(گزشتہ سے پیوستہ) پہلے حصہ میں
یہ بات آچکی ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی مجلس عاملہ نے نئی دہلی میں
منعقدہ اپنی میٹنگ مورخہ 26 نومبر میں ”رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ، ڈائرکٹ
ٹیکسز کوڈ اور وقف بل “ میں مطلوبہ اصلاحات کےلئے ”احتجاجی“ تحریک چلانے کا
اعلان کیا ہے، جس کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ مقصد اس ”احتجاجی “تحریک کا
یہ بیان کیا گیا ہے کہ حکومت ”دباﺅ“ میں آکر مطوبہ اصلاحات کرے۔ تحریک کو
منظم کرنے کےلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کے کنوینر محترم ولی رحمانی
ہیں۔انہوں نے مونگیر شریف میں ایک جلسہ کرکے مہم کا آغاز بھی کردیا ہے جس
کی خبر 12دسمبر کے اخباروں میں شائع ہوئی ہے۔ ہمارا ناچیز موقف یہ ہے کہ
موجودہ سیاسی ماحول میں اس کی کوئی جواز نہیں ۔’احتجاجی سیاست‘ سے الٹا
نقصان کا اندیشہ ہے ۔ مسلم دشمن طاقتیںمنظم مخالفت پر کمربستہ ہوجاتی ہیں ،
حکومت کچھ کرنا بھی چاہے تو نہیں کرپاتی۔ اس کو بہانا بھی مل جاتا ہے۔
بورڈ کے بیان میں تحریک کے ساتھ” احتجاجی“ کی صفت کی تکرار ہے،جس کا مطلب
دھرنے ، مظاہرے، بھوک ہڑتال اور ریلیاں ہیں۔ہم نے کمیٹی کے ایک معززرکن سے،
جن کا مشغلہ علمی ہے، رابطہ قائم کیا ، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اس آئینی
حقوق بچاﺅ تحریک کے خد و خال کیا ہونگے؟تو انہوں نے فرمایاکہ وہ سمجھتے ہیں
کہ مطلوب عوامی بیداری ہے۔ اگردھرنے،مظاہرے اور ریلیاں ہوئیں تو وہ اس میں
شامل نہیں رہ سکیں گے۔ خدا کرے ان کا یہ گمان درست ہو۔ بورڈ کی کوئی
باضابطہ وضاحت توسامنے نہیں آئی کہ تحریک کا کیا رنگ ڈھنگ ہوگا تاہم کمیٹی
کے کنوینر صاحب نے ’فرزندان توحید “کو” متنبہ “کیا ہے کہ وہ ” بورڈ کی آواز
پر لبیک کہنے کےلئے تیار رہیں۔“واللہ اعلم ’تیار رہنے‘ سے کیا مراد
ہے؟بہرحال ایسی بیداری مہم کے جلومیں جن بہت ساری بیزاریوں کے در آنے اور
مسلم دشمن طاقتوں کی منظم مخالفت کا جو اندیشہ ہے اس کو پیش نظر رکھاجانا
چاہئے۔ مسلمانوں کو کسی بھی عنوان احتجاج پر اکسانا ہرگز قرین مصلحت نہیں
اوربورڈ کا یہ کام بھی نہیں کہ وہ انا ہزارے کی طرح احتجاجی مہم چلائے تاکہ
مسلم دشمن عناصرکو سیاسی فائدہ پہنچے۔
گزشتہ قسط میں قانون حق تعلیم ، راست ٹیکس کوڈ کے سلسلہ میںمعروضات پیش کی
گئیں۔یہ دونوں معاملات ایسے ہیں کہ ان سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم
بھی متاثر ہونگے ۔ایسی صورت میں مسلمانوں کی جان و مال کو داؤں پر لگادینا
مناسب نہیں۔ البتہ اوقاف کا مسئلہ خالصتاً مسلمانوں کا ہے جس سے سبھی طبقے
متاثر ہونگے۔ ہرچند کہ معاملہ جس مرحلے میں ہے اس میں احتجاجی تحریک کی
چنداں ضرورت نہیں ، جس کی وضاحت آگے آئیگی ، بفرض محال ضرورت ہوبھی تو
فیصلہ سب طبقوں کے رائے مشورہ سے کیا جانا چاہئے ۔ وقف (ترمیمی بل) 2010لوک
سبھا میں 27 اپریل 2010کو پیش ہوا اور مختصر بحث کے بعد7 مئی ، بروز جمعہ
منظور ہوگیا۔ اس کے بعد پتہ چلا کہ اس میں کئی ایسی شقیں شامل ہیں کہ رہے
سہے اوقاف بھی تباہ ہوجائیں گے اور ان کی حیثیت عام خیراتی اداروں کی
ہوجائے گی۔ مستحقین کی شناخت میں وقف کے مقاصد اور واقف کی منشاءکو بالائے
طاق رکھدیا جائیگا۔ سرکاری عملہ جس جائداد کو چاہے گا ’مفاد عامہ‘ میں اپنی
تحویل میں لے لےگا اوروقف بورڈ جس کو چاہے گا فروخت کردیگا، حالانکہ اصولاً
نہ تو وقف املاک کو فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ان مدات میں ہیرا پھیری کی
جاسکتی ہے جن کےلئے وقف قائم ہوا ہے۔ وقف بورڈوں کی تشکیل کے نئے ضابطے بھی
ایسے تجویز کئے گئے ہیں کہ مفاد خصوصی کی چاندی ہوجائگی۔ اس میں سچر کمیٹی
اور مجلس قائمہ کی ان متفقہ سفارشات کو نظر انداز کردیا گیا جن کا مقصد یہ
تھا کہ ناجائزقابضین کا جائدادوں سے انخلا آسان ہو۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ لوک سبھا میں بل کے منظوری تک کسی معزز رکن نے اس کی
خامیوں کی نشاندہی نہیں کی حالانکہ بقول خورشید صاحب کئی ممبران نے بحث میں
حصہ لیا۔ بہر حال راجیہ سبھا میں متعدد ارکان نے اس پر گرفت کی اوراس کے
بعد مسلم تنظیموں کی نیند بھی کھلی۔ چنانچہ چیرمین راجیہ سبھاجناب حامد
انصاری کے حکم پر بل کو ایک سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کردیا گیاجس کے چیرمین
پروفیسر سیف الدین سوز ہیں اور ممبران میں راشد علوی اور محمد ادیب جیسے
دیدہ ور شامل ہیں جو ملی معاملات کو سمجھتے ہیں اور ان کے مفادات کےلئے
سینہ سپر رہتے ہیں۔ ادیب صاحب تومسلم پرسنل لاءبورڈ کے بھی ممبر ہیں اور
مسلم مجلس مشاورت (مولانا سالم ) کے بھی۔
سلیکٹ کمیٹی کی کاروائیوں کی جستہ جستہ جو اطلاعات ملی ہیں ان سے اندازہ
ہوتا ہے کہ کمیٹی میں ان اعتراضات کو خاطر میں لایا گیا ہے جو اس بل پر
وارد ہوتے ہیں۔بل کے نقائص کا ایک تفصیلی تجزیہ ڈاکٹر سید ظفر محمودنے بھی
کیا ہے۔ڈاکٹر محمودسینئر روینیوآفیسر ہیں اور جسٹس سچر کمیٹی کے افسر بکار
خاص(او ایس ڈی) رہ چکے ہیں۔ ان کا یہ تجزیہ’ٹو سرکل نیٹ ‘ پراور زکوٰة فاﺅنڈیشن
کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ سلیکٹ کمیٹی نے متعدد مسلم تنظیموں اور شخصیات کو
اپنی میٹنگوں میں شرکت کی دعوت دی اور ان کے موقف کو سنا۔بورڈ کے رکن محمد
ادیب خو کمیٹی کے رکن ہیں۔ غالباً ان کی ایماءپر بورڈکے معزز رکن مفتی
عطاءالرحمٰن قاسمی کو ان کی انفرادی حیثیت میں بھی بلایا گیااورباضابطہ
بورڈ کے ایک وفد نے بھی تفصیل سے اپنا موقف پیش کیا۔ اس وفد کی قیادت جناب
عبدالرحیم قریشی نے کی ، یوسف ہاشم مچھالہ ایڈوکیٹ،شبیر بھائی نورالدین
اورکمال فاروقی کے علاوہ جناب ولی رحمانی بھی وفد میں شریک تھے۔ اس ملاقات
کے بعد 6اکتوبر کے سیاست حیدرآباد نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں پروفیسر سوز
سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ’ کمیٹی نے بورڈ کی بیشتر سفارشات کو قبول کرلیا
ہے اور اس پر بورڈ نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔‘اس ضمن میں دہلی سے شائع
ہونے والے روزنامہ ’جدید خبر‘ اور بعض دیگر اخباروں میں’عالمی اردو سروس ‘
کے حوالہ سے مشاورت کی عاملہ کی ایک میٹنگ کی روداد کا حوالہ بھی بے محل
نہیں ہوگا۔ یہ میٹنگ 5 نومبر کو محترم مولانا سالم قاسمی مد ظلہُ کی صدارت
میں دہلی میں منعقد ہوئی۔ ’جدید خبر‘معتبر اخبار ہے اور نیوز ایجنسی کے
ایڈیٹر منظور شیخ بھی معتبر صحافی ہیں۔اس لئے خبر کی معتبریت پر شک کرنا
دشوار ہے۔اس میں کہا گیا ہے:” ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے وقف ایکٹ پرسلیکٹ
کمیٹی کی سفارشات کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ آل انڈیا
مسلم پرسنل لاءبورڈ اور دوسری مسلم تنظیموںکی تجاویز پر کمیٹی میں سنجیدگی
سے غور کیا گیا اور ان میں سے کم و بیش سبھی مطالبات مان لئے گئے ہیں، جس
سے نہ صرف یہ کہ وقف املاک کی حفاظت ہوگی انکا صحیح استعمال بھی ہوگا۔ مسٹر
ادیب نے کہا ان کو امید ہے کہ آئندہ ہفتہ ان سفارشات کو حتمی شکل دی
جائیگی۔انہوںنے مزیدکہا کہ وقف املاک سے ناجائز قبضے ہٹانے کےلئے سخت
انتظامات کئے جائیں گے۔“ اس میٹنگ میں جناب ولی رحمانی بھی موجود تھے۔ ادیب
صاحب نے ناجائز قبضوں سے متعلق جو اطلاع دی اس کی تائید وزیر مملکت اقلیتی
امور ونسٹ پالا کے اس تحریری جواب سے ہوتی ہے جو راجیہ سبھا میں ایک سوال
پر دیا گیا ہے اور جس کو پی آئی بی نے 29نومبر کوجاری کیا ۔انہوں نے بتایا
کہ ناجائز قبضہ ناقابل ضمانت جرم قراردیاجائے گا اور قبضہ دار کو دو سال تک
قید بامشقت ہو سکتی ہے۔
یہاں یہ تفصیلات اس لئے بیان کی گئیں کہ قارئین کو یہ اندازہ ہوجائے کہ
پارلیمنٹ اس معاملہ میںفکر مند ہے۔ ادیب صاحب کا بیان اس لئے اہم ہے کہ
پارلیمنٹ میں ان پر کسی پارٹی کی چھاپ نہیں ہے وہ سلیکٹ کمیٹی میں بھی ہیں
اور بورڈ کے ذمہ دار رکن بھی ہیں۔ چنانچہ اصولاً سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات کا
انتظار کیا جانا چاہئے اور یہ دیکھاجانا چاہئے کہ جناب سلمان خورشید کی
وزارت کن سفارشات کوقبول کرتی ہے۔ ایک تازہ خبر یہ ہے کہ جناب کے رحمٰن کی
قیادت میں تقریباً تیس مسلم ممبران پارلیمنٹ نے 12 دسمبر کو وزیر اعظم سے
ملاقات کی اور ان کو مسلم مسائل کے حل کی جانب متوجہ کیا۔ وفد کی تجاویز پر
وزیر اعظم کا رویہ ہمدردانہ اور مثبت رہا اور یہ توقع کی جانی چاہئے کہ
موجودہ سرکار دیر سویر کچھ کرنے پر آمادہ ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے حق تعلیم
ایکٹ میں ترمیم کی جارہی تاکہ مدارس کے طلباءکو اس کی زد سے خارج کیا جا
سکے ۔ایسی صورت میں ” تاکہ حکومت دباﺅمحسوس کرے“ کے تحت کسی ”احتجاجی “
تحریک کا کیا جواز ہے؟
اوقاف سے متعلق سچر کمیٹی کی دو اہم سفارشات پر ملی تنظیموں نے (بجز زکوٰة
فاﺅنڈیشن) توجہ نہیں دی ہے۔پہلی یہ کہ وقف بورڈوں کو مطلوبہ اہلیت کے لائق
افسران فراہم کرانے کےلئے سول افسران کا ایک الگ کیڈر آئی اے ایس، آئی پی
ایس اور آئی آر ایس کی طرز کا قائم کیا جائے تاکہ وہ یکسوہوکر اوقاف کی
نگرانی کا حق ادا کرسکیں۔ اوقاف کے معاملات جنرل ایڈمنسٹریشن سے مختلف ہوتے
ہیں۔ اس میں کچھ نزاکتیں شرعی حدود کی بھی ہوتی ہیں، جن کو سمجھنا اور ہضم
کرنا ہر سول افسر کےلئے ممکن نہیں، خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ ان کی تقرری
قطعی عارضی ہو۔ سردست صورت حال یہ ہے کہ کسی سرکاری افسر کو مختصر مدت
کےلئے یا اضافی چارج دیکر بورڈ کا افسر اعلا مقرر کردیا جاتا ہے یا پھر کم
درجہ کے اہلکاروں کی تقرری کردی جاتی ہے۔ان میںبعض افسر تو اردوبھی نہیں
جانتے، حالانکہ اوقاف کی اکثر دستاویزات اردو میں ہی ہیں۔ ایسی صورت میں
افسران اپنی ذمہ داری کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ اس طریقہ کار کابالواسطہ ایک
نقصان یہ ہوتا ہے کہ سرکاری دفتروںمیں مسلمان افسران جو پہلے ہی کم ہیں اور
کم ہوجاتے ہیں۔اس لئے یہ مطالبہ معقول ہے کہ الگ ’انڈین وقف سروسز‘ کیڈر
قائم ہو۔ اس سفارش پر زور دیا جانا چاہئے۔ دوسری اہم سفارش یہ تھی کہ سنٹرل
وقف کونسل کا سیکریٹری جائنٹ سیکریٹری رینک کا افسر ہونا چاہئے تاکہ وہ
دیگر افسران سے مکمل اختیار کے ساتھ مکالمہ کرسکے نیز یہ کہ وقف اوقاف
املاک کو کرایہ داری قانون سے مستثنٰی کیا جائے ۔
ایک مشورہ: مسلم پرسنل لاءبورڈ میں ایسا نظم ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ اور
اسمبلیوںمیں پیش ہونے والے بلوںپر نظر رکھی جائے اور ان میں ایسے نکات پر
حکومت کوبروقت متوجہ کرایاجائے جن کی زد براہ راست شرعی احکامات پر پڑنے کا
اندیشہ ہو۔ مثلاً”غذائی تحفظ اورمعیارات ایکٹ“ Food Safety and Standards
Act, 2006 (34 of 2006) کے تحت 21 اکتوبر2011کوجاری کردہ خصوصی گزٹ میرے
پیش نظر ہے۔ Food Safety and Standards (Licensing and Registration of
Food Businesses) Regulations, 2011, کے عنوان سے جاری اس گزٹ میں ان
ضابطوں پر اعتراضات بھی طلب کئے گئے۔مگر شاید اس پر توجہ نہیں گئی۔ اس
مسودہ کے ضابطہ 4.1 قابل توجہ ہے جس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ جانور کو
ذبح کرنے سے قبل بے حس یا سن (Stunned) کیا جائے تاکہ ذبح سے اس کو تکلیف
نہ ہو۔ اس مقصد سے جانور کے سر میںبجلی کا کرنٹ گزارنا لازم ہوگا۔مسلم
پرسنل لاءبورڈ کو یہ طے کرنا ہوگا کہ ایسے ذبیحہ کا کھانا کیونکر جائز ہوگا
جس کو ذبح کرنے سے پہلے بیہوش کیا گیا ہو؟ اب اس بات کےلئے تیار ہوجانا
چاہئے کہ مذبح خانوں سے جو گوشت آپ کے دسترخوان پر آئیگا وہ مشکوک ہوگا۔ اس
پر شور تو مچے گا مگر اس وقت جب سرکاری عملہ اس کے نفاذ کےلئے تادیبی
اقدامات شروع کریں گے۔
حرف آخر:ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اور اسلام میں سیاست شجر ممنوعہ
نہیں۔اپنے مسائل کے حل کےلئے سیاسی تدابیر کی جاسکتی ہیں۔ لیکن سوچ سمجھ
کر۔ایسی نظیریںموجود ہیں کہ جو کام خاموشی سے کرایا جاسکتا ہے، وہ شور
مچاکر اور احتجاجی سیاست سے نہیں ہوپاتا۔ مسلم پرسنل بورڈ کے وہ معزز
ممبران جن کی دلچسپی سیاست میںہے، بیشک اپنی دلچسپی برقرار رکھیں ۔لیکن اس
کےلئے بورڈکو پلیٹ فارم بنانا خلاف مصلحت ہے۔بورڈکا کام سیاست میں ملوث
ہونا نہیں ۔ چنانچہ بورڈ کے بانی صدر مولاناسید ابوالحسن علی میاںؒ نے اس
موقف کو اس وقت واضح کردیا تھا جب باجپئی حمایت کمیٹی کے بعض ارکان ان کو
رام کرنے پہنچے تھے۔ مولانانوراللہ مرقدہ نے فرمادیا تھا ’’حمایت یا مخالفت
کسی کی نہیں ، دعائیں سب کےلئے ہیں“۔ (ختم)
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں) |