اے کاش ! وہ آتی۔۔۔

اس کی مستقل بے رخی نے ہمیں تھوڑا سا مایوس تو کر دیا ہے لیکن یہ دل ہمیں امید کا دامن چھوڑنے نہیں دیتا ۔ یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس کو بھول جاؤ گے تو میں دھڑکنا بھی بھول جاؤں گا۔ یہ دل کچھ حسرتیں اپنے اندر سمائے بیٹھا ہے کہ اے کاش ! وہ آتی اور پوچھتی کہ تم اتنا مسکراتے کیوں ہو ؟ کیا تمہیں میرے چلے جانے کا کوئی غم نہیں ، تو ہم اپنا سینہ چیر دیتے اور یہ روتا ہوا دل اس کے سامنے رکھ دیتے۔ اے کاش ! وہ آتی اور پوچھتی کہ تم نے آخری ملاقات کے بعد مجھ سے بچھڑتے ہوئے مُڑ کے کیوں نہیں دیکھا؟ تو ہم انہیں بتاتے کہ ہماری بھیگی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کہیں اس کو ہم پر ترس نہ آ جاتا کیونکہ ہم پر ترس کھا کر کوئی ہمیں محبت کرے یہ ہمارے ضمیر کو گوارا نہیں۔ اے کاش ! وہ آتی اور ہم سے پوچھتی کہ کیا تمہیں میری یاد نہیں آتی ؟ تو ہم اپنی سانسوں کی مالا پر اس کو اس کا نام سنواتے۔ اے کاش ! وہ آتی اور پوچھتی کہ تم تو مہتاب تھے اب سوکھے گلاب کیوں ؟ تو ہم بتاتے کہ ان کے جانے کے بعد ہماری روشنی بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ اے کاش ! وہ آتی اور پوچھتی کہ اب تمہاری قلم میں وہ طاقت کیوں نہ رہی ؟ تو ہم بتاتے کہ اب ہمارا ہر لفظ ہمارے آنسوؤں سے مٹ جاتا ہے۔ اے کاش ! وہ آتی اور ہم سے پوچھتی کہ اب تمہاری شرارتیں کہاں غائب ہو گئی ہیں؟ تو ہم بتاتے کہ اس کی یاد کی شدت نے ہماری شرارتوں کو ہم سے مایوس کر دیا ہے۔ اے کاش ! وہ آتی اور ہماری بے بسی کو دیکھتے ہوئے کہتی کہ کیا تم واقعی مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو؟ تب ہم چپ رہتے اور ہماری آنکھیں بولتیں۔ اے کاش ! وہ آ ہی جاتی ۔۔۔
فرزان یحییٰ
About the Author: فرزان یحییٰ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.