جلتا شکارہ ڈھونڈنے میں نعمان شوق کی غزل کا نیا چہرہ

رنگوں ، تتلیوں ، بادلوں ، آسمانوں ، اور ندیوں کے استعاروں کے خوبصورت شاعر نعمان شوق فطرت سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انہیں قدرتی مناظر سے گہر ا تعلق ہے ۔ شاعر کو سبز ہریالی ،سرسبزو شاداب کھیت ، بہتا ہوا ٹھنڈ ا پانی ، پھولوں پر بیٹھی تتلیاں، آبجو کو چومتی ہوئی ٹہنیاں ،گلاب ، ریت ، ساحل ، کنارِ آب ، پھولوں سے ڈھکے شکارے بے حد پسند ہیں ۔اس لیے بھی کہ نعمان شوق ایک شاعر ہیں اور خوبصورتیاں حسِ جمال سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کی آنکھیں حسین خواب دیکھتی ہیں ایسے خواب کہ جن کے ٹوٹنے سے کرچیاں آنکھوں کو نہ گھائل کریں اور نہ رتجگوں کا عذاب ملے وہ بڑی احتیاط سے زندگی کے سفر پر رواں دواں ہیں ۔ شعروں کو خوبصورت پیرہن عطا کرنے والے نعمان شوق کے اب تک تین شعری مجموعہ ہائے کلام منصہ شہود پر آچکے ہیں ۔ جن میں اجنبی ساعتوں کے درمیان (غزلیں) ، جلتا شکارا ڈھونڈنے میں (غزلیں ) اور فریزر میں رکھی شام ( نظمیں ) شامل ہیں ۔

نعمان شوق جتنے اچھے شاعر ہیں اس سے کہیں زیادہ اچھے انسان اور مخلص دوست ہیں ۔میرے سامنے ان کا تازہ شعری مجموعہ ’’ جلتا شکارا ڈھونڈنے میں ‘‘ ہے۔ جس کو میں کئی روز سے پڑھ رہا ہوں ۔ میں شاعری کے مجموعہ کو جاسوسی کہانیوں یاپھر رومانوی ناول کی طرح ایک ہی نشست میں نہیں پڑھتا بلکہ آہستہ آہستہ روز تھوڑا تھوڑا پڑھتا ہوں اس طریقہ سے جو لطف حاصل ہوتا ہے وہ شتابی کے ساتھ پڑھنے میں بالکل نہیں ۔۔۔۔۔۔ نعمان شوق غزل کے میدان کا ایک ایسا شہسوار ہے جس نے بہت تیز رفتاری سے کامیابیوں کے سنگ میل طے کیے ہیں۔ وہ نئے زمانے ،نئے لب و لہجے کے شاعر ہیں جو شعر کہتے وقت اپنے عہد اور عہد کے معاشرتی ، سماجی رویوں کوبھی بھرپور طریقہ سے اپنے شعروں میں ڈھال رہے ہیں ۔ ان کے بعض شعر وں نے مجھے کئی روز تک اپنے خوبصورت ریشمی کلاوے میں جکڑے رکھا ۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

فلک کا تھال ہی ہم نے اُلٹ ڈالا زمیں پر
تمہاری طرح کا کوئی ستارہ ڈھونڈنے میں

سوکھے پتوں پہ کسی سانپ کی آہٹ جیسی
سرسراہٹ ہے عجب سانس کے چلنے میں بھی

آنکھ کھل جائے تو گھر ماتم کدہ بن جائے گا
چل رہی ہے سانس جب تک چل رہا ہوں نیند میں

لوگ خوابوں میں چلے آنے لگے بے روک ٹوک
میں بھی گویا عام رستہ ہوگیا ہوں نیند میں

نعمان شوق کے ہاں ہمیں جو داخلیت دکھائی دیتی ہے وہ داخلیت ہونے کے باوجود داخلیت نہیں بلکہ وہ خارجیت میں تبدیل ہو کر آفاق گیر بن جاتی ہے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نعمان شوق کا انفرادی دکھ یا کرب انفرادی ہونے کے باوجود اجتماعی شکل اختیار کر جاتا ہے یہی وہ وصف ہے جو ان کی شاعری کو دیگر ہم عصر شعراء سے منفرد و ممتاز کر تا ہے ۔
سب سے گہری ہوتی ہے لفظوں کی چوٹ
لہجے کا ہر وار بچانا ہوتا ہے

کوئی میرے گھر سے لے جائے اسے
شور کرتی ہے بہت یہ خامشی

ہم اپنے گھر کو اٹھا کر کہاں لیے جائیں
سنا ہے شہر کا نقشہ بدلنے والا ہے

ہری بھری ہوئی شاخوں کو کاٹتی خلقت
زمیں پہ اگتے شراروں کو بھول جاتی ہے

ایک اک گھر مقبرہ بنتا ہوا
پھنس گیا ہے شہر کس بھونچال میں

نعمان شوق کے ہاں منظر نگاری اپنے درجہ کمال کو پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نعمان imagesکے شاعر ہیں۔وہ کینوس پر لفظوں کے بر ش سے ایسےimagesبناتے ہیں کہ انہیں داد دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ان کے ہاں لفظوں کے عقب سے اُبھرنے والی دھند ایک ایسا ہالہ بناتی ہے کہ جس سے دھیرے دھیرے imagesکا ہیولا اُبھرنے لگتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ایک پوراimage ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ اس Imagesمیں ندی ، نالے ، تالاب ، پھول ، تتلیاں ، ٹہنیاں ، پیڑ، گلاب ، دریا ، سمندر ، کنارے ، ریت ، ساحل ، ایسے مضبوط استعارے موجود ہیں ۔ گویا ایک طرف شاعر منظر کشی کر رہا ہے تو دوسری طرف مناظر فطرت کو بھی نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ اسے لفظوں کا پیرہن عطاکرنے کی بھی بھرپور کوشش بھی کر رہا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
پتھر نہیں تو پھول ہی پھینکا ہے آپ نے
یوں جاگتا نہیں کوئی تالاب بے سبب

بات کچھ تو ہے کاغذی پھولوں میں بھی
بے تحاشہ آرہی ہیں تتلیاں اڑتی ہوئی

مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ و بو نے بات کی
ایک سوکھے پیٹرسے کل آبجو نے بات کی

مجھ کو بھی پہلے پہلے اچھے لگے تھے یہ گلاب
ٹہنیاں جھکتی ہوئی اور تتلیاں اڑتی ہوئی

دوڑنے کو کہہ دیا اس نے سلگتی ریت پر
خشک میں کر ہی رہا تھا پاؤں سے پانی ابھی

کتاب کی پہلی غزل میں شاعر عجب تذبذب میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کی درمیانی سرحد پر کھڑا خود کلامی کی کیفیت میں غزل کہہ رہا ہے وہ کہیں ہریالیوں کا ہاتھ چھوڑنے کی بات کرتا ہے تو اگلے ہی مصرعے میں آگ بن کر سارے جنگل میں بھڑک اٹھنے کا سندسیہ بھی سنا دیتا ہے ۔ باقی تمام غزلوں میں بھی یہی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے ۔ پہلے مصرعہ میں اگر مثبت سوچ دکھائی دیتی ہے تو دوسرے مصرعہ میں اس کا تضاد موجود ہے ۔ یہ مثبت او رمنفی رویے دراصل شاعر کی بے یقینی کی سی کیفیت کے آئینہ دار ہیں ۔دو شعر ملاحظہ ہوں :

ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
آگ بن کر سارے جنگل میں بھڑک سکتا ہوں میں

میں اگر تجھ کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں

نعمان شوق کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اسی غزل میں نہیں بلکہ دیگراور غزلوں کے اندر بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ وہ کسی اکتاہٹ کا شکار ہیں اور اسی اضطرابی کیفیت میں وہ شعر بھی تخلیق کر رہے ہیں ۔ وہ کسی خوف یا اندیشے کی وجہ سے ایسا ہرگز نہیں کرتے بلکہ اندر کی کوئی بے چینی انہیں ایسا کرنے پر اکساتی رہتی ہے اور وہ اسی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں ایک شعر اور ملاحظہ ہو جس میں اسی کیفیت کا اظہار بڑے واضح انداز میں ملتا ہے ۔
بن چکا جتنا مجھے بننا تھا
چاک سے چھین کے پھینکوں خود کو

مجموعہ میں کچھ شعر ایسے بھی نظر کے سامنے آئے ہیں جس میں وہ غیر شعوری طور پر اس کیفیت سے باہر نکلنے اور خود کو سمیٹنے کی بات کرتے ہیں ۔وہ پر انتشار عمل کسی کی یادوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ بھیڑ یادوں کی جب ذرا کم ہو تو وہ اپنے آپ کو سمیٹنے پر بھی قادر ہوجاتے ہیں ۔ وہ خود کہتے ہیں :
بھیڑ چھٹ جائے ذرا یادوں کی
شور کم ہو تو سمیٹوں خود کو

نعما ن شوق کے ہاں تنہائی اور پھر تنہائی میں کسی کی یاد کا دکھ پہروں انہیں کربناک کیفیتوں میں مبتلا رکھتا ہے ایسے میں پھر وہ خود کو مصروف رکھنے کے حیلے بہانے تلاشنے لگتے ہیں ۔ دن تو خیر اِدھر اُدھر کی مصروفیات میں گزر جاتا ہے مگر رات ہوتے ہی یہ تنہائیوں کا دکھ مزید بڑھنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے انسان اپنے آپ کو بالکل اکیلا محسوس کرنے لگتا ہے ۔ ایسے میں خامشی ، سکوت بھی انہیں اندر سے توڑنے لگتا ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں:

کچھ اور بڑھ گیا مری تنہائیوں کا دکھ
چمکیلے پھول کھلنے لگے آسمان پر

اک مسئلہ بننے لگی جب یاد کسی کی
حل اِس کا یہی نکلا کہ فرصت سے بچا جائے

بس اک طریقہ ہے مصروف خود کو رکھنے کا
جو نیند توڑ کے ہم رتجگے بناتے ہیں

نعمان شوق بے جان اور غیر مرئی چیزوں کی تجسیم کرنے کے فن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ یہ وہ فن ہے جس سے آگاہی کے بعد پتھر ، درخت ، تارے، راستے ، خواہشیں اورآئینے سے آپ نہ صرف باتیں کرسکتے ہیں بلکہ اپنے دکھ ، درد بھی انہیں بتا سکتے ہیں اور یہ فن ہر ایک کو نہیں آتا جنہیں آتا ہے وہ اپنے اندر کا سارا زہر صفحہ قرطاس پر نکالنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں ۔

کیسے پتھر میں بھی پڑ جاتی ہے جان
لمس سے پیکر میں بے چینی سی ہے

آئینہ دیکھ کے رو پڑتی ہیں
خواہشیں سجنے سنورنے والی

کچھ تو میں اپنی تب و تاب دکھاؤں اس کو
جھیل سوئی ہے اسے جھومتا بادل کرلوں

عاشر ے کی نفسیات کو غزل کے پیرایہ میں بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا مگر یہ کام کرنے والے کرتے رہے ہیں۔ بہت پہلے باقی صدیقی نے ایک شعر کہا تھا جس نے کئی سالوں سے مجھے اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے اور میں اس کے سحر میں ایسا گرفتار ہوا ہوں کہ بیان سے باہر ہے باقیؔ صدیقی نے کہا تھا :
آپ کو کارواں سے کیا مطلب
آپ تو میر کارواں ٹھہرے

یہ شعر ہمارے رہنماؤں کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ تھا اسی طمانچے کی بازگشت مجھے نعمان شوق کے ہاں بھی سنائی دی ہے ۔ نعمان شوق نے بھی ایک ایسا ہی خوبصورت شعر کہا ہے جس میں بلا کا طنز پوشیدہ ہے ۔ دراصل ایک سچا تخلیق کار سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر منافقت کبھی برداشت نہیں کرتا ۔نعمان نے اس صورت حال کو انتہائی خوبصورت انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے وہ کہتے ہیں :
آپ کو کیا شہر کے آزار سے
بیٹھئے ظلِ الہٰی کے قریب

نعمان شوق نے کشتِ غزل میں جدت کے بیج بوئے ہیں ۔ وہ غزل کے مزا ج کو سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق ہی لفظوں کو برتتے ہیں وہ غزل کے دامن میں بھاری بھرکم الفاظ کے بجائے عام فہم ،سہل اور رواں لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ہمیں سہلِ ممتنع کی عمدہ مثالیں دکھائی دیتی ہیں ۔
نام سے اس کے پکاروں خود کو
آج حیران ہی کردوں خود کو

میرے حصے میں مرا کچھ بھی نہیں
اس سے مل جاؤں تو پاؤں خود کو

نعمان شوق عہد حاضرکے ایک ایسے باضمیر اوردردمند شاعر ہیں جو دوسروں کے دکھوں کو اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں ۔ دوسروں کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھ کر پہروں خود پر اور زمانے پر نالاں رہتے ہیں۔ ان کے ہاں رومانوی انداز بھی موجود ہے لیکن بڑے ہی سلیقے اورنزاکت کے ساتھ شعر کہتے ہیں یہی وہ وصف ہے جو انہیں دیگر ہم عصر شعراء سے نہ صرف ممتاز بلکہ منفرد بھی کرتا ہے ۔ نعمان شوق غزل کے میدان کے بہت بلند پایہ شاعر ہیں ان کے خیالات و افکا ر کو سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نعمان شوق کوجدید اردو غزل کا سرمایہ افتخا ر سمجھا جانے لگے گا او ر وہ وقت دور نہیں ہے ۔ میری دعا ہے کہ نعمان شوق ہمیشہ اسی طرح ادب کے میدان میں فعال رہیں ۔ مجھے امید ہے کہ جلتا شکارہ ڈھونڈنے میں گلستان ادب میں تادیر اپنی مہک برقرار رکھے گا ۔
ذوالفقاراحسن
About the Author: ذوالفقاراحسن Read More Articles by ذوالفقاراحسن : 2 Articles with 2340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.