16دسمبر 1971ء کادن پلٹن میدان میں ہتھیار
ڈالنے کی منظرکشی نے ہمارے جسد ملی کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں
کے دلوں کو بھی دونیم کردیا۔ صرف 24 سال کے قلیل عرصے میں دو قومی نظریہ،
مشترکہ جدوجہد ، تاریخ اور ورا ثت کے امین ایک دوسرے سے برسر پیکار ہوگئے۔
یہ منظر آج بھی تاریخ کے صفحوں سے جھانک کر ہمیں مضطرب کردیتا ہے۔
سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا انتہائی مشکل سوال ہے۔ اس سے صرفِ نظر
ہماری اجتماعی دانش پر دھبہ ہے۔اسی لئے ہم حال کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے
ہیں ۔قیام پاکستان نے ہندومت کی بالادستی کے خواب کو ایک حسرت میں بدل دیا۔
لہٰذا دفاعی، معاشی ،علمی اثاثوں سے محرومی، فسادات، لاکھوں بے گناہوں کا
قتل عام ،ہجرت اور سازشیں اس کا مقدر بنادی گئیں۔ تعصب اور جانبداری کی
انتہا تھی کہ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان کوئی راہ داری نہ تھی بلکہ
16سو کلو میٹر رقبے پر محیط ہندوستان حائل تھاجہاں سے زہریلا پروپیگنڈہ دن
رات غلط فہمیوں کو پھیلاتا ، افواہوں کو جنم دیتا اور حالات کو دھندلا
بناتا۔
حاجی شریعت کے دیش نے صدیوں تک انگریزی استعمار اور پھر ہندو استحصال کا
شکار ہونے کے باوجود سیاسی شعور کا ثبوت دیا ۔ مسلم لیگ پاکستان کی خالق
جماعت ڈھاکہ میں وجود میں آئی ،مگر فہم و فراست سے عاری حکمرانوں نے
مسلمانانِ بنگال کو قومی دھارے سے کاٹ دیا ۔ غربت ،افلاس تو ملک کے دونوں
حصوں میں یکساں تھا مگر احساس محرومی کو اجاگر کرنے اور مغربی پاکستان کو
غاصب کے طور پر پیش کرنے میں ہندو لابی کار فرما تھی۔پے در پے قحط اور
سیلاب کے پیچھے قدرت کے ساتھ سا تھ ،ہندوستانی دریاﺅں پر بند کی منصوبہ
بندی کا نتیجہ تھے۔
تعلیمی اداروں میں موجود ہندو اساتذہ ،نظریہ پاکستان کی نفی کرتے اور قوم
کے اثاثے طلبہ میں اسلام دشمنی ، عصبیت کا رنگ گہرا کرتے۔
عاقبت نااندیش قائدین نے بنگلہ زبان کی سرکاری حیثیت منسوخ کرکے طلبہ کو
مشتعل اور محب وطن بنگالیوں کو مایوس کردیا۔ فوجی اور سیاسی طالع آزماﺅں کی
ذاتی چپقلش نے ملک کا مستقبل داﺅ پر لگا دیا۔ متواتر مارشل لاءنے احساسِ
محرومی کو دوآتشہ کردیا۔مجیب الرحمان کا چھے نکاتی منشور ہو یا صوبائی
خودمختاری کا مطالبہ ،خدا اور خلق سے بے نیاز اقتدار پر قابضین نے کسی کو
درخورد اعتنا نہ جانا (یہ روش آج بھی ہے!!) اگر یہ دونوں باتیں مذاکرات کی
میز پر کی جاتیں تو المیہ کی شدت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آجاتی۔
علیحدگی کی تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔عوامی لیگ کی اکثریت سے کامیابی
نے انتہا پسندی کی خلیج کو اور گہرا کردیا ۔انتخابات کے نتائج بھی قومی
حمیت کو نہ جگاسکے۔ امن واما ن کی بگڑتی صورت حال پر مذاکرات کے بجائے
شرپسندوں کی سرکوبی کا نسخہ آزمایا گیا ۔ یوں چنگاریوں کو ہوا دے کر قومی
وحدت اور سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا اور پھر ملت اسلامیہ کی
آنکھ کا تارا پاکستان دولخت کردیاگیا۔
ملت کفر کا مثالی اتحاد مسلمانوں کو لسانیت کے نام پر تہہ تیغ ہوتا دیکھ کر
آسودہ ہوا۔ امن ،انصاف اور انسانیت کے نام پر کوئی بین الاقوامی ادارہ
پاکستان کی طرف نہ بڑھا۔ اسرائیل،امریکہ اور ہندوستان اسلام کے نام پر بننے
والی ریاست کی مکمل شکست کے خواہاں تھے۔ پاکستان کے قیمتی اثاثے اجاڑ کر
نشان عبرت بنادیئے گئے۔ بیٹیاں بتول کی،کلکتہ کے بازاروں میں سجادی
گئیں۔یوں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا گیا۔
90 ہزار فوجیوں کی ذلت آمیز قید سے بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ ہم نے یہ المیہ
قومی زندگی سے خارج کر دیا ۔ زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو سانحات کو لوح دل
پر اپنے لہو سے رقم کرتی ہیں ۔بلاشبہ ہمارے اھل دانش اور بینش اپنا فرض ادا
نہ کرسکے ورنہ کم ازکم نو ہزار کتابیں تو وجود میں آجاتیں۔ نوسو حلقہ
فکرونظر تو قائم ہو جاتے!!!
اے کاش مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کی منطق نہ بگھاری
جاتی!اگر مغربی محاذ ( جہاں ایک گولی چلائے بغیر جنگ بندی ہوگئی) پر طبل
جنگ بجایا جاتا تو صورت حال کتنی مختلف رہتی اور
ہماری سیاسی اور فوجی قیا دت کا احتساب ان تاریخی لمحوں کی غلطی کا کفارہ
تھے اور آج بھی واجب الادا ہیں !! ریاست کا دفاع صرف سپاہ کا کا م نہیں!
ساتھ ہی اہل دانش اٹھیں اور نسل نو کی آبیاری کریں شائد کہ ان میں کوئی
اقبال،قائد، جوہر پوشیدہ ہو! تاکہ آئندہ کسی کو مملکت کی نظریاتی اور
جغرافیائی سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہو اور ایک تابناک
مستقبل کے سفر کا آغاز ہو!!! |