حبیب موہانہ کا سرائیکی ناول ”اللہ لہیسی مونجھاں“

گزشتہ دنوں عوام دوست فاﺅنڈیشن بھکر کے چیئر مین اور بزرگ صحافی ملک احمدخان کی جانب سے ایک پیار اور محبت سے لبریز تحفہ موصول ہوا ۔ جونہی پیکٹ کھولا تو ہمار ی خوشی کی کوئی انتہاءنہ رہی کہ حال ہی میں منصہ شہود پر آنے والا حبیب موہانڑاکا شہرہ آفاق سرائیکی ناول ”اللہ لہیسی مونجھاں“ہماری آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہا تھا ۔ یقین جانیے کہ جب تک یہ ادبی شاہکار مکمل نہ پڑھ لیا چین نہ آیا ۔ جب کہ اس ناول کا بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کیے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں مگر میں آج بھی اس کے سحر سے نہیں نکل پایااور بدستور حبیب موہانہ کی عظیم قلمی کاوش اور سعی میں خود کو ڈوبا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔بے شک حبیب موہانہ نے دل اور قلم کی کیفیتوں کوباہم ملا کریہ ادبی شاہکار ترتیب دیا ہے اور اس کی یہ ہمت کسی طرح بھی حیرت سے کم نہیں ہے ،موہانہ کا قلمی وجدان پڑھنے والے پر ایک عجب طرح کا جادو سا جگائے رکھتا ہے ،یہ ناول علمی و ادبی حلقوں کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم ہرگز نہیں۔حبیب موہانہ کا تعلق سرائیکی دھرتی کے خوبصورت قطعہ اراضی ڈیر اسماعیل خان سے ہے اور وہ ڈیر ہ کے سرکاری کالج میں انگلش کے لیکچرار ہیں۔ حبیب موہانہ نہایت مختصر وقت میں ایک منفرد اور انوکھے سرائیکی لکھاری کے روپ میں ابھر کرسامنے آیا ہے اور اس کا قلم عام لکھاری سے قطعاًمختلف ہے اور دراصل یہی تو موہانہ کا خاصہ ہے۔ سرائیکی ادب میں ان کی قلمی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں، ان کے سرائیکی افسانے ادبی رسائل و جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ”اللہ لہیسی مونجھاں“ایک پرائمری سکول کے ٹیچر کی پریم کہانی ہے ، کہانی کیا ہے بس مصنف نے سرائیکی ادب کا ایک جادو سا جگایا ہے اور اس کا حیرت انگیز نوعیت کا طلسم قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رہتا ہے ۔ ناول کے بیک ٹائٹل پر سرائیکی ادب کی بڑے قد کاٹھ کی حامل شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور نہایت جچے تلے انداز میں اس ناول کے بارے میں اپنی قیمتی آراءسے نواز ہے اور لکھاری کے لیے نیک خواہشا ت کا اظہار کیا ہے ۔ عاشق بزدار نے لکھا کہ یہ ناول قاری کو ایک نئے رنگ سے آشنا کرسکتا ہے ۔ سرائیکی ادب کا معتبر نام ڈاکٹر اشو لال فقیر کے مطابق سرائیکی ادب کا مطالعہ حبیب موہانہ کے بغیر ادھورا ہے اور سرائیکی وسیب کو اس انداز میں دیکھنے ، پرکھنے کی ضرورت ہے جس طرح اسے حبیب موہانہ دیکھتا ہے۔رفعت عباس نے کہا ہے کہ حبیب موہانہ کے رنگ میں سرائیکی دھرتی کو ایک ایسا قلم کار ملا ہے جو ہمار ی اداسی کے اندھے کنویں سے ہمارے قصے نکال کرپھر ہم تک لے آیا ہے۔ مظہر تابش نے لکھا کہ موہانے کی کہانی محض روایتی نہیں بلکہ اساطیر ی ورثے کی ایک امر کہانی ہے ۔ اس خوبصورت سرائیکی ادبی ورثے کو عوام دوست فاﺅنڈیشن بھکر نے محفوظ کیا ہے اور اس ناول کو منظر عام پر لا کر اسے احباب ذوق کی دہلیز تک پہنچانے کی اہم ترین کوشش کی ہے اور اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا ہے ۔قوی امید ہے کہ مصنف کی یہ کاوش علمی و ادبی حلقوں میں بے پایاں مقبولیت حاصل کرے گی او ر اس کا ایک ایک لفظ قاری کو حیرت اوراستعجاب کے سمندر میں لے جائے گا۔یہ ناول تقریبا پونے تین سو صفحات پر مشتمل ہے ، یوں تو سارا ناول ہی ایک ادبی نوعیت کا شہہ پارہ ہے تاہم کہیں کہیں الفاظ کے مناسب زیر و بم اور نشیب و فراز قاری کو چونکا کر رکھ دیتے ہیں اور قاری مصنف کی خداداد ادبی صلاحیتوں کی مالا چبنے پر اور اسے داد دینے پر مجبور ہوتا نظر آتاہے ۔”اللہ لہیسی مونجھاں“کی اہمیت اور افادیت ادب سے شغف رکھنے والوں کے نزدیک اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔اس کے الفاظ قرطاس سے اہل ذوق کے اذہان پر نقش ہوتے اور براہ راست دلوں میں اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔ اہل ذوق دیر مت کریں او ر فورا ہی یہ ادبی شہہ پارہ وصول کر کے حرز جاں بنالیں ، مبادا کہیں دیر نہ ہو جائے۔اس سلسلے میں عوام دوست فاﺅنڈیشن بھکر کے چیرمین ملک احمد خان سے اس نمبر 0333-8054080پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 36990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.