صحابہ کرام ؓ کے واقعات میں
تحریر ہے کہ جب ہجرت کے وقت سفر میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نبی کریم ﷺکے ساتھ
غار ثور کی طرف جارہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کبھی حضور ﷺ کے آگے چلتے
اور کبھی پیچھے چلنے لگتے یہ دیکھ کر حضور نبی کریم ﷺ نے پوچھا اے ابوبکر ؓ
ایسا کیوں کرتے ہو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا یار سول اللہ ﷺ جب مجھے
تلاش کرنے والوں کا خیال آتاہے تو میں آپ ﷺ کے پیچھے ہوجاتاہو اور جب گھات
میں بیٹھے ہوئے دشمنوں کا خیال آتاہے تو آگے آگے چلنے لگتا ہو ں مباد ا
کوئی آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچا دے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم خطرہ کی
صورت میں میرے آگے مرنا پسند کرتے ہو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کی یارسول
اللہ ﷺ رب زوالجلال کی قسم میری یہی آرزو ہے جب غار کے قریب پہنچے تو حضرت
ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ ٹھہریے میں غار کو صاف کرلوں یہ
کہہ کر غار میں داخل ہوگئے اور ہاتھوں سے ٹٹول کر غار کو اچھی طرح صاف کیا
اس کے بعد جہاں جہاں کہیں کوئی سوراخ نظر آیا وہاں کپڑا پھاڑ کر اس کو اس
کو بندکرنا شروع کردیا یہاں تک سارا کپڑا ختم ہوگیا اور ایک سوراخ باقی رہ
گیا وہاں آپ نے اپنے پاﺅں کا انگوٹھا رکھ دیا تاکہ کوئی چیز حضور نبی کریم
ﷺ کو تکلیف نہ پہنچائے اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے اور
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی گود میں سرمبارک رکھ کر سو گئے جس سوراخ پر حضرت
ابوبکر صدیق ؓ نے اپنا پاﺅں رکھا ہوا تھا اس سوراخ سے ایک سانپ نے حضرت
ابوبکر صدیق ؓ کو ڈس لیا مگر آپ نے شدید تکلیف کے باوجود اپنے پاﺅں کو جنبش
نہ دی کہ کہیں حضور ﷺ کی آنکھ نہ کھل جائے اور آپ ﷺ کی نیند میں خلل نہ پڑے
مگر سانپ کے کاٹے کی تکلیف سے آپ کے آنسو حضور ﷺ کے چہرے اقدس پر پڑے تو
حضور ﷺ کی آنکھ مبارک کھل گئی آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی آنکھوں میں
آنسو دیکھ کر فرمایا ابوبکر ؓ کیا بات ہے آپ ؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ
سانپ نے ڈس لیا ہے حضور نبی کریم ﷺ نے اپنا لعاب دہن اس جگہ لگادیا جہاں
سانپ نے کاٹا تھا تو زہر کا اثر فوراً جاتارہا ۔۔۔
قارئین آز ادکشمیر کی ”مدہوش مجاور حکومت “نے رات کی تاریکی میں حضرت امام
حسین ؓ کی سنت پر کاربند کشمیری قوم کے عظیم لیڈر لارڈ نذیر احمد کے بارے
میں ایک ”کالی قرار داد “منظور کی جس کے مطابق کشمیریوں کی تحریک آزادی کے
آج تک کے سب سے بڑے وکیل لارڈ نذیر احمد کی پیٹھ پر چھرا گھونپا گیا آزاد
کشمیر کی مجاور کابینہ کایہ فیصلہ ان کے مجاور وزیر اعظم اور ان کے باس
”کھپے والی سرکار “آصف علی زرداری کے خیالات کی عکاسی کرتاتھا یہ فیصلہ
سامنے آنے کی دیر تھی کہ پوری دنیا میں رہنے والے کشمیری سراپا احتجا ج بن
گئے امریکہ سے لے کر برطانیہ تک اور سعودی عرب سے لے کر افریقہ تک احتجاج
کے دائرے پھیلتے چلے گئے اور نتیجہ یہاں تک پہنچا کہ نہ تو آزادکشمیر حکومت
اس فیصلے کا دفاع کرسکی اور نہ ہی اس کی کوئی توجیح پیش کرسکی وہ کام جو
بھارت 64برسوں میں نہ کرسکا وہ ان نالائق لوگوں نے چند دنوں کے اندر کردیا
اس پر امت مسلمہ کی یہ عظیم شخصیت اس حد تک دل برداشتہ ہوئی کہ انہوںنے
ہاﺅس آف لارڈز کی آل پارٹیز پارلیمنٹری کمیٹی فار کشمیر کی چیئرمین شپ سے
استعفی دے دیا اور کہا کہ چونکہ انہیں آزادکشمیر حکومت پر اعتماد نہیں ہے
اس لیے وہ یہ عہد ہ چھوڑنا چاہتے ہیں لارڈ نذیر احمد کے اس استعفی کو ہاﺅس
آف لارڈز نے قبول کرنے سے انکار کردیاہے ہزار ہا شرم کا مقام ہے اس مجاور
وزیر اعظم اور مجاور کابینہ کے لیے کہ جس نے محرم الحرام کے مہینے میں ”اہل
کوفہ “کی طرح امام حسین ؓ کے لشکر پر حملہ کیا ہمیں یہ بات کہنے میں زرا
بھی شک وشبہ نہیں ہے کہ جس طرح اہل کوفہ نے امام حسین ؓ سے عقیدت ظاہر کرتے
ہوئے ان کے ساتھ غداری کی تھی ویسا ہی کام آزادکشمیر کے ان مجاور وں نے
لارڈ نذیر احمد کے ساتھ کیا ہے اس وقت آزادکشمیر کی قومی قیادت بشمول سردار
عبدالقیوم خان ،سردارسکندر حیات خان ،بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،راجہ
فاروق حیدرخان ،سردار عتیق احمد خان ،سردار خالد ابراہیم ،عبدالرشید ترابی
،ہمایوں زمان مرزا سے لے کر تمام سیاسی وسماجی تنظیمیں یک زبان ہوکر مرثیہ
خواں ہیں کہ ان مجاور وں نے بہت بڑی زیادتی کی ہے اور تو اور اس مجاور
حکومت کے صدر سردار یعقوب خان نے بھی اس فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کردیاہے
متفقہ قرارداد میں شامل تمام وزراءباری باری اس فیصلے سے منکر ہوتے چلے
جارہے ہیں اور جہاں بھی میڈیا کے مجاہدین ان سے اس بارے میں سوالات کرتے
ہیں تو ان کے ماتھے عرق ندامت سے تر ہوجاتے ہیں اور وہ کوئی بھی جواب دینے
سے گریز کرتے دکھائی دے رہے ہیں ایک دو ٹاﺅٹوںنے ایک دو بیانات اس حوالے سے
داغے اور اس کے بعد اپنے بل میں چھپ کر بیٹھ گئے ۔
قارئین بین الاقوامی میڈیا پر یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آئی ہے
کہ جس کے مطابق ہاﺅ س آف لارڈ ز نے لارڈ نذیر احمد کا استعفی قبول کرنے سے
انکار کرتے ہوئے یہ الفاظ اداکیے
”ہمیں آپ کی قیادت پر بھرپور اعتماد ہے “
یہاں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور ان کے دیگر ساتھیوں کا فرض بنتاہے کہ
وہ آزادکشمیر کے حسینی لشکر کے ساتھی بنیں اور وقتی مفادات پر لعنت بھیج کر
لارڈ نذیر احمد کا کھل کرساتھ دیں کیونکہ اقتدار آنی جانی چیز ہے لیکن
کردار اگر ایک مرتبہ داغدار ہوجائے تو دوبارہ اس کا حسن بحال نہیں ہوسکتا
بقو ل غالب
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جو شِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر ِ لخت لخت کو
عرصہ ہواہے دعوت ِ مژگاں کیے ہوئے
پھر وضع ِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے چاک گریباں کیے ہوئے
پھر چاہتاہوں نامہ ءدلدار کھولنا
جاں نذر ِ دل فریبی ءعنواں کیے ہوئے
جی ڈھوتاہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور ِ جاناں کیے ہوئے
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش ِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ ءطوفاں کیے ہوئے
قارئین 10محرم الحرام کو حضرت امام حسین ؓ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دین
اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جان قربان کردی لیکن غاصب کے آگے کلمہ حق
کہنے سے باز نہ آئے انہوںنے ظالم ،فاسق او رفاجر حاکم کے سامنے ہتھیار نہ
ڈالے اور اپنی جان قربان کرکے پوری امت کو یہ سبق دے دیا کہ
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
قارئین لارڈ نذیر احمد بھی حضرت امام حسین ؓ کی اسی سنت پر قائم ہیں اور
پوری کشمیری قوم ان کو سلام پیش کرتی ہے ہمیں امیدہے کہ مجاور حکومت اب تک
کے پڑنے والے جوتوں سے سبق سیکھے گی اور توبہ تائب کرکے لارڈ نذیر احمد سے
معافی مانگے گی -
آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک عورت نے فقیر کے بھیک مانگنے پر اسے ڈانٹتے ہوئے کہا
تمہیں شرم نہیں آتی کہ راستے میں کھڑے ہوکر بھیک مانگتے ہو
فقیر نے جواب دیا
”بی بی جی کیا اب بھیک مانگنے کے لیے دفتر کھول لو ں“
قارئین یہ مجاور حکومت اور کھپے والی سرکار دفتر کھول کر بھیک مانگنے والے
بھکاری ہیں اور یاد رکھیے بھکاریوں کی نہ تو عزت ہوتی ہے اور نہ ہی غیرت یہ
دونوں الفاظ غیرت مند اور خوددار لوگوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔۔۔ |