بس بہت ہو گیا کھیل تماشہ اب
حقائق کی طرف چلتے ہیں۔نتائج کی طرف چلتے ہیں۔سچ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔اس
معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کو کیفرِکردار تک پہنچانے کی کوشش
کرتے ہیں ۔ہمارے وطن کو لوٹنے والوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے
ہیں۔بہروپیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ مایوس لوگوں
میں اک نئی امید جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔بھٹکے ہوئے مسافروں کو راہ دکھانے
کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کو پاکستان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔سوئے ہوﺅں کو
جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔آﺅ میرے ہم وطن نوجوانوں!سب مل کر پاکستان کو بچانے
کی کوشش کرتے ہیں۔وہ پاکستان بنانے کی کوشش کرتے ہیںجس کی تعبیر اقبال نے
دیکھی تھی۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
پاکستانی سیاسی قیادت طویل عرصے تک باہر رہی ہے۔اس دوران یہاں سے جو پیسہ
باہر ٹرانسفر ہواوہ کہاں سے آیا کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔عمران خان واحد
پاکستانی لیڈر ہیں جن کے اثاثے پاکستان میں ہیں اور انہوں نے پچھلے دنوں
اپنے سارے اثاثے ظاہر کرتے ہوئے تمام سیاسی لیڈرز کو چیلنج کیا ہے کہ وہ سب
بھی اپنے اثاثے ظاہر کریں۔عمران خان کے اثاثے ظاہر کر دینے کے بعد سیاسی
مخالفین کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کا جواب دیتے ہوئے عمران
خان نے کہاکہ لگتا ہے میں نے ان کی دکھتی رگ پر پاﺅں رکھ دیا ہے جس سے یہ
سب خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ عمران خان وہ لیڈر ہیں جن کے بارے میں وکی لیکس بھی
انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ واحد پاکستانی ہے جو امریکہ سے نہیں ڈرتا ہے۔
پچھلے دنوں عمران خان کی بڑتی ہوئی مقبولیت کے باعث تمام مخالف اور جھوٹی
پارٹیوں کی طرف سے احمقانہ الزامات لگائے گئے۔جن میں سے ایک بچگانہ الزام
یہ بھی تھا کہ عمران خان کیوں ایسے عناصر کو پارٹی میں جگہ دے رہے ہیں جن
کا ماضی داغدار ہے۔ عمران خان نے ان عناصر کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے
کہا۔جب نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو
انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ اسلام میں صرف وہی لوگ شامل ہو سکتے ہیں
جن کا ماضی پاک صاف ہو۔آپ نے سب کو اسلام کی دعوت دی۔ اور اسلام کا دائرہ
کارسب پر واضح کیا۔ اور بتایا کہ جو جو برے کام وہ کرتے رہیں ہیں اب وہ ان
سب کو چھوڑنا ہونگے۔اور اب اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی۔میں
تمام مسلمانوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا اہلِ اسلام کا فرض نہیں ہے کہ وہ آپ
کی پیروی کریں؟ آپ کا جواب ہاں کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔لیکن
ہمارہ معاشرہ ایسے افراد کو قبول کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں ہے جن کا ماضی
داغدار ہو۔اگر وہ سچے دل سے توبہ کر لیں اور اس ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس
کر دیں تو میرا خیال ہے ایسے لوگوں کو سدھرنے کا ایک موقع ملنا چاہیئے۔
پچھلے دنوں چلنے والی تبدیلی کی ہوانے جہاںلاکھوں لوگوں کی زندگی میں
تبدیلی کا ہیجان بھرپا کیا ہے وہیں بہت سی نئی نئی افواہیں اور نئے نئے
پراپیگنڈے جنم لے رہے ہیں۔عمران خان کے جلسے نے جہاں ان کے لئے سیاست کے
نئے باب کھول دیے ہیں وہاں عوام میں کچھ تحفظات بھی جنم لے رہے ہیں۔ کہ
عمران خاں کرپٹ بیک گراوئنڈ والے سیاست دانوں کو پارٹی میں شامل کر رہے
ہیں۔میں عمران خان کو یہی مشورا دوں گا کہ وہ پارٹی میں سب کو شامل کریں
لیکن ان لوگوں پر واضح کر دیں کہ عوام ایسے سیاستدانوں کوصرف اسی صورت میں
معاف کر سکتی ہے کہ وہ نہ صرف عوام کا اور ملک کا لوٹا ہواپیسہ واپس کریں
بلکہ قوم سے معافی بھی مانگیں۔ ہمارے نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں۔اور یہ
سرمایہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے ،ان سے ہماری توقعات یہی ہیں کہ وہ اس
سرمائے کو سہی طریقے سے استعمال کریں گے اور ملک کو نئی راہ پر گامزن کریں
گے۔جہاں پر عمران خان کی ذمہ داریاں ہیں وہیں نوجوان نسل کی بھی بہت سی ذمہ
داریاں ہیں۔نوجوانوں سے میں یہی کہوں گا کہ وہ ایسے افراد پر کڑی نظر
رکھیںجنہوں نے ہمارے پیارے وطن میں لوٹ کا بازار جما رکھا ہے۔جو عوام کے
جذبات سے کھیلتے آئے ہیں اور ابھی بھی کھیل رہے ہیں۔ایسے افراد کے ہاتھوں
اب عوام کھلونا نہیں بنے گی۔اب نوجوان نسل کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنا
مرنا جینا نہیں بنائے گی۔میں نوجوانوں سے یہی کہوں گا کہ وہ عمران کا ساتھ
تو ضرور دیں لیکن اگر وہ حکومت میں آکر عوام سے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری
نہیں کرے گا تو عوام اس کا ٹرائل لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔
عمران خان واحد لیڈر ہیں جن کے بارے میں ہر قلمار نے لکھا اور ان کے کھرے
پن کی تعریف کی ہے ماسوائے چند ایک بزرگ قلمکاروں کے جو مخالف پارٹیوں کے
چہیتے ہیں یا جو بڑھاپے میں سٹھیا گئے ہیں کیونکہ وہ وقت تبدیل ہوتے دیکھنا
نہیں چاہتے۔یہ نہیں جانتے زمانہ بدل رہا ہے وقت بدل رہا ہے۔آج کا نوجوان
باشعور نوجوان ہے۔ وہ جانتا ہے پاکستان کو قائد کا پاکستان کیسے بناناہے وہ
جانتا ہے پاکستان کو درندوں سے کیسے بچانا ہے۔وہ جانتا ہے اس ملک کو عظیم
کیسے بنانا ہے۔وہ سب جانتا ہے جو یہ بزرگ قلمکار چھپانا چاہتے ہیں ۔جن بڑے
قلمکاروں نے عمران خان کے بارے میں لکھتے ہوئے قلم کا ٹھیک طریقے سے
استعمال کیا ہے ان میں سے ایک نام حامد میر کا ہے۔اس کے علاوہ جاوید
چودھری‘حسن نثاراورہارون رشیدہیں۔حامد میر صاحب لکھتے ہیں کہ عمران خان
مشکل راستے کا مسافر ہے۔وہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکی قوم کیلیئے روشنی
تلاش کر رہا ہے۔آپ اس کے کچھ ہم سفروں کے داغدار ماضی پر سوال اٹھا سکتے
ہیں اس کی سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کی نیت پر شک وہی کر
سکتا ہے جو خود بد نیت ہے۔ |