ڈاکٹر طاہر القادری کی بیداری شعور مہم۔ایک درست قدم

اس سرد موسم میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت کافی گرم ہے ۔ عمران خان کسی ”ہوائی“ گھوڑے پر سوار ہاتھ میں جلد انتخابات کا چابک لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پیچھے ہے ۔اپنے خیال میں وہ لاہور کو سیاسی طور پر فتح کر چکا ہے اور اب اس کی نظریں کراچی پر لگی ہوئی ہیں۔مسلم لیگ ن اپنی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت کو بحال کرنے کے لیے نیٹو حملے پر سپریم کورٹ جا چکی ہے اور سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں فیصلہ دیکر حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے جو پہلے ہی این آر او پر عدالت کے فیصلہ سے پریشان ہے۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک بات پر متفق ہیں کہ نئے انتخابات جلد از جلد ہوں ۔مگر اس سیاسی تحرک میں ایک اور کھلاڑی ڈاکٹر طاہرالقادری کا اضافہ بھی ہو چکا ہے جس نے انیس نومبر کو لاہور میں طلباءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اس موجودہ فرسودہ نظامِ انتخاب کو تمام سیاسی برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے بدلنے کا نعرہءمستانہ یوں بلند کیا ہے کہ”نظام بدلا جائیگا ۔سر عام بدلا جائیگا“۔اور اس نعرے کو ایک عوامی تحریک میں بدلنے کے لیئے ملک بھر میں جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے نظریات سے کوئی ہزار اختلاف کرے مگر یہ بات طے ہے ان کی شخصیت ایک مسلم حقیقت ہے۔ایک ایسا شخص جو ایک زبردست ، منظم تنظیم اور تحریک کا سرپرست ہو جس کا دائرہ پورے پاکستان اور دنیا کے اسی سے زیا دہ ممالک میں پھیلا ہو۔جو پنجاب یونیورسٹی میں سنڈیکیٹ کا رکن رہا ہو ،جوو فاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا مشیر رہا ہو۔جس نے 1995میں غیر سرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا عوامی تعلیمی منصوبہ پیش کیا اور اس کے تحت پاکستان بھر میں 572پبلک و ماڈل سکول اور کالجز قائم کیے۔ بعد ازاں منہاج یونیورسٹی قائم کی جسے ایچ ای سی نے رینکنگ میں ہائی کیٹیگری میں رکھا ۔جس نے یتیم بچوں کے لیے آغوش کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ جس کی فلاحی اور انسانی کوششوں کی اقوام متحدہ نے بھی تعریف کی اور اسکی منہاج ویلفیئر کو ایک خاص مقام دیا ۔1992میں اس نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشن کا احاطہ کرنے والا بلا سود بینکاری نظام پیش کیا جس کو پوری دنیا میں سراہا گیا ۔جس کو امریکن بائیو گرافک انسٹیٹیوٹ نے ان کی علمی اور انسانی خدمات کے صلہ میں بیسویں صدی کا عظیم شخص قرار دیا۔جس نے اردو ، انگلش اور عربی میں پانچ ہزار سے زائد خطابات کئے۔ ہر خطاب معلومات کا ایک خزانہ لیئے ہوئے۔ جس نے ایک ہزار سے زائد کتب لکھیں جن میں سے چار سو سے زائد چھپ بھی چکی ہیں ۔ ہر کتاب جیسے کوزے میں دریا بند۔جس کے علمی تبحر کو دیکھتے ہوئے پہلے معروف بزرگ سید رسول شاہ خاکی نے اور بعد ازاں عرب علماءنے شیخ الاسلام کا خطاب دیا ۔

جی ہاں اسی طاہرالقادری نے 1979میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور سب سے پہلے عوام کا نعرہ لگایا ۔اس ملک کے خار زارِ سیاست میں طبع دو مرتبہ طبع آزمائی کی مگر اس فرسودہ اور کرپٹ جمہوری نظام نے ان کی جماعت کو ملک کی تقدیر بدلنے کا موقع فراہم نہ کیا ( یہ قوم شائد ان جیسے زندہ افراد کی قدر کرنے کی عادی نہیں ،البتہ ان کی موت کے بعد ان کی خدماتکو یاد کرتی ہے)۔ایک بار وہ خود ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو ئے مگر بعد ازاں انہوں نے اس نظام سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی نشست سے استعفیٰ دیدیا تھا ۔ یہ استعفیٰ بھی شاید اپنی مثال آپ تھا ورنہ پاکستان میں اس کا کوئی رواج نہیں ہے ۔اگر آپ ریسرچ کریں تو معلوم ہوگا کہ کسی بھی سیاسی جماعت خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا کوئی عوامی گراونڈ ورک ہے ہی نہیں ۔کوئی عوامی فلاحی منصوبہ ہی نہیں مگر ہر بار ووٹ انہی کو ملتے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ اس انتخابی نظام نے عوام کو جکڑ رکھا ہے۔ اور وہ جماعتیں جو عوامی خدمت میں پیش پیش ہیں جیسے منہاج القرآن، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور اس کے علاوہ بعض دیگر جماعتیں بھی ا ن کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔یہ سب اس مکروہ انتخابی نظام کی وجہ سے ہے۔جس میں شریف اور متوسط طبقے کا کوئی شخص الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا ۔ جہاں پانچ چھ کروڑ روپیہ لگا کر ایک سیٹ جیتی جاتی ہے۔ سوال بڑا سادہ ہے کہ جو شخص اتنا سرمایا لگا کر الیکشن جیتتا ہے کیا وہ ایمانداری کرنے کے لیئے جیتتا ہے؟ اس بات کا کس الیکشن کمیشن کو پتہ نہیں ہے؟ کس جمہوری پارٹی یا اس کے سو کا لڈ جمہوری سربراہ کو پتہ نہیں ؟سب کو پتہ ہے مگرکوئی اس کے خلاف نہیں بولتا کیونکہ یہ نظام ان سب کے مفاد میں ہے۔ یہ انتخابی نظام ان کا اور وہ اس نظام کے محافظ ہیں ۔ سٹیٹس کو کی حامل تمام پاڑٹیاں اسی لئے تو یہ نعرہ لگاتی ہیں کی اس نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔یہ انتخابی نظام وننگ ہارسز کی گیم ہے۔یہ ایک بہت بڑی انویسٹ منٹ بن چکا ہے۔لوگ پیسے لگاتے اور کماتے ہیں ۔سب مایا ہے
کاروانوں کو لوٹنے کے لیئے
راہزنوں نے دیئے جلائے ہیں

اس نظام میں ٹکٹیں بکتی ہیں ! کیا کبھی کسی نے پابندی لگائی؟ کون لگائے گا ؟کیونکہ دونوں طرف بکتی ہیں۔حلقہ بندیاں برادریوں کی بنیادپر ہوتی ہیں ۔ووٹ کبھی ڈرا دھمکا کر اور کبھی پیسے سے خریدے جاتے ہیں ۔ سرکاری افسر امیدوار کی خدمت کو آجاتے ہیں جو انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے حلقہ میں اپوائینٹ کروائے ہوتے ہیں ۔ یہاں انتخابات کے نام پر سیاسی سرکس لگتی ہے ۔ اک میلہ لگتا ہے لوگوں کی کردار کشی ہوتی ہے ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں ۔تنخواہ دار غنڈوں اور ورکروں کی فوج ظفر موج گلی گلی کوچہ کوچہ آ جاتی ہے ۔ اک تماشہ ہے جو عرصہ دراز سے جاری ہے۔ الغرض یہ سارا نظام ہی کرپٹ ہے۔اور یہ نظام بھی جمہوری نہیں یہاں ووٹ ڈالنے کی شرح 35فیصد ہے۔اور اس نظام کے تحت صرف 20فیصد ووٹ لینے والی جماعت 100 فیصد لوگوں پہ حکومت کرتی ہے۔مثال کے طور پر ایک حلقہ میں اگر ایک لاکھ ووٹ ہیں تو ان میں سے 35ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے۔اور اگر اس حلقہ میں دوامیدوار ہیں تو فرض کریں کی ایک کو بیس ہزار اور دوسرے کو پندرہ ہزار ووٹ ملے۔ اس صورت میں بیس ہزار ووٹ لینے والا شخص اس حلقہ کا منتخب نمائندہ قرار پائے گا حالانکہ اسی فیصد لوگوں نے اسے منتخب کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ یہ جعلی جمہوریت ہے۔ اس سے بہتر تو متناسب نمائندگی کا جمہوری نظام ہے جو کئی ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنی خدا دا قا بلیت اور محنت سے ہر میدان میں بہت کام کیا ہے ۔ایسا دانائے راز افلاک کی ہزار ہا گردشوں کے بطن سے نمودار ہوتا ہے جس نے قوم کے مرض کی درست تشخیص کی ہے اور عوام کے شعور کو بیدار کرنے کے لیئے عوامی بیداری شعور مہم کا آغاز کرکے اک درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔یہ ہر اس دل کی آواز ہے جو ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتا ہے۔ مگر یہ کام خاصا مشکل ہے بڑے بڑے فرعون اس رستے میں حائل ہیں عوام کا شعور بھی شائد گہری نیند سو چکا یہی وجہ ہے کہ وہ ہزار گالی بھی انہی دو بڑی پارٹیوں کو دیتی ہے اور پھر ووٹ بھی انہی کو۔ بہر حال وہ سیاسی جماعتیں جو ملک میں حقیقی تبدیلی کی خواہاں ہیں ان کہ چاہیے کہ اس موجودہ فرسودہ نظام انتخاب کو جہنم برد کرنے کے لیئے ڈاکٹر قادری کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مشترکہ جدو کہد کریں۔تحریک انصاف، جماعت اسلامی،ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک اور دیگر جماعتیں جو ملک میں پسے ہوئے طبقے کی حالت سنوارنے کا عزم لیئے ہوئے ہیں ان کو چاہیئے کہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اس جدو جہد کا آغاز کریں ۔ عوام کو بھی اب اس نظام سے بغاوت کرکے ان سرمایا داروں، جاگیر داروں ، سر داروں اور زر داروں سے اپنے حقوق چھیننا ہوں گے۔منافقت کی زندگی کو چھوڑ کر حق کا نعرہ بلند کرنا ہو گا
دنیا میں اس سا منافق نہیں کوئی قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔

میڈیا کو بھی اس سلسلہ میں اپنا کردار دا کرنا ہو گا اور اپنی گذشتہ غلطیوں کی تلافی کرنا ہوگی کہ اس نے بھی اپنی پروجیکشن سے ایسے ایسے لوگوں کو قومی لیڈر بنا دیا جو اس کے اہل ہی نہ تھے اور انہوں نے ہی ابتک عوام کا خون چوسا ہے سول سو سائٹی اور عوام کو باہر نکلنا ہو گا اور ایک پر امن جدو جہد کرنا ہو گی۔اور اگر عوام نے ایسا نہ کیا اور اسی فرسودہ نظامِ انتخاب کے تحت ہی الیکشن ہوئے اور مزید سو الیکشن بھی ہوتے رہے تو انیس اکیس کے فرق کے ساتھ یہی جماعتیں اقتدار میں آئیں گی۔ عمران خان کی تحریک انصاف کو شائد اتنی سیٹیں بھی نہ ملیں کہ وہ موثر اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر سکے اور رہی بات عوام کی تو ان کے لیئے وہی محرومیاں۔بھوک اور افلاس۔
وہی آبلے ہیں وہی جلن
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 27994 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More