دسمبر لوٹ آیا ہے جب بھی دسمبر
آتا ہے تو کئی پرانی یادیں اور پرانے زخم بھی تازہ ہوجاتے ہیں لیکن یہاں یہ
بات بھی بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ دسمبر اور ساون میں بھی کوئی قدر
مشترک ہے کیونکہ ان موسموں میں شاعرانہ طبیعت مزید بے تاب ہوجاتی ہے اور
الفاظ غزلوں اور شاعری کی صورت میں بہتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ بھی اٹل
حقیقت ہے کہ دسمبر میں کچھ ایسی تلخ یادیں بھی ہیں جن سے ہم نظریں نہیں چرا
سکتے اور ان بدنام داغوں کواورتلخ لمحوں کو جتنا بھی بھلانے کی کوشش کریں
تو ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ، کیونکہ وہ بھی دسمبر تھا جب پاکستان دولخت
ہوگیا تھا اور میرے پیارے ملک کا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا پیارے پاکستان
کو دوٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا جی ہاں وہ دسمبر ہی تھا جب سرد ہوائیں
چل رہی تھیں جب موسم میں خنکی تھی لیکن جذبات گرم تھے پاک فوج کے جری
نوجوان جذبہ شہادت سے لیس تھے لیکن پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ آخری دم تک
لڑنے والی اور موت کی کو ہنس کر گلے لگانے والی قوم کے سپاہیوں نے ہتھیار
کیوں ڈال دئیے ؟کیوں وہ سرینڈر ہوگئے؟کیا وہ موت سے ڈر گئے؟آخر ایسی کیا
وجہ تھی کہ انہیں اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا پڑا؟جب میں یہ باتیں سوچتا
ہوں تو میرا سرشرم سے اور ندامت سے جھک جاتا ہے میں پشیماں ہوجاتا ہوں اور
سوچتا ہوں ایسی کونسی سازش ہوئی جس کی وجہ سے میرے ملک کو تقسیم ہونا
پڑا،دسمبر میں جب پاک فوج نے ہتھیار ڈالے اور جب انہیں قید کرکے لے جایا جا
رہا تھا تو اس وقت دیکھنے والوں کی آنکھوں میں حیرانگی تھی کہ یہ اس قوم کے
نوجوان ہیں جو موت کو عزیز رکھتی ہے اور جس نے چھ سال پہلے 1965میں ہمیں
ایسا سبق سکھایا تھا کہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ لوگ بھی ہتھیار ڈال
سکتے ہیں،دسمبر میں لگنے والا پاکستان کی تاریخ میں یہ بدنما دھبہ جو شاید
کبھی نہ دھل سکے دسمبر کے آتے ہی یہ زخم پھر سے تازہ ہوجاتا ہے لیکن آج ہم
یہ عہد کریں کہ ہم سب ایک ہیں ہم نے پنجابی،پٹھان،بلوچی،سندھی،اور کشمیری
سے اپنی پہچان نہیں کروانی،ہم سب ایک مسلمان اور سبز ہلالی پرچم کے نیچے
صرف پاکستانی ہیںاور پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر نظر کو ہم پھوڑ ڈالیں گے
،اور اپنے اس پیارے چمن کی حفاظت کے لئے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں
کریں گے۔
دسمبر میں ایک اور سانحہ بھی ہوا ،جس نے پاکستان سے ایک ذہین سیاستدان کو
ہم سے چھین لیا ،جی ہاں وہ بھی ماہ دسمبر تھا جب بینظیر بھٹو کو راولپنڈی
میں ایک جلسہ عام میں شہید کر دیا تھا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ان کے
قاتلوں کا پتا نہیں چلایا جا سکا، دسمبر میں جہاں بہت سی تلخ یادیں ہیں
وہیں پر عیسائی برادری میں دسمبر خوشیوں کا باعث بھی ہے جو کرسمس بڑی دھوم
دھام سے مناتے ہیں وہ بھی ماہ دسمبر تھا جس میں بانی پاکستان قائد اعظم
محمد علی جناح پیدا ہوئے اور جن کی کوششوں سے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی
جیسی لازوال دولت نصیب ہوئی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا
ہمیں اس ماہ یہ بھی عہد کرنا چاہئے کہ قائد نے جس پاکستان کو بنانے کے لئے
دن رات ایک کر دیئے تھے ہمیں اس پاکستان کو بچانے اور چلانے کے لئے دن رات
ایک کرنا ہوگا تاکہ اس پیارے سے چمن میں بہار آجائے ،
خدا کرے مرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ ءزوال نہ ہو
دسمبر کا تذکرہ ہو رہا ہے تو اسی دسمبر کی بھی بات کئے جاتے ہیں کہ ابھی
موسم تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہلکی ہلکی ٹھنڈ پڑنا شروع ہوچکی ہے لیکن سیاسی
موسم میں کافی گرمی دیکھنے میں آرہی ہے ،اس دسمبر میں25تاریخ کو کافی اہمیت
حاصل ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کرسمس بھی اسی تاریخ کو ہے اور بابائے قوم
بھی اسی تاریخ کو پیدا ہوئے تھے لیکن ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی اس
تاریخ کو کافی اہمیت حاصل ہے کیونکہ 25دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف کراچی
میں جلسہ عام کر رہی ہے اور اس جلسے پر ساری سیاسی جماعتوں کی نظریں لگی
ہوئی ہیں اور دوسری طرف اسی تاریخ کو جماعت اسلامی لاہور میں دھرنا دے رہی
ہے دیکھتے ہیں کہ یہ سیاسی اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے، دسمبر لوٹ آیا ہے جب
بھی دسمبر آتا ہے تو کئی پرانی یادیں اور پرانے زخم بھی تازہ ہوجاتے ہیں اس
طرح نئی زخم اور نئی یادیں دے کر یہ دسمبر بھی گزر جائے گا۔۔اللہ ہم سب کا
حامی و ناصر ہو۔۔آمین |