زنا بالجبر کے بعد زنابالجبر

زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کو انصاف کے حصول اور ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے مقدمہ کے اندراج سے لے کر مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے تک زیادتی سے زیادہ تکلیف دہ اور مشکل ترین عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جاوید اقبال راجہ کے مطابق پاکستان میں تھانہ کلچر کے باعث خاص طور پر حدود کے مقدمات میں متاثرہ فریق یا پھر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ندامت سے بچائے۔ اس کوشش میں مقدمے کے اندراج میں تاخیر اس کو کمزور کرتی ہے۔ متاثرہ خاتون کو مقدمہ درج کرانے کے لیے اپنے بیان کے علاوہ جسمانی معائنہ بھی کروانا پڑتا ہے تاکہ میڈیکل رپورٹ مرتب کی جا سکے۔ ایڈووکیٹ راجہ نے کہا کہ قانون کے مطابق کسی خاتون کا اس کی اجازت کے بغیر معائنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ریپ کے مقدمات میں میڈیکل معائنہ ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ رپورٹ بطور شہادت شمار ہوتی ہے۔ طبی معائنے کے بعد کیس کو ثابت کرنے کے لیے گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر حدود کے مقدمات میں براہ راست کوئی شہادت سامنے نہیں آتی بلکہ صرف متاثرہ خاتون کے بیان اور اس کے طبی معائنے کی رپورٹ کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ملکی قانون میں سقم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو انصاف کے حصول کے لیے خوف زدہ ہونے کی بجائے ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے متعلقہ حکام سے رجوع کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔ اس دوران ملزمان عدالت سے ضمانت پر رہا ہو جائے تو متاثرہ خاتون کو قانونی جنگ لڑنے کے لیے وکلاء کی خدمات کی ضرورت پڑتی ہے اور اسے ذہنی پریشانی کے علاوہ مالی اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ لاہور بار کے سابق صدر نے کہا کہ تفتیش کے دوران متاثرہ خاتون کو میڈیکل رپورٹ کی تیاری، ملزمان کی گرفتاری اور شہادتیں اکٹھی کرنے کے لیے استغاثہ کی طرف سے چالان مرتب کرنے پر بھی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور ایک بے بس اور غریب عورت کے لیے یہ اخراجات اٹھانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یہ کارروائی چالان کو عدالت میں پیش کرنے میں دشواری کا باعث بنتی ہے۔ جاوید اقبال راجہ کے مطابق ایک مقدمے کے عدالت میں پیش ہونے میں ایک سے دو سال لگ سکتے ہیں۔ عدالت میں مقدمہ کی سماعت میں ایک سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ سماعت کے دوران متاثرہ خاتون کو وکلاء کی جرح کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خاتون ہونے کے ناطے اس کے لیے ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ سماعت کے دوران وکلاء کی عدم دستیابی، گواہوں کے پیش نہ ہونے، تفتیشی افسر کی غیر حاضری اور دیگر عوامل کی وجہ سے مقدمہ التواء کا شکار ہو جاتا ہے۔ فوجداری قانون کے ماہر ایڈووکیٹ ایم اکرم قریشی نے کہا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کے ساتھ اصل ریپ اس وقت ہوتا ہے جب وکلاء عدالت میں اس کے بیان پر جرح کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی مقدمے کا پہلا جج مقدمہ کا تفتیشی افسر ہوتا ہے۔ اگر مقدمے کی تفتیش صحیح طریقے سے کی جائے تو سائل کو انصاف کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ بعض تفتیشی افسر ملزمان سے رشوت لے کر شہادتوں کو خراب کرتے ہیں جبکہ ریپ کے مقدمات میں پہلے ہی شہادتیں اکٹھی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ سابق ڈسٹرکٹ اور سیشن جج سرفراز تارڑ کا کہنا ہے کہ جب زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت عدالت سے رجوع کرتی ہے تو اس کے لیے سب اہم بات یہ ہوتی ہے کہ آیا وہ معاشرے کے رد عمل کا سامنا کر سکتی ہے یا نہیں۔ اگر خاتون خود مختار ہے اور وہ کسی پر انحصار نہیں کرتی تو وہ انصاف کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہے بصورت دیگر خواتین کو اپنے خاندان کے اراکین کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آیا وہ عدالت سے رجوع کریں یا نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو خاندان سے جتنی مدد ملتی ہے اس کے حوصلے میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ خاتون کو تھانے سے عدالت کے سفر میں مالی اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ سابق جج کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین اپنے خاندان کی عزت اور رسوائی کے خدشے کے پیش نظر خاموشی کا راستہ اختیار کرتی ہیں لیکن حاملہ ہونے پر ان کو مجبوراً کارروائی کرنا پڑتی ہے اور اس وقت تاخیر سے مقدمہ درج ہونے سے مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے اور خاتون کو شہادت پیش کرنے میں خاصی دشواری آتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت کمزور ہے، جہاں اس کو اخراجات سمیت دیگر معاملات میں اپنے خاندان کے ارکان پر انحصار کرنا پڑتا ہے، اس کے لیے عدالت سے رجوع کرنا ایک اذیّت ناک عمل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنی رسوائی اور خاندان کے ڈر کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتی ہیں۔
Saad Mehmood
About the Author: Saad Mehmood Read More Articles by Saad Mehmood: 33 Articles with 38910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.