خوشبو ہو کہ تم ہو۔۔۔ایک جائزہ

شعری داخلی آہنگ اگر شدید نہ ہو تو وجدان کی میز ان پر کھرا نہیں اترتا۔ذوالفقار احسن نہایت رواں بحروں میں شدید داخلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔جیسے ذات کے نہاں خانے اپنے طلسم کو توڑ دینا چاہتے ہوں۔جیسے کوئی سایہ ہر شئے پر محیط ہو جانا چاہتا ہو۔خود میں ڈوب جانے اور خود کو دریافت کرنے کی للک تمام حائل پردوں کو چاک کر دینا چاہتی ہو۔انکی شعری کائنات بسیط اور متنوع ہے۔نئی تراکیب نئے استعارے ان کے لب و لہجے کو تازگی بخشتے ہیں۔ایک نیچرل شاعر کی طرح ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔موجودہ معروضی حالات نے شاعری اور غزل کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے ، رنگ تغزل کو برقرار رکھنا دشوار ہوگیاہے۔منفرد لہجے کی خواہش میں شاعری کا حسن پامال ہوتا جا رہا ہے۔ذوالفقار احسن شاعری کی فسوں کاری سے بخوبی آگاہ ہیں۔ان کے لہجے کی نرمی اور دلپذیری ہمیں غزل کی تہہ در تہہ معنویت کا احساس دلاتی ہے۔آج کے انسان کی بپتا کو جس نفاست،سچائی اور دردمندی سے انہوں نے اپنی شاعری میں سمویا ہے،ان کی حسی لطافت،فکری ندرت اور اظہار کی پختگی چونکا دیتی ہے۔ذوالفقار احسن کی شاعری جہتوں کے لحاظ سے پہلودار،قالب کے حوالے سے پرکشش اور روایت اور جدت کے تعلق سے قابل تحسین ہے ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ زیرک ہے۔وہ غم جاناں کو غم دوراں میں تحلیل کرنے پر بھی قادر ہیں اور غم دوراں کو نغمہ ء لاہوت میں ڈھالنا بھی جانتے ہیں۔
جیت ہو یا کہ مات کیا کیجئے
جب دل کی ہے بات کیا کیجئے
آرزوئے حیات کیا کیجئے
حسرت انبساط کیا کیجئے
ہوگا کس کا شریک غم کوئی
اپنی اپنی ہے ذات کیا کیجئے
پاؤں چادر تلک ہی رکھتا ہوں
ہے یہ اپنی بساط کیا کیجئے

ذوالفقار احسن اپنی طبیعت میں بہت سادہ اور صاف گو انسان ہیں۔وہ زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنے کا مزاج رکھتے ہیں یہی بات انکی شاعری کا خاصا ہے۔وہ اپنی غزلوں میں بڑی سادگی کے ساتھ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو انکی غزلوں میں اپنی زندگی کا عکس دکھائی دینے لگتا ہے۔انکے ہاں روایت شناسی اور نو کلاسیکیت کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔موضوعات،تجربات،اسلوب بیان اور زبان سب کی سطح پر وہ اسی طریق کے پابند رہتے ہیں۔چند اشعار۔۔
شجر بھی ہے گھر میں عجب بات ہے‘پر
میسر مجھے اس کا سایہ نہیں ہے
*
جو باطن میں پلتا ہے وہ روگ احسن
کسی آئینے سے جھلکتا نہیں ہے
*
پچھم میں آفتاب کے جانے کی دیر ہے
’’ڈھل جاؤں گا میں سایہ ء دیوار کی طرح‘‘

وقت کے ساتھ تہذیب کے دھارے رخ بدل گئے ہیں۔عاشق بدل گئے ہیں۔محبوب بھی بدل گئے ہیں۔اقدار بدل گئی ہیں۔ذوالفقار احسن ’’کبھی اس سے بات کرنا،کبھی اس سے بات کرنا‘‘ جیسے مراحل سے بھی اپنے انداز میں گزرے ہیں۔ان کے ہاں ’’چاہنے‘‘ سے زیادہ’’چاہے جانے‘‘ کی خواہش زیادہ ہے۔

میں کچھ نہیں تھا تو وقت رخصت وہ تیری آنکھوں میں کیا نمی تھی،کہ میرے لب پر گئی رتوں کا سوال ٹھہرا ہوا ہے اب تک۔
تم ہی حصار ذات سے باہر نہ آسکے، ورنہ ہمارا درد تو تم سے نہاں نہ تھا۔
میں بے ساختہ یاد آیا کروں گا، دیا طاق پر جب بھی رکھا کرے گا۔

شاعر روایتی ہو یا جدید وہ انسان ہوتا ہے۔اور انسان ایک سماجی ذی روح ہے۔چنانچہ وہ اپنے معاشرے اور سماج سے الگ ہو کر نہ تو کچھ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ایک حساس شاعر اپنے معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات سے نہ صرف یہ کہ باخبر رہتا ہے بلکہ انھیں شدت سے محسوس بھی کرتا ہے۔
جس کو دیکھو گلوں کا تاجر ہے، کون چنتا ہے خار مٹی سے۔
کس طرح منزل پہ پہنچے گا سلامت قافلہ، کوئی راہزن جب امیر کارواں ہو جائے گا۔
راہزن دندناتے پھرتے ہیں، مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔
دلوں میں اب کے سلگ رہی ہے تفاوتوں کی یہ آگ کیسی، نہ جانے کس کی نظر لگی ہے ہماری کومل محبتوں کو۔
سر سبز کھیتیوں میں اب اگتی ہیں وحشتیں، احسن یہ بیج کس نے بکھیرا ہے ہر طرف۔
روتے ہیں جب بھی بچے کھلونے کے واسطے، میرے حلق سے نیچے نوالے نہیں گئے۔

ذوالفقار احسن کی غزلیں تہہ در تہہ فکر کی حامل ہیں۔ وہ لایعنی قسم کی لفاظی اور رنگینی کو آگے بڑھانے کی بجائے استفہامیہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔وہ کبھی خود سے او رکبھی سماج سے سوال پوچھتے دکھائی دیتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ہمارا ’’آج‘‘ مختلف سوالوں سے اٹا کرب کی وادیوں میں کہیں گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ذوالفقار احسن کو بھی کئی سوالوں کا سامنا ہے۔

ذوالفقار احسن نے شاعری کو اپنی ذات میں محسوس کر لیا تھا اسی لئے ان کی آواز حسی تجربات کی روداد معلوم ہوتی ہے۔جیسا کہ خود انھوں نے کہا
میں ڈھل بھی گیا تو یہ مہتاب احسن، ضیاء سے میری استفادہ کرے گا۔
میں پتھر کو بھی موم کر دوں گا اک دن، میرے ہاتھ میں وہ ہنر جا گتا ہے۔

ان کی غزل کے لب و لہجہ نے ہندوپاک کے بیشتر موسیقاروں کو متاثر کیا ہے۔انکی غزلیں کتابوں،رسائل و جرائد کی زینت کے ساتھ موسیقاروں کی کیسٹوں میں بھی مقبول ہیں۔

’’خوشبو ہو کہ تم ہو‘‘ ذوالفقار احسن کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔139صفحات پر مشتمل یہ کتاب ریز کمیونیکشن لاہورکی فنی مہارتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مجموعہ میں مختلف اصناف سخن بشمول حمد و نعت،غزل،قطعات اور ہائیکوز شامل ہیں۔ابتدائی صفحات میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی،ڈاکٹر انعام الحق جاوید،نصرت چوہدری،صفدر خورشید،ارشد ملک اور اکبر حمیدی کی آراء دی گئیں ہیں۔عنوان کی ذیل میں ذوالفقار احسن کے کلام کی ملک کے مشہور و معروف جرائد میں اشاعت کے ہمراہ ان کا شخصی تعارف پیش کیا گیا ہے۔تجربے کی انفرادیت اور احساس کی ندرت سے بھرپور ’’خوشبو ہو کہ تم ہو‘‘ شعری مجموعوں کی بھیڑ میں بہت نمایاں ہے۔اس شعر کو ذوالفقار احسن کی پہچان بن کر سفر کرنے والا شعر قرار دیا گیاہے۔
اب تو چہکیں گے خموشی میں بھی لفظوں کے پرند
تیرے ہونٹوں کی منڈیروں پہ جو آبیٹھے ہیں
ارم ہاشمی
About the Author: ارم ہاشمی Read More Articles by ارم ہاشمی : 18 Articles with 20946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.