریب تر ہو رہے ہیں، جنگل کا قانون
آج بھی کسی نہ کسی صورت میں اولاد آدم پر مسلط ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب
یہ کار مذمت، خوشنما اور دلفریب عنوانات کے تحت جاری ہے۔ اب توسیع پسندی کے
پیمانے بدل گئے ہیں، اب جسمانی غلامی کی جگہ سیاسی اور معاشی غلامی کے نئے
نئے انداز متعارف ہو رہے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں
لے رکھا ہے، آتش نمرود سے میدان کربلا میں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے خیموں کو آگ لگائے جانے تک ریاستی دہشت گردی کی ان گنت مثالیں
بکھری ہوئی ہیں، ریاستی دہشت گردی جسے عموماً قانونی اور آئینی تحفظ بھی
فراہم کیا جاتا ہے ہمارے پورے عہد کی پہچان بن گئی ہے، کہنے کو تو نسلی
تعصبات کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن مغرب سمیت امریکہ جیسے نام نہاد مہذب اور
جمہوری معاشروں میں گورے اور کالے کے خون میں عملاً آج بھی تمیز روا رکھی
جاتی ہے۔
تاریخ عالم شاہد عادل ہے کہ حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان صدیوں پر محیط
سیاسی اور طبقاتی کشمکش دراصل انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے
اور یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا ابن آدم کو قانون اور حقوق
دینے والے پیغمبرامن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز سے اپنی
غلامی کا رشتہ استوار کر کے افق عالم پر دائمی امن کی بشارتوں کے نزول کو
یقینی نہیں بناتی۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں بے خطر کود کر کلمہء حق
کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا وہ عظیم روایت ذبح اسماعیل
سے ذبح حسین علیہ السلام تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی کی ان کائناتی
سچائیوں کی امین ہے جن کے بغیر تہذیب انسانی کے اجتماعی رویوں کی ہر تفہیم
اور توجیہہ بے معنی اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہے تاریخ اسلام حریت فکر کے
امین انہی لمحات جاوداں کی عینی شاہد ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین (ع) ابتدا ہے اسماعیل (ع)
اس ابدی حقیقت کی ترجمانی پر مبنی اقبال کا یہ شعر ہمیشہ سے اہل علم و نظر
کو متوجہ کرتا رہا، ضرورت اس بات کی تھی کہ حکیم الامت کے ان جذبات کو
باقاعدہ علمی اور تحقیقی قالب میں ڈھالا جاتا سو اس سعادت کے لئے قدرت نے
مفکر اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زبان حقیقت ترجمان کا انتخاب
کیا۔ چنانچہ یہ کتاب آپ کے مختلف مواقع پر کئے گئے خطبات کا مجموعہ ہے جن
میں محترم محمد تاج الدین ہاشمی صاحب نے بعض ضروری حوالہ جات کا اضافہ بھی
کر دیا ہے یوں اس اچھوتے موضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب آپ کے ہاتھوں
میں موجود ہے۔
ریاض حسین چوہدری
لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/13/bid/159/btid/697/read/txt/سرورق-Zibh-e-Azim:%20Zibh-e-Ismail%20se%20Zibh-e-Husayn%20tak.html |