پنجابی اور اس سے میل کھاتی بہت
ساری دوسری زبانوں میں ایک محاورہ مستعمل ہے کہ ہاتھوں سے دی ہوئی گرہیں
کبھی کبھی دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔میں خوش ہوں کہ یہی حال آج کل پاکستان
کی اشرافیہ کا بھی ہے۔ہم اور ہم جیسے بہت سے دوسرے ٹٹ پونجیے جنہیں کبھی
بجلی کے بلوں کا کرنٹ لگتا ہے۔کبھی گیس ہمیں چڑھ جاتی ہے کبھی ہمیں روٹی
روزی کا ہواڈرانے لگتا ہے۔وہ لوگ جنہیں دنیا کا اور کوئی غم نہیں اللہ کریم
انہیں بھی بہرحال اس حالت میں تو لاتا ہے جب انہیں یہ ا حساس ہو کہ وہ اس
دنیا کو نہیں چلا رہے بلکہ اسے چلانے والی وہ ذات ہے جو اچھے کام کا برا
اور برے کام کا اچھا نتیجہ نکالنے پہ بھی قادر ہے۔اس کے ہاں نیتوں کا سودا
بکتا ہے اور بس ۔اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے آج کس مخمصے میں ہیں ۔اسے
سوچتا ہوں تو یقین جانئے دل کے سارے کنول اکٹھے ایک ساتھ کھلتے ہیں۔قہقہے
لگاتا ہوں اور اشرافیہ کی بے بسی کے مزے لیتا ہوں۔ہاتھوں سے دی گئی اب
دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں بلکہ اب تو ایسا زور لگ رہا ہے کہ دانت بھی
باہر آنے کو ہیں۔
کل جب مشرف کا پھیلایا اندھیرا چھٹ رہا تھا ۔بے نظیر نے اپنی زندگی کا چراغ
گل کر کے زرداری کے ہاتھ میں اقتدار کا سورج تھما دیا تھاتو ہمارا سمال
سائز ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا۔اس کایاں شخص نے جس طرح بے نظیر سے اپنا رشتہ
جوڑا تھاہم اس کی فنکاری سے تو اسی دن سے متائثر تھے۔جب اس نے اعلان کیا
ایک دن بھٹو کاکوئی جیالا ایوان صدر میں براجمان ہوگا تو ہم سمجھ گئے تھے
کہ یہ جیالا کوئی اور نہیں خود ہمارا ممدوح ہو گا۔پھردنیا نے دیکھا کہ جناب
زرداری پتلی گلی سے یوں ایوان صدر میں جا براجمان ہوئے کہ ان کے دشمن ہاتھ
ملتے رہ گئے۔اس سے قبل ایک غیر ملکی عدالت میں وہ یہ بیان داخل کر چکے تھے
کہ مجھ پہ کبھی کبھی پاگل پن کا دورہ بھی پڑتا ہے۔پاکستان میں بھی ان پہ
کرپشن کے کیسز تھے جنہیں انہوں نے جاتے جاتے مشرف سے صاف کرا لیا تھا۔بی اے
کی شرط ویسے بھی غیر ضروری سمجھ کے ختم کر دی گئی تھی۔اب اس کے بعد سیاں ہی
تھے جن کے سر پہ یہ تاج سکتا تھا سو سج گیا۔عدلیہ بھی دیکھ رہی تھی
،انتظامیہ بھی ۔اس کے علاوہ نواز شریف بھی لیکن کوئی کچھ نہ کر پایا۔نواز
شریف اور ان کے حواریوں سے تو ویسے بھی کوئی توقع نہ تھی کہ انہیں نوشتہ
دیوار نہیں دکھتا ،وہ بے چارے چار سال بعد کے حالات کیا دیکھتے۔عدلیہ اور
انتظامیہ میں بیٹھے شہ دماغ بھی زرداری کی چالوں اور مستقبل کی پیش بندی کی
بھنک بھی نہ پا سکے۔صدارتی ایوان میں داخلے کے بعدجب انہیں آئینی
استثناءحاصل ہو گیاتو انہوں نے پاکستان کی مروجہ سیاست میں وہ کمال دکھائے
کہ ان کے مخالفین اپنا ہی جسم نوچنے پہ مجبور ہو گئے۔
پاکستان کی اشرافیہ کا سب سے ناپسندیدہ شخص ایوان صدر میں براجمان
ہے۔انتظامیہ عدلیہ اپوزیشن اور حکومت سمیت کوئی بھی شخص اسے پسند نہیں
کرتا۔لیکن اسے قانونی استثناءحاصل ہے۔وہ استثناءجس کی اسلام میں تو کوئی
گنجائش ہی نہیں۔وہی استثناءجو اس بد بو دار اشرافیہ نے اپنے بھائی بندوں کو
عوامی غیض و غضب سے بچانے کے لئے عطا کر رکھا ہے۔اس میں لیکن اگر کوئی قصور
تھا تو وہ کم از کم زرداری کا نہیں تھا۔قصور تو اس سوچ کا تھا جو پاکستان
بنتے ہی قائد کی بے وقت رحلت کے ساتھ ہی جڑ پکڑ گئی تھی۔ملک عوام کے لئے
بنا تھالیکن عوام کو بے اختیاری کے اس قعر مذلت میں دھکیل دیا گیا جس سے وہ
ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔اللہ کریم نے مایوسی سے منع نہ کیا ہوتا تو میں
کہتا کہ پاکستان میں عامیوں کے حالات سدھرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔یوں کہ
پہلے تو انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں اور اگر کبھی کسی جعلی الیکشن کے ہنگام
ان مٹی کے مادھوﺅں سے کوئی ان کی مرضی پوچھ ہی لے تو یہ چن چن کے انہی لچوں
اور لٹیروں کو نوازتے ہیں جو پچھلے تریسٹھ سال سے ان کے حقوق کی بیخ کنی
میں مصروف ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا زرداری کی سیاسی فنکاریوں کا۔اقتدار کے حصول سے پہلے ہی
محترم کو اندازہ تھا کہ اگر انہوں نے یہ کھیر اکیلے کھانے کی کوشش کی تو
ہنڈیا کوئی اور لے جائے گا اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔انہوں نے رواداری
اور باہمی تعاون کی وہ چال چلی کہ پوری کی پوری نون لیگ جو مشرف کا نام
سننا پسند نہ کرتی تھی ہاتھ باندھے اور سر جھکائے مشرف کے دربار میںحاضر
ہوگئی ۔ زرداری صاحب کی چالبازی نے اپنے مخالفین کو اسی ایک وار میں چت کر
ڈالا۔مولٰنا فضل تو ہمیشہ ہی سے فضل کی سیاست کے قائل رہے ہیں اس لئے
آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوئے اور مولٰنا حلقہ بگوش ِ زرداری ہو گئے۔ایم
کیو ایم جو باوجودیکہ مشرف کے خون رنگ دور کی شریک مجرم تھی لیکن عوام میں
اپنی جڑوں غریب آدمی کو نمائندگی دینے کی بناء پہ دوبارہ عوام میں مقبول ہو
رہی تھی ۔زرداری صاحب کا دوسرا ہدف تھی۔ اپنے کمال فن سے انہوں نے ایم کیو
ایم کو حکومت میں اتنی بار اندر اور باہر کیا کہ وہ اپنے ہی ووٹرز کی نظر
میں تماشہ بن کے رہ گئی۔اب لندن میں ان پہ ذوالفقار مرزا دانت گاڑھے بیٹھا
ہے جونہی اب کے ایم کیو ایم حکومت سے باہر جائے گی ۔کراچی میں گرفتار عمران
فاروق کے قتل میں ملوث وہ دو اشخاص لندن پہنچ کے اقبالی بیان دیں گے اور
الطاف صاحب ساری عمر کے لئے اندر۔یاد رکھئے گا کہ اب بھلے جو بھی ہو ایم
کیو ایم حکومت نہیں چھوڑے گی۔اسے کہتے ہیں ایسے کو تیسا۔غفار خان اور ولی
خان بھلے ہی پاکستان مخالف رہے ہوں پر ان کی اصول پسندی ضرب المثل تھی۔ان
کی اولاد کی زرپسندی اب ضرب المثل ہے۔زر کی تقسیم بھلا پاکستان میں زرداری
سے بہتر کر بھی کون سکتا تھا۔ان کے منہ میں کے پی کے کا فری ہینڈ دے کے ان
کا منہ مستقلاََ بند کر دیا گیا۔پیر آف پگارہ اور ان کے قبیل کے لوگ تو
زرداری صاحب کے ایک ڈکار کی مار تھے لیکن زرداری صاحب کا سب سے بڑا شکار
بنی قاتل لیگ۔ظہور الہی کا خون جو ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالا
کرتے تھے اب صبح وشام ایوان صدر کے آس پاس منڈلاتے زرداری کے نام کی مالا
چپتے ہیں۔
رہی بات عدلیہ کی تو اسے کینڈے میں رکھنے کے لئے انہوں نے بابر اعوان کو
گود لے رکھا ہے ۔عدلیہ ،اس آزاد عدلیہ کے فیصلوں کی جو کھلی جناب نے اڑائی
ہے اتنی تو گرفتار عدلیہ کے فیصلوں کی بھی نہیں اڑی۔ اور فوج کو انہوں نے
حسین حقانی کے ہاتھوں امریکہ سے زچ کروا رکھا تھا۔کیری لوگر ،کراچی حملہ
،دو مئی اور میمو گیٹ ،کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں والا معاملہ ہے۔تنگ
آمد بجنگ آمد اب لوگوں کے حواس جواب دینے لگے ہیں۔کھراایوان صدر تک آپہنچا
ہے لیکن وہ زرداری ہی کیا جو ہار مانے۔زرداری صاحب اب دبئی کے امریکی
ہسپتال میں ہیں۔یعنی اپنے صحیح محافظوں کی پناہ میں۔جو آئے روز ان کی حکومت
کے مضبوط ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں اور ان کی صحت یابی کے لئے دعا گو بھی
رہتے ہیں۔
موج لگی ہے میں اشرافیہ کی بے بسی پہ قہقہہ زن ہوں ۔ہاتھوں سے دی اب دانتوں
سے بھی نہیں کھل رہیں اور میرا یار دبئی میں تیاربیٹھا ہے کہ یہ یہاں کوئی
غلطی کریں اور وہ وہاں سے ان پہ وہ خود کش حملہ کرے جس میں کچھ بال بیرنگ
امریکی ہوں گے لیکن زیادہ تر سندھی کہ بلاول کی سندھی ٹوپی اور چادر یہی
اشارہ کر رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی چار سالہ حکومت نے ہمیں کچھ نہیں دیا لیکن
زرداری نے اشرافیہ کو جیسے زچ کیا ہے اس سے عوام کے چہرے پہ لمحے بھر ہی کو
سہی مسکراہٹ تو آئی ہے اس لئے زرداری تجھے میرا سلام۔ |