کعبہ مرے پیچھے ہے ، کلیسا مرے آگے

پاکستان بہرحال اس لحاظ سے لکھاریوں کی جنّت ہے کہ یہاں موضو عات کی کمی نہیں ، اور میرے جیسے نو وارد بھی جب جی چاہے ، اُٹھیں اور قلم برداشتہ لکھتے چلے جائیں۔قلم سنبھال کے لکھنے کی ضرورت نہ تحقیق و تدقین کی کہ جو لکھ دیا وہی سچ اور وہی حرفِ آخر ۔کسی کی مدح سرائی کرنی ہو تو ایک سو ایک جواز اور لتّے لینے ہوں تو ایک ہزار ایک۔جی چاہے تو عمران خاں ، نواز شریف اور آصف زرداری کی شان میں بیک وقت ایسے کالم لکھ دوں کہ لوگ انہیں قرونِ اولیٰ کے مسلمان سمجھنے لگیں اور ضد پہ آ جاؤں تو اُن کی مخالفت میں ایسے ثبوت لے آؤں کہ آئی۔ایس آئی ، سی۔آئی۔اے ، را اور موساد والے مُنہ دیکھتے رہ جائیں ۔ بلکہ سوائے آئی۔ایس آئی کے دیگر بہت سے اہلکار مارے شرم کے خود کُشی کر لیں۔ آئی۔ایس۔ آئی والے اس لئے نہیں کہ اسلام میں خود کُشی حرام ہے ۔چاہوں تو امریکہ کو عالمِ اسلام کے لئے نعمتِ غیر مترقّبہ ثابت کر دوں اور موڈ ہو تو قلمی شہنشاہی کے بل پر طالبان کو انسانیت کی اُن رفعتوں سے ہمکنار کر دوں کہ گھرگھر میں خود کُش جیکٹ تیار ہونے لگے۔اپنی معشیت دانی کے بل پر پل بھر میں اہلِ وطن کی فی کس آمد نی ہزاروں ڈالر فی گھنٹہ کر دوں یا راہبروں کے گھپلوں کی رفتار ماپ کر پاکستان کو دنوں میں اتھوپیا بنا دوں ۔پاکستان کو مضبوط ترین مملکت ثابت کرنا یا کرزئی جیسے چوہوں سے قوم کو لرزہ بر اندام کر دینا بھی میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ میں کروں توکیا کروں کہ
ایماں جو مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کُفر
کعبہ مرے پیچھے ہے ، کلیسا مرے آگے

سقّہ لکھاریوں کی گروہوں میں بٹی ایک فوج ظفر موج جس کا ارسطو ، افلاطون اور سقراط بھی پانی بھرتے نظر آتے ہیں ۔ہر کوئی اپنے ثبوتوں کی پٹاری کھول کر بیٹھا ہے اور ضد یہ کہ اس کا کہا پتھر کی لکیر ۔نہ تجزیہ نہ تحقیق بس ممدوح کی تعریف اور مخالفت پہ تنقید ، کڑی تنقید ، نفرتوں سے لبریز تنقید ۔۔۔۔ایسے میں جھوٹ سے سچ نتھارنا کم از کم میرے جیسی نو آموز کے بس کی بات نہیں۔کسی کی بات کو رد کروں تو کیسے کہ وہ نامی گرامی اور ہم بے نام ، وہ اوجِ ثریا پہ مقیم اور ہم پاتال کہ گہرایوں کے مکیں۔پھر بھی ایک عامی کی حیثیت سے یہ عرض ضرور کروں گی کہ اس چلن سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہو گا ، نہ ملک کا نہ قوم کا اور نہ ہی حبیب و رقیب کا ۔ایک سَچّے اور سُچّے لکھاری کا مطمعِ نظر ملک و قوم کا بھلا ہونا چاہیے نہ کہ کسی انسان کا لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔کوئی زرداری صاحب کے لئے رطب اللساں ہے تو کوئی نواز شریف کے لئے، کسی کو عمران خاں کی صورت میں نجات دہندہ نظر آتا ہے تو کوئی چوہدریوں کے در پہ جبینِ نیاز خم کئے بیٹھا ہے۔چہار سو شخصیت پرستی ہی شخصیت پرستی نظر آتی ہے اور کچھ نہیں ۔حالانکہ نہ کوئی معظم ہے نہ مغلظ اور نہ کوئی بھگوان ہے نہ شیطان ۔سبھی انسان ہیںمحض انسان خصائص و نقائص کے خمیر میں گُندھے ہوئے انسان۔

یہی حال ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ہے ۔ کھُمبیوں کی طرح اُگے ہوئے بے شمار اینکر اور ”اینکرنیاں“۔چند ایک کو چھوڑ کے سبھی کا طریقہ واردات ایک کہ کسی نہ کسی طرح بلائے گئے مہمانوں کو آپس میں لڑا کر مزہ لیا جائے ۔جہاں نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جائے تو وہ پروگرام اعلیٰ ترین ۔اکثر پروگراموں میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔انسان لاکھ چاہے کچھ پلّے نہیں پڑتا۔ آقا ﷺ کا فرمان ہے کہ
”جب کوئی بات کر رہا ہو تو غور سے سُنا کرو اور درمیان میں مت ٹوکا کرو“۔

لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ مجال ہے جو اینکر کسی مہمان کو ایک جملہ بھی مکمل کرنے دے ۔درمیان میں دس دفعہ ٹوکنا اور زچ کرنے کی پوری کوشش جس میں اکثر میزبان کامیاب رہتے ہیں ۔ آخر یہ ”ٹاک شو“ کا کونسا انداز ہے جو ہم اپنائے ہوئے ہیں۔؟

کچھ بزر جمہر نیوز چینلز پر مستقل برا جماں نظر آتے ہیں۔جن کے تجز یے سُنکر بعض اوقات بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ایک بہت ہی معروف نیوز چینل کے بہت ہی معروف تجزیہ نگار کو پیشین گوئیاں کرنے کا بہت شوق ہے جو سو فیصد سچ ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کا طریقہ واردات ہی نرالا ہے۔کل فرما رہے تھے کہ جناب آصف زرداری واپس نہیں آئیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ایسا پروگرام فی الحال نہیں بنایا تو واپس آ بھی سکتے ہیں۔سبحان اللہ ! کیا تجزیہ ہے ۔اگر واپس آ گئے تو موصوف سچّے اور اگر نہ آئے تو پھر تو سچّے ہیں ہی۔ویسے حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہمارے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے ۔؟ زرداری صاحب دبئی گئے اور وہ اکثر جاتے بھی رہتے ہیں ۔اگر اب چلے گئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ۔؟ پی۔پی۔پی کے کچھ احباب نے کہا کہ انہیں دل کی تکلیف ہوئی جبکہ پی۔پی۔پی کے ہی ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ وہ روٹین کے میڈیکل چیک اپ کے لئے گئے ہیں ۔تحریک کے محمود الرشید نے کہا کہ انہیں ”فٹس“ پڑے تھے جبکہ ایک معروف صحافی نے کہہ دیا کہ انہیں ہلکا سا فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔کچھ دور کی کوڑی لائے کہ وہ میمو گیٹ سکینڈل کی ٹینشن برداشت نہیں کر سکے ۔غرض جتنے مُنہ ، اتنی باتیں اور میڈیا پر شورِ قیامت ۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ آخر میڈیا کب ذمہ داری کا ثبوت دے گا۔؟ آخر ”بریکنگ نیوز“ کے شوق میں ہم کب تک افسانہ طرازیاں کرتے رہیں گے ۔؟ محترم زرداری اگر بیمار ہیں تو اللہ انہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے ۔ اگر بچوں سے ملنے گئے ہیں تو کچھ گناہ نہیں کیا اور اگر وہ واپس نہ آنے کے لئے گئے ہیں تو چند دنوں میں سب کچھ سامنے آ جائے گا پھر جی بھر کے تجزیے بھی کر لیں اور تبصرے بھی ۔ بلاول زرداری کو سندھی ٹوپی پہنے دیکھ کر تجزیوں اور تبصروں کی بھر مار ہو گئی کہ یہ ”سندھ کارڈ“ کے استعمال کی دھمکی ہے ۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر وزیرِ اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ تو ہمہ وقت ”سندھ کارڈ“ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے سر سے تو کبھی سندھی ٹوپی اُترتی ہی نہیں ۔وزیرِ اعظم ہمہ وقت ”یورپ کارڈ“ کا استعمال کرتے ہیں کہ ان کے جسم سے ”تھری پیس سوٹ“ جدا ہی نہیں ہوتا۔پگوں والے ہزاروں پنجابی ہر وقت ”پنجاب کارڈ“ استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔اور کوئی پٹھان کبھی بھی اپنے روائتی لباس سے الگ نظر نہیں آتا اس لئے سب سے زیادہ ”پختون کارڈ“ تو خیبر پختون خواہ والے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔ ایسے تجزیئے اور تبصرے کرنے والے ”افلاطونوں“ سے دست بستہ عرض ہے کہ خُدا را لسانیت کو ہوا دینا بند کر دیجئیے اور اگر خُدا توفیق دے تو ”ہم سب ایک ہیں“ کا درس بھی دے دیا کیجیئے کہ اس وقت ملک و قوم کو سب سے زیادہ ضرورت اگر ہے تو قومی یک جہتی کی کہ اس کے بغیر نہ ہم مُلک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں اور نہ ہی جغرافیائی سرحدوں کی ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 560002 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More