|
سائبر کرائمز یا انٹرنیٹ کے ذریعے
ہونے والے جرائم کے خلاف متنازعہ آرڈیننس غیر اعلانیہ طور پر نافذ کر دیا گیا
ہے۔
یہ وہی آرڈیننس ہے جس کے مسودے پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد،
قانونی ماہرین اور عام صارفین نے سخت اعتراضات کیے تھے۔
آرڈیننس کے نفاذ کا انکشاف جمعرات کو اس وقت ہوا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے
نگراں وفاقی وزیر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں
صحافیوں کو بتایا کہ’پریونشن آف ای کرائم آرڈیننس‘ اکتیس دسمبر 2007ء سے نافذ
العمل ہوچکا ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے ایک مقامی اردو اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ صدر
پرویز مشرف نے سائبر کرائم کے خلاف آرڈیننس جاری کردیا ہے تاہم وفاقی حکومت کے
محکمہ اطلاعات یا پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے اس سے لاعلمی ظاہر کی
تھی۔ |
عام طور پر صدر جب
کوئی آرڈیننس جاری کرتے ہیں تو وفاقی حکومت پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی)
کے ذریعے میڈیا کو اس کی نقول جاری کرتی ہے تاہم اس آرڈیننس کے اجراء اور نفاذ
کو گیارہ دن بعد منظر عام پر لایا گیا ہے۔
آرڈیننس کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا، انٹرنیٹ یا موبائیل کی مدد سے
کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ، غیراخلاقی یا بےہودہ سمجھا جائے اور
مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرنا جرم قرار دیا گیا ہے
اور اس پر کم سے کم سات سال اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔
قانونی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قانون کا کسی کے بھی خلاف غلط استعمال
کیا جاسکتا ہے کیونکہ قانون مبہم ہے اور اس میں جرائم کی پوری طرح وضاحت نہیں
کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا اطلاق انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ تصویر کشی
اور پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والے تمام برقی آلات مثلاً کیمرہ، موبائل
فون وغیرہ کے استعمال پر بھی ہوگا۔
آرڈیننس میں 18 مختلف جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے لیے سخت سزائیں
تجویز کی گئی ہیں جن میں تین ماہ سے لیکر دس سال قید، بھاری جرمانے، عمر قید
اور موت کی سزائیں بھی شامل ہیں جبکہ کسی کو سپیم ای میل (ایسی ای میل جس کی
وصول کرنے والے نے خواہش نہ کی ہو) بھیجنے کی سزا پچاس ہزار روپے جرمانے سے
لیکر تین ماہ قید مقرر کی گئی ہے۔
قانون جن جرائم کی نشاندہی کرتا ہے اس کے مطابق ان میں کئی ایک ناقابل ضمانت
ہوں گے مثلاً کسی کمپیوٹر سسٹم کو نقصان پہنچانا حتٰی کہ کسی کو غیراخلاقی ای
میل یا ایس ایم ایس بھیجنا بھی ناقابل ضمانت جرم ہوگا۔
اس قانون پر عملدرآمد کا اختیار فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کو دیا
گیا ہے جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر سسٹم، لیپ ٹاپ، موبائل فون،
کیمرہ وغیرہ شک کی بنیاد پر اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور اسے گرفتار بھی
کرسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون میں ایف آئی اے کو لامحدود
اختیارات دیے گئے ہیں جن کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔
نگراں وفاقی وزیر کے مطابق اس قانون کے تحت قائم ہونے والے مقدمات کی سماعت سات
رکنی ٹریبونل کرے گا اور اس کے فیصلے کے خلاف صرف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ
میں اپیل داخل کی جاسکے گی۔ |