میمو سکینڈل پر نواز شریف سپریم
کورٹ پہنچ گئے اور سپریم کورٹ میں پہلی ہی پیشی پر انہیں وہ ریلیف مل گیا
جس کی استدعا انہوں نے عدالت عظمیٰ سے کی تھی، کچھ میڈیا رپورٹس اور پیپلز
پارٹی کے الزامات کے مطابق نواز شریف کو سپریم کورٹ پہنچنے پر باقاعدہ
پروٹوکول دیا گیا اور ان کو ساتھیوں اور محافظوں سمیت اس سکیورٹی گیٹ سے
نہیں گذارا گیا جس سے سارے وکیل اور سائل گذرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نو رکنی
بنچ نے میمو گیٹ سکینڈل کی درخواست سنی اور طارق کھوسہ کی سربراہی میں ایک
تفتیشی کمیشن تشکیل دیا۔ یاد رہے کہ طارق کھوسہ کے ایک بھائی اس وقت سپریم
کورٹ کے جسٹس اور ایک بھائی پنجاب حکومت میں سیکرٹری کے عہدہ پر موجود ہیں۔
جس دن سپریم کورٹ میں نواز شریف کی درخواست کی ابتدائی سماعت ہوئی اور
کمیشن بنانے کا حکم جاری ہوا، اسی دن پیپلز پارٹی کے کچھ زعماءجن کی قیادت
بابر اعوان کررہے تھے، نے ایک گرما گرم پریس کانفرنس میں عدلیہ کے خلاف ایک
مرتبہ پھر طبل جنگ بجا دیا ، بابر اعوان کے بقول پنجاب سے اس سے پہلے تین
سندھی لیڈروں کی لاشیں بھیجی جا چکی ہیں اور چوتھے لیڈر کے تابوت میں کیل
ٹھونکے جارہے ہیں، سپریم کورٹ نے باقی فریقوں کو سنے بغیر فیصلہ سنا دیا ہے
اور کمیشن بنانے کا کام حکومت (ایگزیکٹو) کا ہوتا ہے نہ کہ عدلیہ کا، نیز
انہوں نے طارق کھوسہ کی قیادت میں کمیشن بنانے پر بھی بھرپور اعتراض کیا
اور کہا کہ یہ وہی طارق کھوسہ ہیں جن کوان کی پسند کا محکمہ نہیں دیا گیا
تھا اور وہ حکومت سے ناراض ہیں اور ایک ناراض شخص کیسے انصاف کرسکتا ہے،
بابر اعوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کا گھسا پٹا اور فیل شدہ عدلیہ
و آرمی مشترکہ حکومت کا فارمولا نہیں چلنے دیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی پریس
کانفرنس میں اور بھی بہت سارے نکات اٹھائے جن کا لب لباب یہ تھا کہ عدلیہ
نواز شریف کی حمائت کررہی ہے اور حکومت کی مخالفت، انہوں نے اپنے موقف کی
حمائت میں ایک بار پھر یہ دلیل دی کہ پنجاب حکومت سٹے آرڈر پر چل رہی ہے
اور اصغر خان کی درخواست عرصہ دراز سے سپریم کورٹ کے سرد خانے میں پڑی ہے
اور اس کا ابھی تک ”بوجوہ“ کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
کیا عدلیہ کسی معاملہ پر کمیشن بنا سکتی ہے، یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں
پیپلز پارٹی کے آئنی امور کے ماہرین کے علاوہ تقریباً تمام آئنی ماہرین یک
زبان ہیں کہ ہاں ایسا ہوسکتا ہے اور اکثر و بیشتر ایسا ہوتا بھی رہتا ہے،
خود بابر اعوان بھی رانا ثناءاللہ کے خلاف سپریم کورٹ میں کمیشن بنانے کی
استدعا لے کر جاچکے ہیں، یاد رہے کہ رانا ثناءاللہ نے بیان دیا تھا کہ وکیل
بابر اعوان کو واجب القتل سمجھتے ہیں جس پر پیپلز پارٹی نے احتجاج بھی کیا
تھا اور بابر اعوان نے سپریم کورٹ کے روبرو ایک درخواست بھی دائر کی تھی ،
جہاں تک تعلق ہے پہلے ہی روز وہ ریلیف دینے کا جس کی استدعا کی گئی تھی تو
یہ بھی غیر قانونی یا غیر آئنی تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس ”جلدی“ اور نواز
شریف کی آئنی درخواست کے فریقین کو سنے بغیر کمیشن کی تشکیل کے حکم خصوصاً
حسین حقانی کو سنے بغیر ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی کے فیصلے نے عدلیہ
کے خلاف زبانوں کو دراز کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا ہے۔ اگر یہی فیصلہ
ایک دوروز کی تاخیر سے کردیا جاتا تو نہ کوئی قیامت آتی، نہ طوفان اٹھتا
لیکن سپریم کورٹ کی کریڈیبلٹی پر کسی کو بھی سوال اٹھانے کی ہمت و جرات نہ
ہوپاتی، کچھ لوگوں کے خیال میں یہ سرعت اس لئے دکھائی گئی کہ واقعی حسین
حسانی حقانی ملک سے ”فرار“ ہونے کا سوچ رہے تھے اور ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی
ہے کہ کہیں پارلیمنٹ کی کمیٹی میمو کے معاملہ پر اپنی کارروائی شروع نہ
کردے کیونکہ اگر وہ کارروائی شروع ہو چکی ہوتی تو شائد اخلاقی طور پر سپریم
کورٹ کو اس کمیٹی کے فیصلے کے انتظار کا مشورہ دینا پڑتا۔ موجودہ حالات میں
وفاقی حکومت کافی پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ایک جانب این آر او کیس ہے ،
کرپشن کی کہی اور ان کہی کہانیاں ہیں تو دوسری جانب میمو سکینڈل نے زرداری
اینڈ کمپنی کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں، ایسے حالات میں سپریم کورٹ کے
خلاف طبل جنگ نے جہاں بہت سے سوالوں کو لاکھڑا کیا ہے وہیں از خود بہت سے
سوالوں کے جوابات بھی آشکارا ہوتے نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے
خلاف فضا بنانے کی کوششوں میں یقینا وفاقی حکومت میں شامل زرداری کے
نورتنوں کے مشورے شامل ہیں جو صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر
مظلوم بنانے کی کوششیں شروع کرچکے ہیں۔ مہنگائی، لاقانونیت، امن و امان،
ملکی سرحدوں کی پامالی اور دہشت گردی جیسے مسائل نے عوام کا بھرکس نکال
رکھا ہے اور حکومت کسی ایک مسئلہ کو بھی سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتی، نہ
صرف اہلیت نہیں رکھتی بلکہ اس کی تمامتر توجہ اپنی مالی کرپشن کو چھپانے
اور زیادہ سے زیادہ ”کمانے“ پر لگی ہے، ان حالات میں جبکہ عوام کو کسی قسم
کا ریلیف نہیں مل پارہا تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور ایک مرتبہ پھر سندھ
کارڈ کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
لوگ اس شش و پنج میں ہیں کہ اب ہوگا کیا؟ اگر وفاقی حکومت این آر او کی نظر
ثانی درخواست کے مسترد کئے جانے کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری
کرتی ہے تو اپنے ہی صدر کے خلاف سوئس حکومت کو خط لکھنا پڑتا ہے، اگر خط
لکھ دیا جاتا ہے تو صدر زرداری کا استثنیٰ ہوا میں اڑ جائے گا اور شائد پھر
کوئی ایسی درخواستیں بھی سپریم کورٹ میں دائر کی جائیں جن میں استدعا کی
جائے گی کہ صدر زرداری تو سوئس مجسٹریٹ کے فیصلے کی روشنی میں پہلے دن سے
ہی عہدہ صدارت کے لئے نااہل تھے اس لئے انہیں اس عہدہ سے ہٹایا جائے، اگر
حکومت خط نہیں لکھتی تو یقینی بات ہے کہ اسے توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے
گا، میمو گیٹ سکینڈل بھی ایک خطرناک ”ہوا“ ہے ، تبھی تو وزیر اعظم کہہ رہے
ہیں کہ اگر میمو سکینڈل میں کچھ ثابت ہوا تو اس کے ذمہ دار وہ ہوں گے نہ کہ
صدر، اس کا مطلب یہ ہے کہ حسین حقانی کی طرح وزیر اعظم بھی اپنے باس کو
بچانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن“جیسی دشوار
صورتحال میں حکومت سوائے اس کے کیا کرسکتی ہے کہ اپنے آپ کو کسی بھی طرح
سیاسی شہید کے درجے پر فائز کراسکے، چنانچہ اسی کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔
سوال پھر وہی ہے کہ اگر سب کچھ ہوبھی جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ کیا واقعی بنگلہ
دیش ماڈل کو آزمانے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، کیا ان افواہوں میں کچھ
صداقت بھی ہے کہ موجودہ حکومت کو عدلیہ کی مدد سے فارغ کرکے ایسا سیٹ اپ
لایا جائے جس میں فوج اور عدلیہ سامنے آئے بغیر اپنا ”کام“ کریں گے، ذرائع
کے مطابق مقتدر حلقوں نے اسلام آباد میں نئے سیٹ اپ کے لئے ”انٹرویوز“ کا
سلسلہ شروع بھی کردیا ہے۔ ایک اور بات جو ان خدشات کو تقویت پہنچاتی ہے وہ
یہ ہے کہ شائد فوری طور پر پاکستان میں الیکشن نہ ہوسکیں کیونکہ انتخابی
فہرستوں کی تکمیل نہیں ہوسکی اور الیکشن کمیشن کی ”فارمیشن“ پر بھی بہت سے
سیاسی کھلاڑیوں کے سنجیدہ قسم کے اعتراضات ہیں۔ کیا آرمی اور عدلیہ آئنی
طور پر کسی بھی سیاسی سیٹ اپ کے لئے کچھ کرسکتے ہیں جس کی کوئی مثال
پاکستان کے آئین اور قانون میں نہیں ملتی اور کیا پاکستان کی سیاسی جماعتیں
اور سیاسی رہنما آئین و قانون سے ہٹ کسی ”بندوبست“ کی حمائت کرسکتے ہیں؟
میرا خیال ہے ایسا شائد آئنی طور پر ممکن نہ ہو لیکن جس طرح کی فرسٹریشن
سیاسی جماعتوں خصوصاً سینٹ الیکشن سے قبل حکومت کی رخصتی کے لئے مسلم لیگ
(ن) میں پائی جاتی ہے اس کی موجودگی میں کچھ بھی ممکن ہے، لیکن میں سمجھتا
ہوں کہ اگر ایک بار پھر فوج کو کسی بھی حوالے سے سیاسی معاملات میں الجھا
دیا گیا اور سپریم کورٹ کو اپنے اپنے ذاتی فائدوں کے لئے استعمال کرنے کی
کوششیں ہوتی رہیں تو یہ یقینا پاکستان کے لئے اچھا نہ ہوگا۔ آئنی و قانونی
لرائی ضرور لڑی جائے، اگر میمو سکینڈل اور الزامات صحیح ہیں تو قصور واروں
کو سزا بھی دی جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ کو اصغر خان کی درخواست
بھی اب سن ہی لینی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، سپریم
کورٹ پر اس درخواست کے حوالے سے جو الزامات لگائے جاتے ہیں انہیں دھونا
انتہائی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی شخص یا جماعت سپریم کورٹ کی طرف انگلیاں نہ
اٹھا سکے اور نہ اس طرح کے معاملات کی وجہ سے سیاسی شہید بننے کی کوشش
کرسکے! |