کوّا چلا ہنس کی چال

کاش ہمارے حکمران غیرت مند ہوتے ۔ عالم مگر یہ ہے کہ امریکہ کہتا ہے "ناچ میری بلبل کہ پیساملے گا"اور یہ دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج کل میڈیا اور لکھاریوں کے مرغوب ترین موضوع کا ذکر نہیں۔ ہر گز نہیں کہ مجھے "چسکے "لینے کی عادت نہیں ۔ ہم تو ایک عشرے سے متواتر کئی انتہائی شرمناک ”سانحات“ کو گھول کر پی لینے کے عادی ہو چکے ہیںپھر منصور اعجاز کے مبینہ خط کی کیاحیثیت کہ اس سے کہیں بڑا اور شرمناک سانحہ ہم پہ گزر بھی چکا اور ہم نے بے حمیّتوں کی طرح ”اب کے مار“ کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ”آئیندہ برداشت نہیں کیا جائے گا“ پر اکتفا کر لیا ۔اگر ہمارے چوبیس جوانوں کی شہادت کا جواب نیٹو کے 240 فوجیوں کی ہلاکت کی صورت میں دے کر نیٹو سے دست بستہ معافی مانگ لی جاتی تو شاید یہ کہا جا سکتا کہ ”ہم زندہ قوم ہیں “۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ سے جس نے بغاوت کی ٹھانی اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف محض اس لئے میرے ہیرو ہیں کہ ایک ایٹم بم کی بنیاد رکھ کر پھانسی پر جھول گیا اور دوسرا ایٹمی دھماکے کرکے ”بے وطن “ہو گیا۔ میں عرض کر رہی تھی کہ منصور اعجاز نے تو صرف ایک راز افشا کیا ہے یہاں تو پتہ نہیں کتنے شرمناک رازبے حمیّتی کی چادر تان کر خوابِ گراں کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔شاید اسی لئے محترم وزیرِ اعظم نے کہا ہے ”کر لو جو کرنا“۔البتہ عمران خان کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ پر گرج برس رہے تھے لیکن آج کل وہ بھی خاموش ہیں ۔غالباََ امریکہ کی جانب سے بذریعہ کیمرون منٹر قبولیت کی سند عطا ہونے کے بعد مخالفت کا کوئی جواز باقی نہیں بچتا ہو گا۔ویسے عمران خاں جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے اختلاف کی مطلق گنجائش نہیں لیکن پھر بھی میں انہیں عمران خاں کی بجائے ”مہمان خاں“ کہتی ہوں جس کی کئی وجوہات ہیں ۔پہلی یہ کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ تو ہر سیاسی پارٹی حتیٰ کہ ہر کرپٹ لیڈر بھی کہتا ہے ۔غضب کرپشن کی عجب کہانیاں تو عمران خاں سے کہیں بڑھ کر محترم عرفان صدیقی اور کامران خاں بیان کرتے ہیں پھر ان میں سے کسی کو وزیرِ اعظم کیوں نہ بنا لیا جائے ؟۔دہشت گردی پر خطبے اور امریکہ پر تبّرہ بھیجنے میں دینی جماعتوں کا کوئی ثانی نہیں۔لوٹی گئی ملکی دولت کو واپس لانے کے لئے چیف صاحب ”لٹھ“ لے کر خائنوں کے پیچھے پڑے ہیں۔این۔ار۔او نظرِ ثانی کیس مسترد کیا ہو چکا اور بابر اعوان جھاڑ کھا کر گھر بیٹھ رہے ، خارجہ پالیسی کی خاں صاحب کو سرے سے کوئی شُد بُد نہیں اور مہنگائی کا رونا ان سے زیادہ کوئی اور نہیں رو سکتا جو اس کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔وہ اپنے اسلام آباد کے ساڑھے تین سو کنال کے گھر میں بیٹھ کر مہنگائی کے بارے میں کیا جانیں۔انہوں نے اپنے مینارِ پاکستان کے جلسے میں اپنی تقریر سے قریباََ ڈیڑھ گھنٹہ قبل کہا کہ وہ آج ایک ایسی بات کہنے جا رہے ہیں جس سے انقلاب آ جائے گا لیکن”دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا“ ۔۔۔۔ ہم نے ڈیڑھ گھنٹہ کنسرٹ دیکھا پھر عمران خاں کی طویل تقریر لیکن نہ کوئی انقلابی بات، نہ انقلاب۔وہی گھسی پٹی باتیں جنہیں سن سن کر کان پک چکے ہیں۔کیا وہ پٹواریوں اور تھانے داروں کی بات کرکے انقلاب لانا چاہتے ہیں؟۔ پٹواریوں کا رونا تو انتہائی جابر مگر اعلیٰ منتظم گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان مرحوم بھی روتے رہے ہیں ۔خان صاحب نے کوئی نئی بات تو نہیں کہی ۔ پھر ”لینڈ ریکارڈ“کمپیوٹرائز کرنے پر عرصہ دراز سے کام ہو رہا ہے جو تقریباََ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔عرض ہے کہ ملک کی ستّر فیصد آبادی آج بھی بے گھر اور بے زمین ہے جس کا پٹواریوں سے کچھ لینا دینا نہیں اور اسی ستّر فیصد کی غالب اکثریت ووٹ ڈالنے باہر نکلتی ہے باقی تیس فیصد تو ووٹ کا جنجال سرے سے پالتی ہی نہیں۔رہی ”تھانیداری الیکشن“کی بات تو کیا کوئی ذی ہوش یہ تصّور بھی کر سکتا ہے کہ کسی چوہدری ،وڈیرے یا سرمایہ دار کے علاوہ بھی کوئی تھانیداری الیکشن جیت سکتا ہے ؟تو کیا وہ ان لوگوں کے ہاتھ مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں ؟۔کہیں یورپ،امریکہ کی پیروی کرتے کرتے ایسا نہ ہو کہ ”کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا“۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خاں کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے ۔وہ بات کرتے ہیں نئی اور دیانت دار قیادت کی لیکن اپنے گرد اکٹھے کر لئے ہیں سارے راندہ درگاہ ،لوٹے اور لُٹیرے اور مشرفیے۔ آقا ﷺ کا فرمان ہے ، ”آدمی اپنے دوست سے پہچانا جاتا ہے ۔ تم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ کون کس سے دوستی رکھتا ہے “ ۔شیخ سعدی کہتے ہیں
با بداں کم نشیں کہ صحبتِ بد
گرچہ تُو پاکی تُرا پلید کنند

کیا خان صاحب اپنی پارٹی میں دھڑا دھڑ شامل ہونے والوں میں سے کسی ایک کی پاک دامنی کی قسم اٹھا سکتے ہیں۔؟ کیا خان صاحب ان کی معیت میں انقلاب لائیں گے ؟اگر اجازت ہو تو میں ان سب کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دوں؟اگر محض ایک دو جلسوں یا ریلیوں سے انقلاب بپا ہو سکتا تو کب کا ہو چکا ہوتا کہ پاکستان کی تاریخ اس سے کہیں بڑے جلسے جلوسوں سے بھری پڑی ہے۔با خبر حلقوں کے مطابق ان کے جلسے کو مقتدر قوتوں ، پی۔پی۔پی اور قاف لیگ کے زر خرید لکھاریوں نے غیر معمولی کوریج دے کر ان کو ”بانس “ پر چڑھا دیا ہے اور تحریکِ انصاف کی بالکل وہی اٹھان ہے جو ماضی میں اصغر خان کی تحریکِ استقلال کی تھی ۔اصغر خان بھی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے لئے ”شیروانیاں“ سلوا چکے تھے لیکن تاریخ کے اوراق میں گُم ہو گئے ۔اور اب عمران خاں؟

نہیں معلوم کہ ”کس “ کے اشارے پر الیکٹرانک میڈیا خان صاحب کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرتا چلا جا رہا ہے۔تحقیق کہ میڈیا کا کردارانتہائی جانبدارانہ ہے اور یہ میڈیا کا ”حُسنِ کرشمہ ساز“ ہی ہے جس سے عمران خاں ہواؤں میں اُڑنے لگے ۔اندازہ کیجئے کہ اکابرینِ تحریکِ انصاف بار بار کہہ رہے تھے کہ پچاس ہزار کرسیاں لگائی گئی ہیں جبکہ ایک معروف نیوز چینل کا نمائندہ چیخ رہا تھا کہ میرے سامنے ستر ہزار کرسیاں لگی ہیں ۔پرویز رشید نے کہا کہ اتنی جگہ پر اگر کوئی پچاس ہزار کرسیاں لگا کر دکھا دے تو میں مستعفی ہو جاؤں گا لیکن میڈیا کے تقریباََ تمام چینلز نے پچاس ہزار کرسیوں کو پچاس ہزار افراد میں بدل کر ان سے استعفیٰ طلب کر لیا جس کی آج تک تکرار جاری ہے ۔۔۔کہا گیا کہ عمران خاں کا جلسہ ایسے لوگوں کا اجتماع تھا جو کبھی گھروں سے باہر نہیں نکلے ۔مجھے تو کسی کے ماتھے پہ لکھانظر نہیں آیا کہ ”میں عشقِ عمران میں زندگی میں پہلی بار اپنے حجرے سے باہر آیا ہوں۔ “پھر میڈیا کو کیسے پتہ چل گیا ؟ کیا انہیں ”کشف“ ہوا تھا یا ہارون الرشید کے ”کالمی درویشوں“ نے بتلایا تھا ؟۔۔۔کہتے ہیں کہ جلسہ جذباتی نوجوانوں سے پُرتھا۔ معاف کیجئے گا جہاں کنسرٹ ہو وہاں ہلّہ گلہ تو ہوتا ہی ہے ۔اس سے کہیں زیادہ ہلّہ گلہ اور جذباتیت تو انڈین ”فلمی ایوارڈوں“ میں ہوتی ہے۔تحقیق کہ اگر گانے والوں کے ساتھ گانے والیاں بھی ہوتیں تو ہلہ گلہ کئی گنا بڑھ جاتا ۔۔۔ سنا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت عمران خاں کے ساتھ ہے ۔اگر خُدا میڈیا کو سچ لکھنے،کہنے اور دکھانے کی توفیق دیتا تو محض چند روز پہلے کے ”اسلامی جمعیت طلبہ“ کے لاکھوں سنجیدہ نوجوانوں کا سہ روزہ اجتماع بھی دکھاتا۔ان لاکھوں سرشار نوجوانوں کے مقابلے میں عمران خاں کے جلسے میں شریک نوجوانوں کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی۔۔۔ آئی۔ایس۔آئی نے تعداد ستّر ہزار بتائی ۔چلئیے شک کا فائدہ دیتے ہوئے اسے لاکھ سوا لاکھ کر لیتے ہیں لیکن پانچ لاکھ؟ ۔۔۔۔ دوسری طرف لاہور سے کہیں چھوٹے شہر فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں نواز لیگ کے جلسے کی تعداد خود تحریکِ انصاف لگ بھگ ایک لاکھ تسلیم کر رہی ہے۔ نواز لیگ کے جلسے کے دوران تحریکِ انصاف کے میڈیا سیل کے نمبر 80022 سے ان کے کار کنان کو ایک میسج ملا جو یہ تھا۔
Composition of PML-N jalsa :- PaTwariies (3 buses each) 400x150=60,000 , secretaries of 298 union councils 289 X 30=8670 , Police men in plain clothes 5,000 , All the staff of divisional , District & Tehsil administration .

یہ تعداد کسی بھی صورت میں ایک لاکھ سے کم نہیں بنتی۔پھر تحریکِ انصاف نے ایسا کون سا تیر مار لیا جو لوگ تیس سے پھُدک کر ستّر سیٹوں تک جا پہنچے۔ مزید یہ کہ اگر تحریکِ انصاف کے میسج کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نواز لیگ کے مطابق تحریکِ انصاف کا جلسہ اسٹیبلشمنٹ ، پی۔پی۔پی اور قاف لیگ کی کوششوں کا ثمر تھا۔ایک لکھاری یہ قلمی بد دیانتی کیسے کر سکتا ہے کہ ایک کو سچّا اور دوسرے کو جھوٹا قرار دے دے کہ دودھ کے دھلے تو دونوں ہی نہیں ۔عمر چیمہ ، ثنا بُچہ کے انتہائی معقول اور چُبھتے ہوئے سوال کا جواب نہ دے سکے تو ہاایک لکھاری نے اپنے کالم میں انہیں ڈانٹ پلا دی اور عمران خاں کو کہا کہ اسے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ کوئی ”خاتون “ میزبان بد تمیزی کا ارتکاب بھی کر سکتی ہے ۔کیا عمران خاں فرشتہ ہیں یا اوتار ؟۔

حرفِ آخر یہ کہ عمران خاں جو بار بار نواز لیگ سے اپنی ”واری“ مانگ رہے ہیں تو کیا وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چاہتے ہیں؟ ۔انہیں تو یہ کہنا چاہیے کہ ”زرداری جی جان دیو ، ساڈی واری آن دیو “ ۔ویسے تحقیق کہ عوام اب اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ کم از کم ”واریاں مانگنے“ والوں کو تو ہر گز ”واری“ نہیں دیں گے۔ا میدِ واثق ہے کہ سارے سیاسی ”تیتر بٹیر“ لڑتے لڑتے اپنی چونچیں اور دُمیں گُم کر بیٹھیں
گے اور ”واری “ وہ لے جائیں گے جو ہمیشہ اس کے انتظار میں رہتے ہیں۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 560028 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More